پھر دسمبر کا مہینہ آگیا
دسمبر کا مہینہ بڑا عجیب مہینہ ہے جو زندگی کی طرح غم اور خوشی کے لمحات اور واقعات سے عبارت ہے۔
QUETTA:
دسمبر کا مہینہ بڑا عجیب مہینہ ہے جو زندگی کی طرح غم اور خوشی کے لمحات اور واقعات سے عبارت ہے۔ تلخ وشیریں کے اس امتزاج کو الفاظ کے قالب اور سانچوں میں ڈھالنا کوئی آسان کام نہیں۔ تاہم '' فکر ہرکس بقدر ہمت اوست '' کے مصداق اس کیفیت کو ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک شاعر کے بقول:
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
شہنائی کے ساز ہی کو زندگی غموں اور خُوشیوں کے اظہار کا بہترین اور موثر ترین ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے۔
کیا عجب ساز ہے یہ شہنائی
دو سُروں کا یہ کھیل سارا ہے
ایک سُر زندگی کا سنگم ہے
دوسرا موت کا گوارہ ہے
ایک اور سخنور کے اس حوالے سے انسان کی انتہائی بے بسی کی حالت کو الفاظ کے پیکر میں تراشتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ:
لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
شاعرِ خوش نوا شکیل بدایونی نے اپنے ایک شاہکار اور یادگار فلمی نغمے کی صورت میں حالات کے جبر کے آگے انسان کی مطلق بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
منفرد لب و لہجے کے حامل ساحر لدھیانوی نے زندگی کی بُھول بھلیّاں میں بھٹکنے اور خواہ مخواہ کے جھمیلے سے بچنے کے لیے یہ راستہ تلاش کیا ہے:
غم اور خوشی کا فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پر لاتا چلاگیا
اس مرتبہ ماہ دسمبر کا آغاز ڈھاکا بنگلہ دیش سے درویش کامل حضرت مولانا شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکاتہم کی مدّتِ بعد خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، مسجد اشرف، گلستان جوہر کراچی پاکستان آمد مبارکہ سے ہوا۔ شاہ صاحب قبلہ کو یہ امتیاز و شرف شیخ العرب و الحجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اﷲ مرقدہ کا چہیتا خلیفہ ہونے کی صورت میں حاصل ہے۔
بلاشبہ ان کا شمار ان برگزیدہ اکابرین میں ہوتا ہے جن کی جانب سے علامہ اقبال نے ''یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے'' کہہ کر اشارہ فرمایا ہے۔ شاہ عبدالمتین صاحب مرد مومن اور مرد حق کہلانے کی تمام خوبیوں کے حامل اور شریعت و طریقت کے سچے پیروکار اور علمبردار ہیں۔ سچ پوچھئے تو حضرت اپنی شخصیت اور جملہ صفات اعلیٰ و بالا کے آئینہ دار ہیں ۔ آپ کی شخصیت میں بلا کی عاجزی اور فضائیت ہے جس نے ان میں مقناطیسی کشش پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے۔
ان کے لب و لہجے میں ایک عجیب قسم کی مٹھاس ہے جو سننے والوں کا دل موہ لیتی ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو گویا سچے موتی رولتے ہیں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو کی مہک ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں حسن کلام سے نوازا ہے۔ وہ جب آغاز خطاب کرتے ہیں تو حاضرین و سامعین پر سکوت طاری ہوجاتا ہے اور تمام اہل مجلس ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ ان کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ تیر بہ ہدف کی طرح سامع کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے۔ بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
الفاظ ان کے آگے صف بہ صف نالج فرمان نظر آتے ہیں، اگرچہ ان کی مادری زبان بنگلہ بھاشا ہے لیکن انھیں اردو ، فارسی اور عربی پر اہل زبان جیسا عبور حاصل ہے۔ بقول حضرت حفیظ جالندھری:
حفیظ اہل زبان کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہے
ان کے لب و لہجے میں ایک عجیب قسم کی شائستگی اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ عطیہ خداوندی ہے۔ اگر انھیں غائبانہ سنا جائے تو یوں لگے گا جیسے کوئی اسی پچاسی سالہ معمر شخص بول رہا ہو۔ لیکن ان سے مل کر عجیب سی حیرانی ہوتی ہے کیونکہ وہ دیکھنے میں ماشاء اﷲ زیادہ سے زیادہ 65 سالہ تندرست و توانا ہنس مکھ اور شگفتہ مزاج شخصیت کے حامل درویش کامل ہیں۔ رہی بات ان کی آواز میں جھلکنے والی بزرگانہ شان کی تو یہ اکرام خداوندی ہے۔
ان کی خطابت کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ سامعین پر ایسا وجد طاری ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ جی نہیں چاہتا کہ ان کا بیان ختم ہو۔ سبحان اﷲ!سبحان اﷲ غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ عرض ہے:
