اساتذہ عظیم ہیں

اساتذہ طالب علم کی تعمیر شخصیت اور کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں

اساتذہ لائقِ تعظیم ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''السلام علیکم سر!'' تقریباً 60 کے قریب بچے یک زبان ہوکر بولے، جو کہ کمرۂ امتحان میں قطاروں کی صورت کھڑے تھے۔ میں شرمندہ ہوگیا اور سر اٹھائے بغیر بس ہاتھ کا اشارہ ہی کرسکا کہ آپ سب بیٹھ جائیں۔ بچوں کی دی گئی عزت و توقیر اپنا طالب علمی کا دور یاد دلا رہی تھی۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کی تو بات ہے کہ میں بھی انہی جیسا طالبِ علم ہوا کرتا تھا، ایسے ہی عزت و احترام سے اپنے اساتذہ سے ملا کرتا تھا۔ چھوٹی جماعتوں میں تھا تو دل میں عزت سے زیادہ ڈر ہوتا تھا کہ استاد کی بے ادبی کی تو کہیں پٹائی نہ لگادیں۔

چھٹی جماعت کی بات ہے، اپنی کلاس سے پانی پینے کی اجازت لے کر نکلا تھا۔ اپنی دھن میں سیڑھیاں طے کرتا نیچے اتر رہا تھا کہ پیچھے سے سر بلال کی آواز آئی۔ ''قیصر''۔

میں نے چونک کر پیچھے دیکھا تو سر بلال ہاتھوں میں کتابیں اٹھائے پیچھے سے آتے نظر آئے۔ چہرے پر کچھ غصہ نمایاں ہورہا تھا۔ پاس آتے ہی انہوں نے گدی پر ایک تھپڑ لگایا، جو اس وقت مجھے اچھا نہیں لگا۔ بلال صاحب نے کہا ''قیصر ایک بات یاد رکھنا جو اپنے بڑوں کے آگے چلتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے''۔ دراصل میں نے کلاس سے نکلتے ہوئے دھیان نہیں دیا تھا کہ سر بلال پیچھے سے آرہے تھے۔

پھر کچھ بڑے ہوئے تو یہی ڈر اپنے محترم اساتذہ کےلیے عزت میں بدلنے لگا۔ میٹرک میں ہمیں جو استاد ملے وہ بہت عظیم تھے۔ اسکول بے شک سرکاری تھا مگر اساتذہ کی محنت نے کئی پرائیویٹ اسکولوں کو مات دے رکھی تھی۔ رزلٹ بھی اچھا کیسے نہ ہوتا عبدالحفیظ صاحب جیسے اچھے اور محنتی استاد جو موجود تھے۔ پیپرز سے کچھ ماہ پہلے کلاس کے بچوں نے حفیظ صاحب سے بات کرکے اُن سے ٹیوشن پڑھانے کا وقت لے لیا اور روز پڑھنے جانے لگے۔ مجھے بھی حسد ہوا کہ اگر میں سر کے پاس ٹیوشن پڑھوں گا، اُنہیں فیس دوں گا تو وہ کلاس میں مجھ پر اور زیادہ مہربان رہیں گے۔ حالانکہ کلاس میں وہ پہلے ہی بہت شفقت برتتے تھے۔ مجھے اور مجھ ایسے دوسرے پڑھنے والے بچوں کو نمایاں رکھتے تھے۔ ایک روز سر عبدالحفیظ سے کلاس ختم ہونے کے بعد بات کر ہی ڈالی ''سر میں بھی آپ کے پاس ٹیوشن پڑھنا چاہتا ہوں۔''

''قیصر تم ٹیوشن پڑھ کر کیا کرو گے بیٹا؟ تمہارا رزلٹ تو کلاس میں اچھا ہے۔ تم اسی طرح محنت کرتے رہو تو سالانہ امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرو گے''۔

''سر اور بھی تو کچھ بچے پڑھنے میں اچھے ہیں، مگر وہ بھی آپ کے پاس ٹیوشن پڑھنے آرہے ہیں۔'' میں نے جرح کی۔


