انسانی حقوق کا عالمی دن ۔۔۔ بین الاقوامی اداروں کو منافقانہ رویے ترک کرنا ہونگے
پاکستان میں رواں سال اس دن کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا جا رہا ہے، ایکسپریس فورم میں شرکاء کی گفتگو
SRINAGAR:
دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے آگہی دینا اور حکومتوں کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلا امتیاز ان کے حقوق فراہم کریں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن خصوصی طور پر منایا جاتا ہے۔
رواں سال اس دن کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے کیونکہ حکومت پاکستان نے اسے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا ہے لہٰذا اب انسانی حقوق کا عالمی دن کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے ، بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے اور دنیا کے سامنے بھارت کا سفاک چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے منایا جائے گا۔
ایک طرف بھارت ہے جو اپنے ملک میں رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے زندگی تنگ کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان ہے جو اپنے ملک میں موجود تمام مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق و تحفظ کیلئے کوشاں ہے۔
انسانی حقوق کی عالمگیر اہمیت کو سمجھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''انسانی حقوق کے عالمی دن'' کی مناسبت سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
( صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہی دنیا ہے۔ اس سال ہم نے انسانی حقوق کے عالمی دن کو کشمیر کے ساتھ منسلک کیا ہے تاکہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاسکے۔مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور وہاں80 لاکھ شہریوںکی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ دنیا میں بھارت کا سیاہ چہرہ بے نقاب ہورہا ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، اس حوالے سے بھارت نمبر ون ہے۔
افسوس ہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ چرچ جلائے گئے ، میرے ایک عزیز کو وہاںچرچ میں زندہ جلا دیا گیا۔ بدقسمتی سے بھارت میںاقلیتیں محفوظ نہیں اور جتنا ظلم مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے اتنا دنیا میں کہیں نہیں ہے۔
میں نے گزشتہ دنوں امریکا ، اقوام متحدہ و سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کیا۔ مجھے وہاں کے سربراہان اور سینیٹرز سے مل کر معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سفارتی محاذ پر بڑی کامیابی حاصل کی ہے کہ اب ہر کوئی مسئلہ کشمیر پر فکر مند ہے ۔ملک میں انسانی حقوق کی بات کریں تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں انسانی حقوق کی پالیسی لے کر آئی ہے اور ہم نے ایک ایکشن پلان بھی ترتیب دیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انسانی حقوق دنیا بھر میں عالمگیر توجہ حاصل کرچکے ہیں اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ اگر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے تو یہ دنیا سمٹتی چلی جائے گی۔پاکستان خصوصاََ پنجاب میں انسانی حقوق کو موثر بنانے کیلئے تندہی سے کام کیا جارہا ہے۔
تمام اداروں کا جائزہ لیں تو انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی تھانوں اور ہسپتالوں میں ہوتی ہے۔ ہم نے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں انسانی حقوق کے کورسز کروائے ہیں جبکہ محکمہ صحت کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ہم ڈاکٹرز کو انسانی حقوق کی تربیت فراہم کریں گے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور حقوق کو تحفظ دینا ہم سب کی ذمہ داری اور اخلاقی فرض ہے مگر بدقسمتی سے بیشتر جگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے لہٰذا اس حوالے سے آگاہی کی ضروت ہے۔ ہم انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی کیلئے تعلیمی نصاب میں مضمون شامل کررہے ہیں۔
اوپن یونیورسٹی کے انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں انسانی حقوق کی کتاب متعارف کروا دی گئی ہے جبکہ اب محکمہ سکولز ایجوکیشن کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کو بطور مضمون پڑھانے پر کام جاری ہے۔ سکولز ایجوکیشن ایک بہت بڑا محکمہ ہے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اساتذہ کی تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایک اچھا معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ ہم نے پنجاب کی سطح پر ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے، میں اس کا چیئرمین ہوں جبکہ تمام محکموں کے سیکرٹریز اس کے رکن ہیں۔
