ایک قیدی کا کھلا خط

کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر اور غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے۔

KARACHI:
کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر اور غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ڈسٹرکٹ ملیر جیل لانڈھی کراچی میں اپنے ناکردہ گناہوں اور پولیس کی جانبداری و زیادتی کے سبب قید اور چیف جسٹس آف پاکستان سے انصاف کا منتظر ہوں، اس لیے دوران قید آئے دن مختلف نوعیت کے مقدمات میں ملوث ملزمان سے حال احوال رہتا ہے۔ بحیثیت کالم نویس دوران اسیری پولیس کے انوکھے انوکھے کارنامے مشاہدے میں آ رہے ہیں۔ جنھیں دیکھنے کے بعد ریاستی اداروں پر اعتماد و یقین ختم ہوتا جا رہا ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصد بے قصور افراد کی کمزور ناتواں فریاد طاقتور ایوانوں تک پہنچانے کے لیے آپ کے موقر جریدے کا نہایت مشکور ہوں۔ چونکہ یہ فریادیں حالات و واقعات کے ساتھ شنید سے زیادہ دید ہیں اور ایک قیدی کے پاس دوسرے کے حالات کو سننے اور پرکھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا، اس لیے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی پرکھ میں کوئی شائبہ نہیں رہتا۔

''کراچی آپریشن'' میں ڈیڑھ ماہ کے دوران وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے مطابق چھ ہزار سے زائد ملزمان گرفتار کیے۔ 9 سو افراد کو غیر قانونی اسلحہ اور ایک ہزار منشیات فروشی کے الزام میں افراد گرفتار کیے گئے۔ تقریباً دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل شہر کراچی میں پولیس اور رینجرز نے مل کر 6 ہزار افراد گرفتار کیے اور اب تک صرف 742 افراد کے چالان پیش ہوئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر سندھ حکومت نے 12 روزہ مہم میں 12 اکتوبر تک کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صرف ناکامی حاصل کی اور صرف 16 ہتھیار جمع ہو سکے۔ غالب امکان ہے کہ شاید یہ بھی حکومت نے خود جمع کرائے ہوں۔ غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کی ناکام مہم کی بنیادی وجہ عوام کا ریاستی اداروں پر عدم اعتماد اور بے گناہ ثابت ہونے کے باوجود میڈیا ٹرائل کے خوف سے جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کی روش ہولناک نتائج دے گی۔ جب کہ دوسری طرف آئی او (انویسٹی گیشن آفیسر) کی جانب سے تاخیری حربے اور غیر قانونی اسلحے کے حوالے سے 23/A کے نئے قانون کے تحت مقدمات درج ہو رہے ہیں جو پہلے 13/D کے تحت گرفتاریاں کی گئیں وہ حکومتی اداروں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

ارباب اختیار یہ نہیں سوچتے کہ بے گناہ افراد کی غیر قانونی گرفتاریوں کے کس قدر بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ 23/A کے تحت بے گناہ نوجوان اور خاندانوں کی زندگیاں دائو پر لگ چکی ہیں اور ان نوجوانوں کا مستقبل تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ غیر قانونی اسلحہ کے 95 فیصد مقدمات مکمل جھوٹ پر مبنی ہیں۔ FIR کے مندرجات یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں، مثلاً تقریباً ہر ملزم کو اسنیپ چیکنگ یا خفیہ اطلاع پر تلاشی لینے پر اسلحہ کی برآمدگی ظاہر کی جاتی ہے، کوئی پرائیوٹ گواہ نہیں ہوتا۔ بلکہ پولیس کا استدلال ہوتا ہے کہ ''پولیس نے خفیہ اطلاع پر ناکہ لگایا ہوا تھا، مشکوک فرد کو رکنے کا کہا، نہ رکنے پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے خطرناک ملزمان گرفتار کر لیے۔''

قابل غور نقطہ یہ ہے کہ ان FIR میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ فلاں علاقے کا محاصرہ کیا، یا گھر کی تلاشی لی جس کے بعد یہ غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا۔ چونکہ قانون کے مطابق گھر کی تلاشی کے لیے وارنٹ سرچ یا مجسٹریٹ کی موجودگی ضروری ہے اس لیے اس بکھیڑے میں پڑنے کے بجائے تلاشی راہ کی اصطلاح پر FIR درج کر دی جاتی ہے۔ آئی او بھی اپنی تفتیش میں یہ جاننے کے باوجود کہ مقدمات جھوٹے ہیں اپنی تفتیش کو من و عن سرکاری اہلکاروں کے بیانات قلم بند کر کے یا تو ریمانڈ لے لیتا ہے یا پھر کسی نے پیسے دیے تو جیل کسٹڈی کرا دیتا ہے۔