''بیٹا دیکھو اگر انہیں ضرورت محسوس ہورہی ہے تو یہ اُن کی مرضی ہے۔ تم اُن سے خود کو مت ملاؤ۔ تمہیں واقعی ٹیوشن کی ضرورت نہیں''۔ سر عبدالحفیظ کا قد اُس وقت مجھے اور بھی بلند لگا تھا، عظیم استاد تھے وہ۔ ورنہ آج کے کچھ ٹیچرز بچوں کو باقاعدہ ''حکم'' دیتے ہیں کہ وہ ان کے پاس ٹیوشن پڑھیں۔

میرا ایک کلاس فیلو تھا۔ اُسے جب بھی استاد سرزنش کرتے یا اسٹک سے سزا دیتے تو وہ اُن کی اسٹک ہاتھ میں پکڑ لیتا اور بدتمیزی سے پیش آتا۔ سر شرمندہ ہوجاتے اور اکثر اُسے کہہ دیا کرتے ''نہ کیا کرو ایسا، پچھتاؤ گے''۔

سر تو شائد نہ دیکھ پائے ہوں، مگر میں نے دیکھا میڑک پاس کرلینے کے بعد سے اب تک 9 سال گزر چکے ہیں اور وہ صرف بی اے ہی کرپایا ہے وہ بھی بڑی مشکلوں سے۔ استاد نے صحیح کہا تھا بدتمیزی نہ کیا کرو پچھتاؤ گے۔

کالج میں آیا تو وہاں بھی بہت سے مہربان چہرے ملے، جنہوں نے علم کے حصول کے سفر میں مجھ ایسے کو انگلی پکڑ کر آگے بڑھایا۔ سر سیف اللہ رانا جیسے انمول لوگوں کے ہاتھوں تربیت ہوئی جو اپنے مضمون فزکس میں تو ماہر تھے ہی، اس کے ساتھ بحیثیت انسان بھی بے مثال تھے۔ ہم طلبا اُن کے بات کرنے کے انداز، اُن کے چلنے کے انداز،اُن کے بائیک چلانے کے انداز کو، الغرض اُن کو پورا پورا کاپی کیا کرتے تھے۔ اُن کی توجہ پاکر خوشی محسوس کرتے تھے۔ اُن کے دور میں کئی طالبِ علم بِلامعاوضہ ٹیوشن پڑھا کرتے تھے۔ اب بھی جب کوئی مستحق طالبِ علم مجھے ملے تو میں بلاجھجھک اپنے تمام اساتذہ سے بڑے مان کے ساتھ بات کرتا ہوں کہ محترم سر یہ بچہ مستحق ہے اس سے فیس مت لیجئے گا اور الحمدللہ مجھے کسی نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ کالج لائبریرین ہمیشہ میرے لائبریری کارڈ کی گنجائش سے زیادہ کتابیں ایشو کردیا کرتے کہ بچے کو ادب سے لگاؤ ہے اچھی اچھی کتابیں پڑھ لے گا۔

یونیورسٹی پہنچا تو دل میں استاد کےلیے جو ڈر اور عزت کے ملے جلے جذبات تھے، وہ مکمل طور پر عزت میں بدل چکے تھے۔ وہاں کے استاد بھی اپنی شفقت اور انسیت کے ساتھ میرے لیے مشعلِ راہ تھے۔ میرے اچھے فیصلوں پر ہمیشہ میری تائید کرتے اور حوصلہ بڑھاتے۔ غلطیوں پر بلاشبہ ڈانٹتے، سرزنش کرتے، مگر اُس میں کوئی ذاتی عناد شامل نہ ہوتا۔ ترقی کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرتے اور بہت سے فیصلوں میں مجھے نمایاں کرتے۔ یہ میرے لیے اعزاز تھا۔

آج یہ جو ساٹھ کے قریب بچے میرے ادب میں کہ ممتحن بنا اُن کے سامنے کھڑا تھا، اپنے سروں کو جھکائے ہوئے تھے۔ یہ بلاشبہ میرے اساتذہ کی کاوش اور شفقت کا ثمر تھے۔ ہاتھ پکڑ کر لکھنے سے لے کر قلم پکڑ کر لکھائی کا شوق پورا کرنے تک جتنے بھی سنگِ میل آئے سب اُنہی نے طے کروائے۔ اُنہی نے مجھے کسی قابل کیا۔ آج آپ جو پڑھ رہے ہیں یہ میرے محترم اساتذہ کےلیے اظہارِ تشکر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہ عظیم لوگ تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story