ہم نے 27 عالمی کنونشنز دستخط کر رکھے ہیں جن پر عملدرآمد کے حوالے سے 'ٹریٹی امپلی منٹیشن سیل' قائم کیا گیا ہے جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ہمارا جی ایس پی پلس بھی اس سے لنک ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی انسانی حقوق کی وزارت پہلے نمبر پر آئی ہے۔ یورپی یونین کے نمائندوں نے حال ہی میں اس سیل کی کارکردگی کو سراہا ہے۔
ہم نے ایک ویب پورٹل بھی قائم کیا ہے جو دنیا کے ساتھ لنک ہے اور یہ کام بطور ریاست اپنی بین الاقوامی کمٹمنٹ کو پورا کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے تمام صوبوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے پنجاب سے رہنمائی لیں لہٰذا ہمارے پاس ملک بھر سے سیکرٹریز آرہے ہیں اور ہم نے انہیں ٹریننگ بھی کروائی ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے ملتان میں اپنے ممبران کو تربیت فراہم کی جبکہ اب لاہور میں کرنے جارہے ہیں، اس کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کو گراس روٹ لیول تک لے کر جانا ہے۔ پہلے ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ کے معاملات لاہور سے چلائے جاتے تھے۔ اب ہم نے انسانی حقوق کی ضلعی کمیٹیاں بنائی ہیں تاکہ مقامی سطح پر ہی مسائل حل کرلیے جائیں۔
یہ کمیٹیاں گزشتہ 9ماہ سے کام کر رہی ہیں اور ان کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انسانی حقوق کی کمیٹی کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جبکہ ڈی پی او، سپرٹینڈنٹ جیل، سی ای او ہیلتھ، سی ای او ایجوکیشن اور سول سوسائٹی کے دو نمائندے رکن ہوتے ہیں۔ ہمارے ڈسٹرکٹ ممبرز تھانوں، جیلوں و دیگر جگہوں کا دورہ کر کے رپورٹ کرتے ہیں اور پھر ہم متعلقہ محکمہ سے رپورٹ طلب کرکے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں اقلیتوں کے حوالے سے بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ہمارے 100 روزہ پلان میں مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج کا اعلان کیا گیا تھاجو اپنی مثال آپ ہے۔ اس پیکیج کے تحت شعبہ تعلیم میں اقلیتوں کا کوٹہ یقینی بنایا جائے گا، جیلوں میں قید مسلمان قیدیوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے قیدیوں کو بھی ان کے مذاہب کی تعلیم دی جائے گی اور انہیں تہواروں پر قید میں رعایت بھی ملے گی، تعلیمی نصاب سے نفرت آمیز مواد کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا،ا س حوالے سے ہمارا نمائندہ اب ٹیسٹ بک بورڈ میں موجود ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب کی اقلیتی آبادیوںکو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔
رواں ماہ وزیراعلیٰ پنجاب 30 کروڑ روپے سے یوحنا آباد کی اقلیتی آبادی کی 'اپ گریڈیشن' منصوبے کا افتتاح کریں گے جس کے بعد بتدریج دیگر علاقوں میں بھی کام کیا جائے گا۔ مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے اقلیتوں کے اثاثوں کو بحال کیا جارہا ہے۔ ہمارے دونوں کیتھڈرل کو سٹیٹ آف دی آرٹ بنایا جا رہا ہے جبکہ ٹیکسلا میں موجود مسیحیوں کے مقدس مقام پر بھی جلد کام کا آ غاز کیا جائے گا۔
محمد ندیم قریشی
( رکن کشمیر کمیٹی پنجاب وپارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن و کلچرپنجاب)
کشمیر 72 برسوں سے نہ صرف دو ممالک کے مابین فساد کا باعث ہے بلکہ کروڑوں لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ موجودہ حکومت نے نہ صرف اس مسئلے پر آواز اٹھائی بلکہ دنیا بھر میں کشمیری بھائیوں کی جدوجہد حق خود ارادیت کو اجاگر کیا ہے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ مسئلہ کشمیرکیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں بہترین تقریر کی جس کے 4 نکات تھے۔ پہلا ماحولیاتی تبدیلی، دوسرا اسلامو فوبیا، تیسرا ہندووآتہ اور چوتھا و مرکزی نکتہ مسئلہ کشمیر تھا۔ ماضی کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر سے پہلو تہی کی جس سے نہ صرف کشمیر کاز کو نقصان پہنچا بلکہ دنیا میں ہمارا تاثر بھی خراب ہوا تاہم موجودہ حکومت نے باالخصوص وزیراعظم اورافواج پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور بھارتی بربریت پر انتہائی مضبوط موقف اپنایا اور سخت ردعمل کا اظہار بھی کیا۔
حکومت نے دنیا کویہ باور کروایا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد سے خود کو الگ نہیں کرسکتے ۔ کشمیر میں کرفیو کو آج 125 سے زائد دن گزر چکے ہیں اوراسے دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جارہا ہے۔ماضی میں ایسی سفاکیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔کشمیر میں مظالم کے حوالے سے تمام انفارمیشن انٹرنیٹ پر موجود ہے لہٰذا مسئلہ کشمیر پر دنیا کی بے خبری منافقانہ پالیسی ہے۔
دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ یہ خطہ خوفناک ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے جس کا نقصان سب کو ہوگا۔ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ قائد اعظمؒ کی تعلیمات کی روشنی میں تمام پاکستانیوں کو بلا تفریق ان کے حقوق دینے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج بھی قائم کرنا ہے۔ کرتار پور کوریڈور کا کھولنا اس کی ایک مثال ہے۔
ہمارے برعکس بھارت میں مودی کی سوچ انتہاپسندانہ ہے اور وہ ہر صورت کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے اسے مسلمانوں کی اکثریت کے بجائے اقلیتی علاقہ بنانا چاہتا ہے لہٰذا اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کریں۔
موجودہ حکومت نے سب سے پہلے 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر ملک بھر میں یوم سیاہ منایا جبکہ دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں و کشمیریوں نے بھی جگہ جگہ کشمیریوں کے حق میں مظاہرے کیے ۔ دنیا کی توجہ دلوانے اور مسائل حل کرنے کیلئے اب احتجاج ہی مہذب دنیا میں واحد طریقہ ہے لہٰذا ہمیں بھی اسی طرز پر کام کرنا ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا دن مقرر کیا لہٰذا اب ہر جمعہ کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے۔
ہم نے اس سال پہلی مرتبہ انسانی حقوق کے عالمی دن کو بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب میں ایک 'دستخطی مہم' کا آغاز کیا گیا جس کا افتتاح وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کیا۔ ہم نے 10لاکھ لوگوں کے دستخط کروا کر اقوام متحدہ میں دینے ہیں اور انہیں بتانا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق دیا جائے۔ حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنجیدہ ہے ، ہم کسی صورت اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور پر امن رہ کر ٹیبل ٹاک و دیگر مہذب طریقوں سے مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔
قاری زوار بہادر
(مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان)
دین اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردارہے۔ جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو کپکپی تاری تھی، بخار ہوگیا۔ جبرائیل ؑ جیسا فرشتہ آپؐ سے بغل گیر ہواجس کے جسم مبارک پر اثرات ہوئے۔ گھر آئے تو اُم المومنین حضرت سیدہ خدیجہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ ! آپؐ کا رب آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، آپؐ یتیم پروری کرتے ہیں، آپؐ بیواؤں کے کام آتے ہیں،آپؐ امین ہیں، آپؐ صادق ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی جو خوبیاں بیان فرمائیں وہ انسانی حقوق کا چارٹر ہیں۔ مکہ مکرمہ کے معاشرے کو قرآن نے جاہلانہ معاشرہ قرار دیا تھا۔
وہ گمراہی والا معاشرہ تھا اور ہرطرف اندھیرا و ظلمت تھی۔ آپﷺ نے رات کی تاریکی میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی مگر حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ کفار کی کچھ امانتیں ہیں، انہیں واپس کرکے صبح آجانا۔ کفار زہر آلود تلواریں لیے کھڑے تھے مگرآپؐ کو ان کی امانتوں کی فکر تھی کہ کسی کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہو اور کسی کی حق نہ ماراجائے۔فتح مکہ کے موقع پر آپﷺنے عام معافی کا اعلان فرما دیا، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے ہجرت پر مجبور کیا، مظالم ڈھائے ، کانٹے بچھائے اور آپؐ کے ساتھیوں کو تپتی ریت پر لٹایا۔ دین اسلام نے ہر دور میں انسانی حقوق کو تحفظ دیا ہے۔
پاکستان میں بھی سب آزاد ہیں اور انہیں حقوق حاصل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی مسلمان نے دوسرے مذاہب کی کتابوں تورات، انجیل، زبور کی بے حرمتی نہیں کی۔ ہم تو ان تمام کتابوں کا احترام کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے بدترین واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اسی طرح نبی پاکﷺ کی شان میں بھی گستاخی کی جاتی ہے جس نہ صرف مسلمانوںبلکہ دیگر مذاہب کے ان لوگوں جو حضورﷺ سے محبت کرتے ہیں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ بے شمار ہندو شعراء و سکھوں نے حضورﷺ کی نعاتیں لکھی ہیں۔ ایک ہندو شاعر نے لکھا :
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
آپﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا چارٹر ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، فوقیت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ آج مہذب ہونے کی دعویدار دنیا طبقات میں تقسیم ہوکر لوگوں کے حقوق کا تعین کر رہی ہے۔
اگر بلاامتیاز رنگ، نسل ، مذہب انسانی حقوق کا خیال کیا جاتا تو مسئلہ فلسطین بہت پہلے حل ہوچکا ہوتا۔ اس حوالے سے جب قرارداد پیش کی جاتی ہے تو امریکا ویٹو کردیتا ہے اور پھر انسانی حقوق کا چیمپئن بھی بنتا ہے۔ نریندر مودی جس کا امریکا میں داخلہ ممنوع تھا آج وہ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ کشمیر میں لاک ڈاؤن کو 4 ماہ سے زائد وقت گزر گیا مگر دنیا خاموش نماشائی بنی ہوئی ہے۔ عالمی اداروں کو چاہیے تھا کہ وہ فوری ایکشن لیکر معاملہ حل کرواتے ۔افسوس ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن منا کر ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انسانی حقوق کیلئے ایک دن نہیں بلکہ ہر لمحہ وقف ہونا چاہیے۔ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا کہ اگر تیرا ہمسایہ بھوکا یا پیاسا رہے تو اللہ بارگاہ میں تیری عبادت قبول نہیں۔ کیا ہم دوسروں کے حقوق دینے کیلئے عالمی دن کا انتظار کرتے رہیں؟دین اسلام نے ہمیں اپنے والدین اور ہمسائیوں کی خدمت کرنے کا، صلہ رحمی کرنے کا اور جتنے انسان میرے قرب و جوار میں ہیں ان کے ساتھ بلا امتیاز بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا اس کے لیے ہرلمحہ وقف کیا جائے نہ کہ عالمی دن کا انتظار کیا جائے۔
انسانی حقوق کے اداروں کو بھرپور طریقے سے فلسطین و کشمیر کیلئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ شام، عراق، افغانستان و دیگر ممالک پر مسلط جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو انسان سمجھتے ہوئے ان کے حقوق دینے چاہئیں۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا عالمی چارٹرمنظور کیا اور اسی کے تحت ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے تمام مذاہب میں دیئے جانے والے حقوق اکٹھے کیے اور اس بنیاد پر 1948ء میں 30 نکاتی انسانی حقوق کا عالمی چارٹرر (UDHR) تیار کیا جس پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دستخط کیے اور پاکستان نے بھی اسی سال ہی دستخط کردیئے تھے۔
پاکستان نے 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 8 سے 28 تک انسانی حقوق کا چیپٹر شامل کیا جس میں اقوام متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں دیئے جانے والے حقوق کا 90 فیصد شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 25 میں ترمیم کرکے 25 (A) کا اضافہ کیا گیاجس کے تحت 16 برس کی عمر تک کے تمام پاکستانیوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح شہریوں کو انفارمیشن کا حق بھی دیا گیا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ چند حساس معلومات کے علاوہ شہریوں کو انفارمیشن دینے کی پابند ہے۔ آئین پاکستان کے تحت پاکستان میں رہنے والے تمام شہری برابر ہیں اور کسی سے مذہب، رنگ، نسل، جنس، زبان و کسی اور وجہ سے امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ سب کو تقریر، تحریر، رہائش، سفر، تعلیم وغیرہ کی اجازت ہے اور مذہبی آزادی بھی حاصل ہے جس کی عکاس قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر ہے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے 2018ء میں ملکی تاریخ کی پہلی انسانی حقوق کی پالیسی منظور کی اور موجودہ حکومت نے اس پر ٹاسک فورس بھی بنائی ہے۔
پہلی مرتبہ تمام اضلاع میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں بنانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا ہے جبکہ اب ان کمیٹیوں کو موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر ہی انسانی حقو ق کو مانیٹر اور مسائل کو حل کیا جاسکے۔ سول سوسائٹی حکومتی اداروں کے ساتھ مل کرانسانی حقوق کے حوالے سے بنائے جانے والے 'ایکشن پلان' پر کام کر رہی ہے۔ اہم اداروں میں تربیت و آگاہی دے رہے ہیں،ا س کے ساتھ عام شہریوں کو بھی آگاہی دی جارہی ہے۔حکومت پہلی مرتبہ اقلیتوں کے حوالے سے کتابچہ تیار کر رہی ہے۔
جس میں تمام مذاہب کا تعارف، ان کے ہیروز اور ان کی عبادتگاہوں کی تفصیل ہوگی، اسے رواں ماہ ہی لانچ کیا جائے گا۔ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں شہریوں کو تمام بنیادی انسانی حقوق دیئے گئے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔
حال ہی میں کرتارپور کوریڈور کھولا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک میں انسانی حقوق کی حالت ابتر ہے۔اس سال پاکستان میں انسانی حقوق کے عالمی دن کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جا رہا ہے جس کا مقصد کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانا اور دنیا کو بتانا ہے کہ بھارت کشمیر میں مظالم ڈھا رہا ہے جبکہ پاکستان اپنے ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق و تحفظ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ 9 دسمبر کو پینٹنگ مقابلے منعقد کیے جائیں گے جس میں طلبہ کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے پوسٹرز بنائیں گے جبکہ 10 دسمبر کو الحمرا ہال لاہور میں مرکزی تقریب منعقد ہوگی جس میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا جائے گا۔
دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے آگہی دینا اور حکومتوں کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلا امتیاز ان کے حقوق فراہم کریں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن خصوصی طور پر منایا جاتا ہے۔
رواں سال اس دن کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے کیونکہ حکومت پاکستان نے اسے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا ہے لہٰذا اب انسانی حقوق کا عالمی دن کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے ، بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے اور دنیا کے سامنے بھارت کا سفاک چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے منایا جائے گا۔
ایک طرف بھارت ہے جو اپنے ملک میں رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے زندگی تنگ کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان ہے جو اپنے ملک میں موجود تمام مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق و تحفظ کیلئے کوشاں ہے۔
انسانی حقوق کی عالمگیر اہمیت کو سمجھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''انسانی حقوق کے عالمی دن'' کی مناسبت سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
( صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہی دنیا ہے۔ اس سال ہم نے انسانی حقوق کے عالمی دن کو کشمیر کے ساتھ منسلک کیا ہے تاکہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاسکے۔مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور وہاں80 لاکھ شہریوںکی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ دنیا میں بھارت کا سیاہ چہرہ بے نقاب ہورہا ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، اس حوالے سے بھارت نمبر ون ہے۔
افسوس ہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ چرچ جلائے گئے ، میرے ایک عزیز کو وہاںچرچ میں زندہ جلا دیا گیا۔ بدقسمتی سے بھارت میںاقلیتیں محفوظ نہیں اور جتنا ظلم مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے اتنا دنیا میں کہیں نہیں ہے۔
میں نے گزشتہ دنوں امریکا ، اقوام متحدہ و سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کیا۔ مجھے وہاں کے سربراہان اور سینیٹرز سے مل کر معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سفارتی محاذ پر بڑی کامیابی حاصل کی ہے کہ اب ہر کوئی مسئلہ کشمیر پر فکر مند ہے ۔ملک میں انسانی حقوق کی بات کریں تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں انسانی حقوق کی پالیسی لے کر آئی ہے اور ہم نے ایک ایکشن پلان بھی ترتیب دیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انسانی حقوق دنیا بھر میں عالمگیر توجہ حاصل کرچکے ہیں اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ اگر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے تو یہ دنیا سمٹتی چلی جائے گی۔پاکستان خصوصاََ پنجاب میں انسانی حقوق کو موثر بنانے کیلئے تندہی سے کام کیا جارہا ہے۔
تمام اداروں کا جائزہ لیں تو انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی تھانوں اور ہسپتالوں میں ہوتی ہے۔ ہم نے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں انسانی حقوق کے کورسز کروائے ہیں جبکہ محکمہ صحت کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ہم ڈاکٹرز کو انسانی حقوق کی تربیت فراہم کریں گے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور حقوق کو تحفظ دینا ہم سب کی ذمہ داری اور اخلاقی فرض ہے مگر بدقسمتی سے بیشتر جگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے لہٰذا اس حوالے سے آگاہی کی ضروت ہے۔ ہم انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی کیلئے تعلیمی نصاب میں مضمون شامل کررہے ہیں۔
اوپن یونیورسٹی کے انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں انسانی حقوق کی کتاب متعارف کروا دی گئی ہے جبکہ اب محکمہ سکولز ایجوکیشن کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کو بطور مضمون پڑھانے پر کام جاری ہے۔ سکولز ایجوکیشن ایک بہت بڑا محکمہ ہے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اساتذہ کی تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایک اچھا معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ ہم نے پنجاب کی سطح پر ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے، میں اس کا چیئرمین ہوں جبکہ تمام محکموں کے سیکرٹریز اس کے رکن ہیں۔
ہم نے 27 عالمی کنونشنز دستخط کر رکھے ہیں جن پر عملدرآمد کے حوالے سے 'ٹریٹی امپلی منٹیشن سیل' قائم کیا گیا ہے جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ہمارا جی ایس پی پلس بھی اس سے لنک ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی انسانی حقوق کی وزارت پہلے نمبر پر آئی ہے۔ یورپی یونین کے نمائندوں نے حال ہی میں اس سیل کی کارکردگی کو سراہا ہے۔
ہم نے ایک ویب پورٹل بھی قائم کیا ہے جو دنیا کے ساتھ لنک ہے اور یہ کام بطور ریاست اپنی بین الاقوامی کمٹمنٹ کو پورا کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے تمام صوبوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے پنجاب سے رہنمائی لیں لہٰذا ہمارے پاس ملک بھر سے سیکرٹریز آرہے ہیں اور ہم نے انہیں ٹریننگ بھی کروائی ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے ملتان میں اپنے ممبران کو تربیت فراہم کی جبکہ اب لاہور میں کرنے جارہے ہیں، اس کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کو گراس روٹ لیول تک لے کر جانا ہے۔ پہلے ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ کے معاملات لاہور سے چلائے جاتے تھے۔ اب ہم نے انسانی حقوق کی ضلعی کمیٹیاں بنائی ہیں تاکہ مقامی سطح پر ہی مسائل حل کرلیے جائیں۔
یہ کمیٹیاں گزشتہ 9ماہ سے کام کر رہی ہیں اور ان کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انسانی حقوق کی کمیٹی کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جبکہ ڈی پی او، سپرٹینڈنٹ جیل، سی ای او ہیلتھ، سی ای او ایجوکیشن اور سول سوسائٹی کے دو نمائندے رکن ہوتے ہیں۔ ہمارے ڈسٹرکٹ ممبرز تھانوں، جیلوں و دیگر جگہوں کا دورہ کر کے رپورٹ کرتے ہیں اور پھر ہم متعلقہ محکمہ سے رپورٹ طلب کرکے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں اقلیتوں کے حوالے سے بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ہمارے 100 روزہ پلان میں مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج کا اعلان کیا گیا تھاجو اپنی مثال آپ ہے۔ اس پیکیج کے تحت شعبہ تعلیم میں اقلیتوں کا کوٹہ یقینی بنایا جائے گا، جیلوں میں قید مسلمان قیدیوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے قیدیوں کو بھی ان کے مذاہب کی تعلیم دی جائے گی اور انہیں تہواروں پر قید میں رعایت بھی ملے گی، تعلیمی نصاب سے نفرت آمیز مواد کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا،ا س حوالے سے ہمارا نمائندہ اب ٹیسٹ بک بورڈ میں موجود ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب کی اقلیتی آبادیوںکو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔
رواں ماہ وزیراعلیٰ پنجاب 30 کروڑ روپے سے یوحنا آباد کی اقلیتی آبادی کی 'اپ گریڈیشن' منصوبے کا افتتاح کریں گے جس کے بعد بتدریج دیگر علاقوں میں بھی کام کیا جائے گا۔ مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے اقلیتوں کے اثاثوں کو بحال کیا جارہا ہے۔ ہمارے دونوں کیتھڈرل کو سٹیٹ آف دی آرٹ بنایا جا رہا ہے جبکہ ٹیکسلا میں موجود مسیحیوں کے مقدس مقام پر بھی جلد کام کا آ غاز کیا جائے گا۔
محمد ندیم قریشی
( رکن کشمیر کمیٹی پنجاب وپارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن و کلچرپنجاب)
کشمیر 72 برسوں سے نہ صرف دو ممالک کے مابین فساد کا باعث ہے بلکہ کروڑوں لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ موجودہ حکومت نے نہ صرف اس مسئلے پر آواز اٹھائی بلکہ دنیا بھر میں کشمیری بھائیوں کی جدوجہد حق خود ارادیت کو اجاگر کیا ہے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ مسئلہ کشمیرکیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں بہترین تقریر کی جس کے 4 نکات تھے۔ پہلا ماحولیاتی تبدیلی، دوسرا اسلامو فوبیا، تیسرا ہندووآتہ اور چوتھا و مرکزی نکتہ مسئلہ کشمیر تھا۔ ماضی کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر سے پہلو تہی کی جس سے نہ صرف کشمیر کاز کو نقصان پہنچا بلکہ دنیا میں ہمارا تاثر بھی خراب ہوا تاہم موجودہ حکومت نے باالخصوص وزیراعظم اورافواج پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور بھارتی بربریت پر انتہائی مضبوط موقف اپنایا اور سخت ردعمل کا اظہار بھی کیا۔
حکومت نے دنیا کویہ باور کروایا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد سے خود کو الگ نہیں کرسکتے ۔ کشمیر میں کرفیو کو آج 125 سے زائد دن گزر چکے ہیں اوراسے دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جارہا ہے۔ماضی میں ایسی سفاکیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔کشمیر میں مظالم کے حوالے سے تمام انفارمیشن انٹرنیٹ پر موجود ہے لہٰذا مسئلہ کشمیر پر دنیا کی بے خبری منافقانہ پالیسی ہے۔
دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ یہ خطہ خوفناک ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے جس کا نقصان سب کو ہوگا۔ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ قائد اعظمؒ کی تعلیمات کی روشنی میں تمام پاکستانیوں کو بلا تفریق ان کے حقوق دینے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج بھی قائم کرنا ہے۔ کرتار پور کوریڈور کا کھولنا اس کی ایک مثال ہے۔
ہمارے برعکس بھارت میں مودی کی سوچ انتہاپسندانہ ہے اور وہ ہر صورت کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے اسے مسلمانوں کی اکثریت کے بجائے اقلیتی علاقہ بنانا چاہتا ہے لہٰذا اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کریں۔
موجودہ حکومت نے سب سے پہلے 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر ملک بھر میں یوم سیاہ منایا جبکہ دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں و کشمیریوں نے بھی جگہ جگہ کشمیریوں کے حق میں مظاہرے کیے ۔ دنیا کی توجہ دلوانے اور مسائل حل کرنے کیلئے اب احتجاج ہی مہذب دنیا میں واحد طریقہ ہے لہٰذا ہمیں بھی اسی طرز پر کام کرنا ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا دن مقرر کیا لہٰذا اب ہر جمعہ کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے۔
ہم نے اس سال پہلی مرتبہ انسانی حقوق کے عالمی دن کو بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب میں ایک 'دستخطی مہم' کا آغاز کیا گیا جس کا افتتاح وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کیا۔ ہم نے 10لاکھ لوگوں کے دستخط کروا کر اقوام متحدہ میں دینے ہیں اور انہیں بتانا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق دیا جائے۔ حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنجیدہ ہے ، ہم کسی صورت اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور پر امن رہ کر ٹیبل ٹاک و دیگر مہذب طریقوں سے مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔
قاری زوار بہادر
(مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان)
دین اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردارہے۔ جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو کپکپی تاری تھی، بخار ہوگیا۔ جبرائیل ؑ جیسا فرشتہ آپؐ سے بغل گیر ہواجس کے جسم مبارک پر اثرات ہوئے۔ گھر آئے تو اُم المومنین حضرت سیدہ خدیجہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ ! آپؐ کا رب آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، آپؐ یتیم پروری کرتے ہیں، آپؐ بیواؤں کے کام آتے ہیں،آپؐ امین ہیں، آپؐ صادق ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی جو خوبیاں بیان فرمائیں وہ انسانی حقوق کا چارٹر ہیں۔ مکہ مکرمہ کے معاشرے کو قرآن نے جاہلانہ معاشرہ قرار دیا تھا۔
وہ گمراہی والا معاشرہ تھا اور ہرطرف اندھیرا و ظلمت تھی۔ آپﷺ نے رات کی تاریکی میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی مگر حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ کفار کی کچھ امانتیں ہیں، انہیں واپس کرکے صبح آجانا۔ کفار زہر آلود تلواریں لیے کھڑے تھے مگرآپؐ کو ان کی امانتوں کی فکر تھی کہ کسی کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہو اور کسی کی حق نہ ماراجائے۔فتح مکہ کے موقع پر آپﷺنے عام معافی کا اعلان فرما دیا، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے ہجرت پر مجبور کیا، مظالم ڈھائے ، کانٹے بچھائے اور آپؐ کے ساتھیوں کو تپتی ریت پر لٹایا۔ دین اسلام نے ہر دور میں انسانی حقوق کو تحفظ دیا ہے۔
پاکستان میں بھی سب آزاد ہیں اور انہیں حقوق حاصل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی مسلمان نے دوسرے مذاہب کی کتابوں تورات، انجیل، زبور کی بے حرمتی نہیں کی۔ ہم تو ان تمام کتابوں کا احترام کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے بدترین واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اسی طرح نبی پاکﷺ کی شان میں بھی گستاخی کی جاتی ہے جس نہ صرف مسلمانوںبلکہ دیگر مذاہب کے ان لوگوں جو حضورﷺ سے محبت کرتے ہیں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ بے شمار ہندو شعراء و سکھوں نے حضورﷺ کی نعاتیں لکھی ہیں۔ ایک ہندو شاعر نے لکھا :
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
آپﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا چارٹر ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، فوقیت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ آج مہذب ہونے کی دعویدار دنیا طبقات میں تقسیم ہوکر لوگوں کے حقوق کا تعین کر رہی ہے۔