یہاں دلچسپ نقطہ یہ بھی ہے کہ ان مقدمات کی کوئی الائنس یا فارنزک رپورٹ نہیں ہوتی جس میں ملزم کے انگلیوں کے نشانات ثابت ہوں، بلکہ پولیس اہلکار اور مال خانے کے انچارج کے نشانات ہی ملیں گے۔ ملزمان کا کمال ہنر ہے کہ وہ ہتھیاروں پر اپنی انگلیوں کے نشانات کے بغیر اسلحہ لے کر کسی خطرناک ارادے سے نکلتے ہیں اور بہادر پولیس کے ہاتھوں دھر لیے جاتے ہیں۔ 99 فیصد تمام مقدمات کی کوئی فارنزک رپورٹ نہیں ہوتی۔

قابل توجہ یہ نقطہ بھی ہے کہ غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے بعد ملزم کی کوئی ''چین'' نہیں ہوتی کہ اس نے یہ اسلحہ کس سے، کہاں سے، کتنے کا خریدا۔ گھر میں بیٹھ کر خود ہی بنا لیا۔ 23/A کے تمام مقدمات جھوٹ کی کن بنیادوں پر قائم ہیں اور بے گناہ افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حالیہ آپریشن بس نمبرنگ گیم ہے، جس میں بے گناہ عوام کی گردنیں دائو پر لگی ہوئی ہیں۔ اس عمل کی بنا پر جیلیں بھر گئیں ہیں۔ لانڈھی جیل میں 1400 قیدیوں کی گنجائش سے بڑھ کر 3000 سے زائد قیدی بند ہیں جس سے متعدد مسائل کا انتظامیہ کو سامنا ہے۔

اسی طرح 96/A کے تحت منشیات فروشوں کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے کہ ان کی بھی کوئی ''چین'' نہیں کہ اس نے منشیات کس اڈے سے خریدی اور پولیس نے وہاں چھاپہ مارا یا نہیں؟ پکڑی جانی والی منشیات کس علاقے میں فروخت ہو رہی ہے۔ ان سے تفتیش خاموش رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹے مقدمات کی بہتات اور غلط تفتیشی عوامل کی وجہ سے عدالتوں میں بھی فوری مقدمات نہیں چلتے۔ ضمانتوں کے لیے تفتیشی افسران کے محتاج بن جاتے ہیں۔ کئی کئی ماہ و سال قابل ضمانت مقدمات میں بھی ضمانت نہیں ہوتی۔ اہم بات یہ ہے کہ معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو عیدین اور خاص تہواروں پر حکومت کی جانب سے ریلیف دی جاتی ہے جس پر ملزمان قبول داری کر کے جرم کی سزا مان لیتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ جج، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ صاحبان جیلوں کا وزٹ کر کے ملزمان سے درخواستیں وصول کرتے ہیں۔ جیل میں قید میعاد پوری ہونے اور بعض مقدمات میں معمولی نوعیت کے جرمانے عائد کر کے انھیں رہا کر دیتے ہیں۔ ایسے ملزمان کی جرم پر قبول داری کی اہم وجہ ان کا سزا کی میعاد سے زیادہ جیلوں میں رہنا اور مقدمات کا جلد فیصلہ نہ ہونا ہے۔ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کئی سال تک اسے معمولی نوعیت کے ملزمان کو انصاف کی فراہمی کے نام پر قید میں رکھ سکتی ہے بعد میں حکومت سزائوں پر نمبرنگ کر کے بتاتی ہے کہ کتنے ملزمان کو سزا دی گئی جب کہ حقائق برعکس ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ وہ کراچی میں جاری اس آپریشن میں پکڑے جانے والے غیر قانونی اسلحہ کو فارنزک رپورٹ اور ملزمان کے ہاتھوں کے نشانات سے ملائیں تو یقینی طور پر کراچی میں غیر قانونی اسلحہ سپلائی کرنے والوں کے باوردی ہاتھ نظر آ جائیں گے اور اس ڈھونگ آپریشن کا پول بھی کھل جائے گا۔ جرائم پیشہ افراد محفوظ اور بے گناہ پابند سلاسل ہیں۔ بے گناہ افراد پر اسلحہ رکھنے کے مقاصد کیا ریاست کے خلاف سازش ہے۔ ان واقعات سے حکومت مخالف سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ شریف عوام، جرم کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ ملک کو خانہ جنگی کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ انصاف پر یقین اٹھ رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے اور وزیر اعظم پاکستان سے آخری امید ہے کہ وہ تمام آپریشن کا از سر نو جائزہ لیں۔ حقیقی جرائم پیشہ عناصر کے بجائے بے گناہ افراد کی گرفتاریوں کا نوٹس لیں۔ تمام غیر قانونی اسلحہ کو فارنزک لیبارٹری میں چیک کروائیں۔ اگر روش نہ بدلی گئی تو کراچی تو کیا پورے پاکستان میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔
Load Next Story