بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

جب صدائیں چیخوں میں بدل جائیں، جب انصاف کو خرید لیا جائے، تبھی پروین جیسی انتقامی صفات پیدا ہوتی ہیں


یہاں ناانصافی کی ایسی دردناک داستانیں ہیں کہ نظام انصاف پر شک ہونے لگتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ٹیبل پر اخبارات کے تراشے پڑے ہیں، اہم خبریں اخبارات کا سینہ چیر کر ٹیبل کی زینت بنادی ہیں۔ سوچ میں مگن تھا کہ کس خبر سے ابتدا کی جائے، کون سی خبر پر بات کی جائے۔ کراچی کی دعا سے دادو کی گل صباء کی خبر، کاشانہ سینٹر لاہور کی معصوم بچیوں کی چیخیں، اغوا سے سنگساری تک کی داستانیں۔ اس سارے معاملے میں خود کو چودہ سو سال دور محسوس کررہا تھا، جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ جب بیٹی کو شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ میں تو آج کے جدید، ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ دور کا باسی ہوں۔ میری رسائی میں ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑ اور سماٹرا کی جزیرے ہیں۔ میں ایک کلک پر دنیا کا نظارہ کرسکتا ہوں، لیکن ان خبروں نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا تھا۔ میں خیالوں مگن میں تھا کہ اخبار کے اندرونی صفحات پر موجود دو کالمی خبر نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ خبر سیالکوٹ سے تھی، جہاں ایک ماں نے سات سال کے بعد اپنے بیٹے کے قاتل کو سزا دے دی۔

سیالکوٹ کی پروین نے انصاف کی تلاش کےلیے سات سال تک انتظار کیا۔ اس نے سات سال تک قانونی جنگ لڑی۔ مقامی عدالت سے انصاف ملا تو ماں نے سکھ کا سانس لیا۔ مقدمہ اعلیٰ عدالت میں چلا، جہاں قاتل نے اپنی دولت کے سہارے مہنگے وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ بیوہ پروین اور انصاف دولت کے سامنے ہار گیا۔ وکیل کی چالاکی اور چرب زبانی کے سامنے انصاف ہار گیا اور دن دیہاڑے نوجوان کو گولیوں سے بھوننے والا قاتل باعزت بری ہوگیا۔

مبینہ قاتل جیل سے رہائی پاتے ہی بیرون ملک چلا گیا۔ اس کا خیال تھا کہ اب مقدمے پر دھول پڑگئی ہوگی، اب اس کی فائل بند ہوچکی ہوگی۔ ملزم وکیلوں کے سہارے پر انصاف تو خرید سکتا ہے، مگر خدا کی عدالت اور ماں کی عدالت میں وہ بدستور مجرم ہی تصور ہوتا ہے۔ یہی بات نعمان عرف کوڈو کو سمجھ نہیں آئی۔ گھر لوٹتے ہی سات سال قبل قتل ہونے والے تسلیم کی ماں نے دیگر افراد کے ساتھ مل کر نعمان کو قتل کر ڈالا۔ یہ واقعہ خاندانی دشمنی کا شاخسانہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں انتقام کا جذبہ بھی کارفرما ہے۔ اس کیس کی تحقیقات ہی معاملے کو واضح کریں گی۔ لیکن یہ واقعہ ریاست کےلیے پیغام ہے کہ جب ماں جیسی ریاست انصاف نہیں دے گی تو تڑپتی ماں خود ہی قانون کا ترازو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق سات سال قبل قتل ہونے والے نوجوان پر بھی قتل کے مقدمات تھے۔ جس کی وجہ سے انتقام لیتے ہوئے نعمان نے تسلیم کو قتل کیا تھا۔ آج نعمان بھی اسی انجام سے دوچار ہوگیا۔ یہاں اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ٹرائل کورٹ میں تسلیم کے اہل خانہ نے مقدمہ اچھے وکیل کے ساتھ لڑا ہوگا، جس کی وجہ سے نعمان کو سزا ہوگئی، لیکن ہائیکورٹ نے عدم شواہد کی بنیاد پر کیس کا جائزہ لے کر نعمان کو بری کردیا ہوگا۔ عدالتیں ہمیشہ ثبوت کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ بعض اوقات وکلا کی چرب زبانی بھی ثبوت کے سامنے کام نہیں آتی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹرائل کورٹ کے مقدمے میں موجود سقم کو ہائیکورٹ نے دور کرتے ہوئے نعمان کے حق میں فیصلہ سنادیا تو پروین کو قانون کا احترام بہرحال کرنا چاہیے۔ کیا ماں ایک قاتل کےلیے اپنی ممتا کا استعمال کرے گی؟ کیا تسلیم کے ہاتھوں مارے جانے والے نوجوانوں کی مائیں نہیں تھیں؟ کیا ان کے سینے میں دل اور انتقام کا جذبہ نہیں تھا؟