یہ مسائل تصوف یہ بیانِ حضرتِ والا
اسے یوں ہی سنتے رہتے جو یہ بار بار ہوتا
یہ عشق الٰہی کے ان دریاؤں کی روانی کا کامل ہے جو حضرت اقدس کے قلب مبارک میں موجزن ہیں لیکن ہم جیسے کوہِ باطن اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ تیرا جلوہ جس نے دیکھا وہ تیرا ہوگیا۔ بقول شاعر:
خوشبو کا خمیر اٹھتا ہے خاکستر گل سے
اپنے ہی بدن سے تیری آجاتی ہے خوشبو
جب سے حضرت والا تشریف لائے ہیں تب سے ان کی دید کے پیاسے جوق در جوق وطن عزیز کے گوشے گوشے سے کشاں کشاں دیوانہ وار شمع کے پروانوں کی طرح کھینچے چلے آرہے ہیں اور اﷲ والوں کے زائرین کا یہ عظیم الشان میلہ حضرتِ اقدس کے متوقع قیام تا 11دسمبر تک بدستور لگا رہے گا۔ سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر حضرت شاہ صاحب پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید، مگر ایسے بھی ہیں
6 دسمبر کی تاریخ ہر سال جب بھی آتی ہے سن 1992ء میں ہونے والے ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے سانحہ عظیم کی یاد تازہ کردیتی اور خانہ خدا کی انسانیت سوز بے حرمتی کے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں:
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پُروائی کا 16دسمبر سقوط مشرقی پاکستان کے عظیم سانحہ کے حوالے سے ناقابل فراموش ہے۔21 دسمبر کو موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس گلزار احمد ان کی جگہ پر سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔
25 دسمبر کو قوم پورے اعزاز اور عقیدت کے ساتھ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا جشن پیدائش منائے گی۔ 27 دسمبر کی تاریخ نہایت سوگ والی ہے اور ناقابل فراموش بھی کیوں کہ اس روز پاکستان پیپلزپارٹی کی عظیم قائد اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا تھا ۔ اتفاق سے اس روز ہماری چھوٹی بیٹی ماہ وش فاروقی کی شادی بھی طے تھی جسے مجبورا ملتوی کرنا پڑا اور شادی خانہ آبادی کے سلسلے کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں اور اس سانحہ کی نذر ہوگئیں۔ بندگی بے چارگی ۔ بے شک وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
دسمبر کا مہینہ بڑا عجیب مہینہ ہے جو زندگی کی طرح غم اور خوشی کے لمحات اور واقعات سے عبارت ہے۔ تلخ وشیریں کے اس امتزاج کو الفاظ کے قالب اور سانچوں میں ڈھالنا کوئی آسان کام نہیں۔ تاہم '' فکر ہرکس بقدر ہمت اوست '' کے مصداق اس کیفیت کو ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک شاعر کے بقول:
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
شہنائی کے ساز ہی کو زندگی غموں اور خُوشیوں کے اظہار کا بہترین اور موثر ترین ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے۔
کیا عجب ساز ہے یہ شہنائی
دو سُروں کا یہ کھیل سارا ہے
ایک سُر زندگی کا سنگم ہے
دوسرا موت کا گوارہ ہے
ایک اور سخنور کے اس حوالے سے انسان کی انتہائی بے بسی کی حالت کو الفاظ کے پیکر میں تراشتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ:
لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
شاعرِ خوش نوا شکیل بدایونی نے اپنے ایک شاہکار اور یادگار فلمی نغمے کی صورت میں حالات کے جبر کے آگے انسان کی مطلق بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
منفرد لب و لہجے کے حامل ساحر لدھیانوی نے زندگی کی بُھول بھلیّاں میں بھٹکنے اور خواہ مخواہ کے جھمیلے سے بچنے کے لیے یہ راستہ تلاش کیا ہے:
غم اور خوشی کا فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پر لاتا چلاگیا
اس مرتبہ ماہ دسمبر کا آغاز ڈھاکا بنگلہ دیش سے درویش کامل حضرت مولانا شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکاتہم کی مدّتِ بعد خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، مسجد اشرف، گلستان جوہر کراچی پاکستان آمد مبارکہ سے ہوا۔ شاہ صاحب قبلہ کو یہ امتیاز و شرف شیخ العرب و الحجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اﷲ مرقدہ کا چہیتا خلیفہ ہونے کی صورت میں حاصل ہے۔