اگر بلاامتیاز رنگ، نسل ، مذہب انسانی حقوق کا خیال کیا جاتا تو مسئلہ فلسطین بہت پہلے حل ہوچکا ہوتا۔ اس حوالے سے جب قرارداد پیش کی جاتی ہے تو امریکا ویٹو کردیتا ہے اور پھر انسانی حقوق کا چیمپئن بھی بنتا ہے۔ نریندر مودی جس کا امریکا میں داخلہ ممنوع تھا آج وہ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ کشمیر میں لاک ڈاؤن کو 4 ماہ سے زائد وقت گزر گیا مگر دنیا خاموش نماشائی بنی ہوئی ہے۔ عالمی اداروں کو چاہیے تھا کہ وہ فوری ایکشن لیکر معاملہ حل کرواتے ۔افسوس ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن منا کر ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انسانی حقوق کیلئے ایک دن نہیں بلکہ ہر لمحہ وقف ہونا چاہیے۔ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا کہ اگر تیرا ہمسایہ بھوکا یا پیاسا رہے تو اللہ بارگاہ میں تیری عبادت قبول نہیں۔ کیا ہم دوسروں کے حقوق دینے کیلئے عالمی دن کا انتظار کرتے رہیں؟دین اسلام نے ہمیں اپنے والدین اور ہمسائیوں کی خدمت کرنے کا، صلہ رحمی کرنے کا اور جتنے انسان میرے قرب و جوار میں ہیں ان کے ساتھ بلا امتیاز بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا اس کے لیے ہرلمحہ وقف کیا جائے نہ کہ عالمی دن کا انتظار کیا جائے۔
انسانی حقوق کے اداروں کو بھرپور طریقے سے فلسطین و کشمیر کیلئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ شام، عراق، افغانستان و دیگر ممالک پر مسلط جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو انسان سمجھتے ہوئے ان کے حقوق دینے چاہئیں۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا عالمی چارٹرمنظور کیا اور اسی کے تحت ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے تمام مذاہب میں دیئے جانے والے حقوق اکٹھے کیے اور اس بنیاد پر 1948ء میں 30 نکاتی انسانی حقوق کا عالمی چارٹرر (UDHR) تیار کیا جس پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دستخط کیے اور پاکستان نے بھی اسی سال ہی دستخط کردیئے تھے۔
پاکستان نے 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 8 سے 28 تک انسانی حقوق کا چیپٹر شامل کیا جس میں اقوام متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں دیئے جانے والے حقوق کا 90 فیصد شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 25 میں ترمیم کرکے 25 (A) کا اضافہ کیا گیاجس کے تحت 16 برس کی عمر تک کے تمام پاکستانیوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح شہریوں کو انفارمیشن کا حق بھی دیا گیا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ چند حساس معلومات کے علاوہ شہریوں کو انفارمیشن دینے کی پابند ہے۔ آئین پاکستان کے تحت پاکستان میں رہنے والے تمام شہری برابر ہیں اور کسی سے مذہب، رنگ، نسل، جنس، زبان و کسی اور وجہ سے امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ سب کو تقریر، تحریر، رہائش، سفر، تعلیم وغیرہ کی اجازت ہے اور مذہبی آزادی بھی حاصل ہے جس کی عکاس قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر ہے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے 2018ء میں ملکی تاریخ کی پہلی انسانی حقوق کی پالیسی منظور کی اور موجودہ حکومت نے اس پر ٹاسک فورس بھی بنائی ہے۔
پہلی مرتبہ تمام اضلاع میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں بنانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا ہے جبکہ اب ان کمیٹیوں کو موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر ہی انسانی حقو ق کو مانیٹر اور مسائل کو حل کیا جاسکے۔ سول سوسائٹی حکومتی اداروں کے ساتھ مل کرانسانی حقوق کے حوالے سے بنائے جانے والے 'ایکشن پلان' پر کام کر رہی ہے۔ اہم اداروں میں تربیت و آگاہی دے رہے ہیں،ا س کے ساتھ عام شہریوں کو بھی آگاہی دی جارہی ہے۔حکومت پہلی مرتبہ اقلیتوں کے حوالے سے کتابچہ تیار کر رہی ہے۔
جس میں تمام مذاہب کا تعارف، ان کے ہیروز اور ان کی عبادتگاہوں کی تفصیل ہوگی، اسے رواں ماہ ہی لانچ کیا جائے گا۔ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں شہریوں کو تمام بنیادی انسانی حقوق دیئے گئے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔
حال ہی میں کرتارپور کوریڈور کھولا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک میں انسانی حقوق کی حالت ابتر ہے۔اس سال پاکستان میں انسانی حقوق کے عالمی دن کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جا رہا ہے جس کا مقصد کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانا اور دنیا کو بتانا ہے کہ بھارت کشمیر میں مظالم ڈھا رہا ہے جبکہ پاکستان اپنے ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق و تحفظ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ 9 دسمبر کو پینٹنگ مقابلے منعقد کیے جائیں گے جس میں طلبہ کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے پوسٹرز بنائیں گے جبکہ 10 دسمبر کو الحمرا ہال لاہور میں مرکزی تقریب منعقد ہوگی جس میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا جائے گا۔