پروین کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کا عمل قابل مذمت ہے۔ وہ ایک قاتل ہے، اس نے انتقام کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک جان لے لی۔ یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ نعمان اس کے بیٹے کا قاتل ہے، لیکن بہرحال اسے قاتل کو قتل کرنے کا حق قطعاً حاصل نہیں۔ لیکن یہاں نظام عدل پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ اگر ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، ماں جس کی آغوش میں رعایا خود کو محفوظ اور پرسکون سمجھتی ہے۔ جب اسی ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کے جواں سالہ بیٹے کو گولیاں مار کر قتل کیا جاتا ہے، موت کی وادی میں ابدی نیند سلایا جاتا ہے تو ماں کی ممتا کو جوش کیوں نہیں آتا؟ ریاست کا امیر تو وہ ہوتا ہے، جسے اس بات کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ اگر اس کی سلطنت میں ایک کتا بھی پیاس سے مرگیا تو روز محشر اسے جواب دینا ہوگا۔ مگر جب دھرتی ماں پر خون کے چھینٹے گرتے ہیں تو ماں کی ممتا کو جوش کیوں نہیں آتا؟ یہ بجا کہ وہ تحریک، تحریک ہی نہیں جس میں انصاف نہ ہو۔ تو پھر وہ ریاست، ریاست مدینہ کی شبیہہ کیسے ہوسکتی ہے؟

جہاں انصاف کے حصول کےلیے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تھک جانے کے بعد ایک ماں کو خود بندوق اٹھانا پڑے، میری نظر میں جب تک 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس' کا تاثر موجود رہے گا۔ جب تک خلیل اور اس کے اہل خانہ، زین، نقیب اللہ اور تسلیم کے قاتل اپنی امارت کے زور پر دندناتے رہیں گے، تب تک پروین اختر جیسی ہر ماں آپ سے سوال کرتی رہے گی۔

اخبارات کے صفحات روزانہ نمرتا، جنت، سکینہ اور فروا جیسی نہ جانے کتنی خونِ ناحق کی داستانوں سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن ماں جیسی ریاست اور میر ریاست کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یہاں بیٹی کی عزت پامال ہوتی ہے، اسے قتل کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ عورت کی لاش بھی محفوظ نہیں۔ یہاں مردوں کو سلاخوں میں پرو دیا جاتا ہے۔ یہاں ایک بھکاری کو دوستوں کی خوشی کےلیے ہوا بھر کر مار دیا جاتا ہے۔ یہاں ناانصافی کی ایسی دردناک اور المناک داستانیں ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے نظام انصاف پر شک ہونے لگتا ہے۔ یہاں سوال تو بہت ہیں مگر جواب نہیں ملتا۔ یہاں صدائیں تو بہت ہیں لیکن انہیں سننے والا کوئی نہیں۔

حضور والا! جب صدائیں چیخوں میں بدل جائیں، جب خاموشیوں کا گلا گھونٹ دیا جائے، جب انصاف کو خرید لیا جائے ، تبھی پروین جیسی انتقامی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ جن کا نتیجہ خون خرابہ، بدامنی، نفرت اور ہیبت ناک ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کا اعتماد نظام عدل و انصاف اور ریاست پر بحال کیا جائے، تاکہ کوئی مجرم پروین کی طرح ہیرو نہ بن سکے۔ میری نظر میں بہرحال نعمان، تسلیم اور پروین سبھی قاتل ہیں۔ اس نظام کے قاتل، انتقام کے ہاتھوں مجبور ہوکر خون کے ہولی کھیلنے والے قاتل۔ لیکن اس سارے واقعے میں ہمارے لیے بھی کئی سوالات ہیں، جن کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہوگا۔

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں