افغان امن مذاکرات کی بحالی

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن عمل مذاکرات کا دوبارہ شروع ہونا خوش آیند ہے

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن عمل مذاکرات کا دوبارہ شروع ہونا خوش آیند ہے

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 3ماہ قبل تعطل کا شکار ہونے والے امن مذاکرات باقاعدہ طور پر دوبارہ بحال ہو گئے ہیں' امریکی خصوصی نمایندہ برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے، رپورٹ کے مطابق امریکا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان مذاکرات میں ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کے لیے طالبان کو قائل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن عمل مذاکرات کا دوبارہ شروع ہونا خوش آیند ہے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین کو احساس ہے کہ لڑائی ان کے مفادات کے حق میں نہیں ہے۔اسی احساس یا ادراک کو مدنظر رکھ کر ہی امریکا اور افغان طالبان کو حقائق کی دنیا میں واپس آنا پڑا ہے ورنہ جس انداز میں مذاکرات کا خاتمہ ہوا تھا۔

اسے دیکھتے ہوئے کہا جارہا تھا کہ اب دوبارہ مذاکرات کی بحالی میں شاید مزید کئی برس لگ جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور دونوں فریقوں نے امن کا موقع دینے کا فیصلہ کیا جو ایک دانشمندانہ قدم ہی کہلائے گا۔ اس کا جہاں فائدہ افغانستان میں برسرپیکارطالبان کو پہنچے گا وہاں مذاکرات کی بحالی سے سب سے زیادہ امریکا فائدہ اٹھائے گا کیونکہ امریکا کی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ وہ افغانستان کے بحران سے جان چھڑا لے۔

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ایک سال تک جاری رہنے والے مذاکرات اس وقت کھٹائی میں پڑ گئے تھے جب رواں سال ستمبر میں کابل میں دہشت گرد حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12افراد ہلاک ہو گئے تھے جس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے امن مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کر دیا تھا، انھیں دنوں طالبان امریکی صدر سے کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کرنے والے تھے مگر یہ ملاقات بھی منسوخ کر دی گئی۔

امریکا کی جانب سے مذاکرات معطل کرنے کے اعلان کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کی تیاریاں کر رہے تھے مگر امریکا نے اچانک مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا، انھوں نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی اس منسوخی کا زیادہ نقصان خود امریکا کو ہو گا۔

اس وقت یوں لگتا تھا کہ اب شاید مذاکرات کا ڈول نہ ڈالا جاسکے اور افغانستان میں جنگ مزید تیز ہوجائے۔امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی معطلی کا اعلان کرکے دنیا بھر کو حیران کردیا تھا، حالانکہ روس اور چین بھی چاہتے تھے کہ افغانستان میں امن ہوجائے کیونکہ اس ملک میں جاری جنگ کے اثرات وسط ایشائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ روسی فیڈریشن اور چین تک بھی پہنچ رہے تھے۔


ایران کی بھی خواہش تھی کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے تاکہ امریکا اور نیٹو افواج وہاں سے نکل جائیں جب کہ پاکستان تو امن عمل کا سہولت کار اور ایک اسٹیک ہولڈر تھا لیکن امریکا نے اس وقت جلد بازی کی اور مذاکرات کی منسوخی کی اعلان کردیا، لیکن امریکی انتظامیہ نے حالات کی نزاکت کا ادراک کیا اور چند روز پیشتر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ میں امن مذاکرات کی بحالی کا اعلان کردیا اور افغان طالبان بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئے ، یوں زلمے خلیل زاد اپنی سفارتکاری میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دوحہ میں جو مذاکرات ہورہے ہیں ، ان کا انجام کیا ہوتا ہے کیونکہ افغانستان میں صدارتی الیکشن ہوچکے ہیں لیکن اس کا رزلٹ تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔

نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان پر بھرپور حملہ کیا، اس نے افغان طالبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ڈیزی کٹر اور مدر آف آل بمز سمیت ہر قسم کے خطرناک ہتھیار استعمال کر ڈالے، بمباری کے اس جارحانہ سلسلے میں عام شہریوں کی شادی بیاہ کی تقریبات اور مدرسوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا اور ان پر بھی بمباری کرکے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ لے لی گئی، امریکا کی اس جارحانہ کارروائی میں سیکڑوں بے گناہ شہری بھی جاں بحق ہو گئے مگر امریکا اور نیٹو افواج نے کبھی اس پر معذرت خوانہ رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ اسے فرینڈلی فائرنگ کا نام دے کر معاملہ ٹھپ کر دیا۔

کمزور اور پہاڑوں میں چھپے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے انتہائی کمتر وسائل کے باوجود دنیا کی طاقتور ترین امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی اور گوریلا کارروائیوں کے ذریعے قابض افواج کو نقصان پہنچاتے رہے۔ یہ کہنا مشکل امر ہے کہ اس طویل جنگ میں طالبان یا امریکا میں سے کس کا زیادہ نقصان ہوا البتہ موجودہ صورت حال اس حقیقت کی مظہر ہے کہ امریکا تمام تر وسائل اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہو گیا۔ پاکستان نے تو ایک عرصہ قبل ہی یہ کہہ دیا تھا کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا' اس مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہی میں مضمر ہے۔

پاکستان نے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں فریقین کو مری میں بٹھا دیا مگر امریکا نے ملا عمر کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا نے ایک منصوبہ بندی کے تحت ان مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔ بعدازاں دوحہ میں جہاں افغان طالبان کا دفتر بھی ہے دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہا جس کا پاکستان نے بھی بھرپور خیرمقدم کیا۔

ستمبر میں زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نویں دور کے اختتام کے بعد یکم ستمبر کو کابل پہنچے اور انھوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات میں انھیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ کابل میں ایک مقامی ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد امریکا پہلے135دنوں میں افغانستان کے پانچ فوجی اڈوں سے پانچ ہزار فوجی نکالے گا۔

تاہم ان کے مطابق اس امن معاہدے کے مسودے پر تب عمل ہو گا جب صدر ٹرمپ اس کی توثیق کریں گے،کاغذ پر ہم اور طالبان امن معاہدے کے لیے متفق ہو گئے ہیں لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد تب ہو گا' جب امریکی صدر اس پر متفق ہوجائیں گے۔ اس سے پیشتر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد بھی آٹھ ہزار چھ سو امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔ اب امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ دوبارہ بحال ہوا ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بہرصورت جاری رہنا چاہیے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی آڑ لے کر اسے منسوخ نہیں کرنا چاہیے۔
Load Next Story