بلاشبہ ان کا شمار ان برگزیدہ اکابرین میں ہوتا ہے جن کی جانب سے علامہ اقبال نے ''یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے'' کہہ کر اشارہ فرمایا ہے۔ شاہ عبدالمتین صاحب مرد مومن اور مرد حق کہلانے کی تمام خوبیوں کے حامل اور شریعت و طریقت کے سچے پیروکار اور علمبردار ہیں۔ سچ پوچھئے تو حضرت اپنی شخصیت اور جملہ صفات اعلیٰ و بالا کے آئینہ دار ہیں ۔ آپ کی شخصیت میں بلا کی عاجزی اور فضائیت ہے جس نے ان میں مقناطیسی کشش پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے۔
ان کے لب و لہجے میں ایک عجیب قسم کی مٹھاس ہے جو سننے والوں کا دل موہ لیتی ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو گویا سچے موتی رولتے ہیں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو کی مہک ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں حسن کلام سے نوازا ہے۔ وہ جب آغاز خطاب کرتے ہیں تو حاضرین و سامعین پر سکوت طاری ہوجاتا ہے اور تمام اہل مجلس ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ ان کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ تیر بہ ہدف کی طرح سامع کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے۔ بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
الفاظ ان کے آگے صف بہ صف نالج فرمان نظر آتے ہیں، اگرچہ ان کی مادری زبان بنگلہ بھاشا ہے لیکن انھیں اردو ، فارسی اور عربی پر اہل زبان جیسا عبور حاصل ہے۔ بقول حضرت حفیظ جالندھری:
حفیظ اہل زبان کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہے
ان کے لب و لہجے میں ایک عجیب قسم کی شائستگی اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ عطیہ خداوندی ہے۔ اگر انھیں غائبانہ سنا جائے تو یوں لگے گا جیسے کوئی اسی پچاسی سالہ معمر شخص بول رہا ہو۔ لیکن ان سے مل کر عجیب سی حیرانی ہوتی ہے کیونکہ وہ دیکھنے میں ماشاء اﷲ زیادہ سے زیادہ 65 سالہ تندرست و توانا ہنس مکھ اور شگفتہ مزاج شخصیت کے حامل درویش کامل ہیں۔ رہی بات ان کی آواز میں جھلکنے والی بزرگانہ شان کی تو یہ اکرام خداوندی ہے۔
ان کی خطابت کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ سامعین پر ایسا وجد طاری ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ جی نہیں چاہتا کہ ان کا بیان ختم ہو۔ سبحان اﷲ!سبحان اﷲ غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ عرض ہے:
یہ مسائل تصوف یہ بیانِ حضرتِ والا
اسے یوں ہی سنتے رہتے جو یہ بار بار ہوتا
یہ عشق الٰہی کے ان دریاؤں کی روانی کا کامل ہے جو حضرت اقدس کے قلب مبارک میں موجزن ہیں لیکن ہم جیسے کوہِ باطن اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ تیرا جلوہ جس نے دیکھا وہ تیرا ہوگیا۔ بقول شاعر:
خوشبو کا خمیر اٹھتا ہے خاکستر گل سے
اپنے ہی بدن سے تیری آجاتی ہے خوشبو
جب سے حضرت والا تشریف لائے ہیں تب سے ان کی دید کے پیاسے جوق در جوق وطن عزیز کے گوشے گوشے سے کشاں کشاں دیوانہ وار شمع کے پروانوں کی طرح کھینچے چلے آرہے ہیں اور اﷲ والوں کے زائرین کا یہ عظیم الشان میلہ حضرتِ اقدس کے متوقع قیام تا 11دسمبر تک بدستور لگا رہے گا۔ سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر حضرت شاہ صاحب پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید، مگر ایسے بھی ہیں
6 دسمبر کی تاریخ ہر سال جب بھی آتی ہے سن 1992ء میں ہونے والے ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے سانحہ عظیم کی یاد تازہ کردیتی اور خانہ خدا کی انسانیت سوز بے حرمتی کے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں:
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پُروائی کا 16دسمبر سقوط مشرقی پاکستان کے عظیم سانحہ کے حوالے سے ناقابل فراموش ہے۔21 دسمبر کو موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس گلزار احمد ان کی جگہ پر سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔
25 دسمبر کو قوم پورے اعزاز اور عقیدت کے ساتھ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا جشن پیدائش منائے گی۔ 27 دسمبر کی تاریخ نہایت سوگ والی ہے اور ناقابل فراموش بھی کیوں کہ اس روز پاکستان پیپلزپارٹی کی عظیم قائد اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا تھا ۔ اتفاق سے اس روز ہماری چھوٹی بیٹی ماہ وش فاروقی کی شادی بھی طے تھی جسے مجبورا ملتوی کرنا پڑا اور شادی خانہ آبادی کے سلسلے کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں اور اس سانحہ کی نذر ہوگئیں۔ بندگی بے چارگی ۔ بے شک وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