کنٹینرز کی گمشدگی کا معاملہ سپریم کورٹ نے امریکی سفیر کے خط کا نوٹس لے لیا

امریکی سفیرنے چیئرمین ایف بی آرکوخط کیوں لکھا؟حکومت ردعمل سے آگاہ کرے،عدالت


Staff Reporter October 31, 2013
کسی کو کراچی یا ملک کی پروانہیں،چیف جسٹس ،منشیات کی اسمگلنگ نہ رکنے پرڈی جی کوسٹ گارڈ،اینٹی نارکوٹکس اورمیری ٹائم ایجنسی کی سرزنش فوٹو: فائل

FAISALABAD: سپریم کورٹ نے ایساف کنٹینرز کی گمشدگی سے متعلق چیئرمین ایف بی آر کو لکھے گئے خط کا نوٹس لیتے ہوئے استفسارکیا ہے کہ یہ خط امریکی سفیر نے کس حیثیت میں لکھا؟حکومت نے اس پرکس ردعمل کا اظہار کیا،پاکستان ایک خود مختار ملک ہے۔

ہر ادارے کوعدلیہ کی طرح ثابت کرنا چاہیے کہ وہ آزادہے ، امریکی سفیرکوپاکستان میں امریکی اسلحے کی اسمگلنگ پرشک ہے تواسے شعیب سڈل کمیشن کی رپورٹ دکھائیں،پشاور کی کارخانومارکیٹ کادورہ کرائیں،حکومت سندھ غیر قانونی اسلحے کے خلاف اشتہاری مہم چلانے کے بعدکرفیو لگاکر گھر گھر تلاشی کا جائزہ لے رہی ہے،کراچی آپریشن سے ہلاکتیں شایدنہ رکی ہوں لیکن جرائم کے خلاف ریورس گیئرلگ گیاہے،کسٹم،میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی،کوسٹ گارڈ،اینٹی نارکوٹکس فورس اوردیگر ادارے منشیات اوراسلحے کی اسمگلنگ کیخلاف مشترکہ حکمت عملی طے کرکے ابتدائی پلان جمعرات کو عدالت میں پیش کریں ،اگران اداروں نے اپناکردارادانہ کیاتوصوبائی حکومت،رینجرزاورپولیس کی حاصل کردہ کامیابیاں اپنی حیثیت کھودینگی،31ارب کاملکی سرمایہ بیرون ملک جانے کی بھی تحقیقات کی جائیں۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں3رکنی لارجربینچ نے بدھ کوکراچی بدامنی عمل درآمد کیس کی سماعت کی۔

بینچ کے دیگرارکان میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں،سماعت کے آغاز پرمیری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے لیگل آفیسر لیفٹیننٹ کمانڈرافضال سے جسٹس جواد نے استفسار کیا کہ بھارتی ماہی گیر پکڑنے کے علاوہ آپ سمندری حدود میں کیاکرتے ہیں کہ اسلحے کی اسمگلنگ ہورہی ہے،کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے اختیارات کیاہیں؟ چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ آپ کوکس نے کہاکہ آپنے اختیارات استعمال نہ کرو؟پارلیمنٹ کے علاوہ آپ کے اختیارات کوئی کم نہیں کرسکتا،اور آپ کو اس میں کرنا ہی کیاہے کہ اسمگلروں کوپکڑکرکاغذی کارروائی کیساتھ کسٹم حکام کے حوالے ہی کرنا ہے۔اس موقع پر عدالت کے استفسارپر پاکستان کوسٹ گارڈ کی جانب سے بتایاگیاکہ اسلحے کی اسمگلنگ افغانستان سے بذریعہ گوادر،پسنی کے زمینی راستوں سے ہوتی ہے۔

سمندری راستوں سے نہیں ہوتی۔چیف جسٹس نے برہمی کااظہارکیا اور آبزرویشن میں کہاکہ ملک بھر میں اسمگل شدہ جدید گاڑیاں جرائم پیشہ افراد کے پاس ہیں اورکسٹم کو سب خبرہے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کوسٹ گارڈ نے کوئی اختیارات استعمال نہیں کیے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کام نہ کرنے کی ریت بنا دی گئی ہے اور کوئی بات نہیں ،اسمگلنگ ہورہی ہے اور چیک پوسٹوں پرکھڑے ہوکر دیکھا جارہاہے لیکن کسی اسمگلر کو پکڑا نہیں کیونکہ فورس کو اپنے اختیار کا ہی علم نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس فورس میجرجنرل ظفرسے استفسارکیاکہ وہ بتائیں شہرمیں اسمگل شدہ منشیات کاکاروبارہورہاہے یانہیں ،جس پر میجر جنرل نے جواب سے قبل تمہیدباندھنے کی کوشش کی ۔

تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ ہاں یا ناں میں جواب دیں کہ نارکوٹکس کا بزنس ہورہاہے یانہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ صرف کاروبار ہی نہیں شہرمیں باقاعدہ منشیات فروشی کے اڈے قائم ہیں اوراگر آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے تو عدالت میں تحریری طور پرسرٹیفکیٹ دیں کہ منشیات کابزنس نہیں،جس پر ڈی جی اینٹی نارکوٹکس فورس نے اعتراف کیاکہ شہر میں اسمگل شدہ ڈرگ کاکاروبار ہورہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ آپ مانتے ہیں کہ یہ دھندہ ہے تو پھربتائیں کہ کتنے اسمگلروں کوپکڑا اورجیل میں ڈالااورکتنے افراد کو کراچی سے بے دخل کیا، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ آرمی افسرہیں حالانکہ اینٹی نارکوٹکس فورس میں آپ کی تعیناتی کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور یہ مت سمجھیں کہ ہاتھ اٹھا کر یا اونچا بول کراپنی جان چھڑالیں گے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ ملک میں ہر شہر ی جانتاہے کہ کراچی کے علاقے کالا پل منشیات کا بازارہے ،سب کو اپنے عہدوں سے محبت ہے ملک سے نہیں،ڈی جی اے این ایف نے کہاکہ ہماری تمام ترتوجہ حب ریور روڈ پر مرکوز ہے جہاں ہم نے کامیاب کارروائیاں بھی کی ہیں جسٹس گلزار احمدنے کہاکہ عدالت کاسوال یہ ہے کہ آخر یہ ڈرگ کہاں سے آ رہی ہے ،گاڑیاں اورمنشیات برآمد کرکے قبضے میں لے لی جاتی ہے منشیات بھیج کون رہاہے کچھ خبرنہیں،چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ آپ کے پاس مجموعی طورپرکراچی میں افرادی قوت کتنی ہے؟جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 200 افراد ی قوت ہے جبکہ سندھ بھر میں کل 400افراد کی نفری ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اگر نفری درکارتھی توآپ کو حکام بالا کو خط لکھنا چاہیے تھا،حقائق چھپاکرعدالت کو گمراہ کررہے ہیں؟بتائیں کون لوگ ہیں جو شہر میں منشیات کا کالا دھندہ کررہے ہیں۔جس پرڈی جی اے این ایف عدالت کو مطمئن نہ کرسکے چیف جسٹس نے کہاکہ آپ سیدھی بات کریں کہ کام کرسکتے ہیں یانہیں۔



تاہم اس کے باوجود ڈی جی نے کہاکہ باالکل کام ہوسکتاہے لیکن وہ مکمل طور پر ڈرگ کے خاتمے کی ضمانت عدالت کو نہیں دے سکتے۔چیف جسٹس نے کہاکہ شہرکی تباہی ہم سب نے کی ہے اورچھری رینجرز اور پولیس کے گلے پرپھرتی ہے۔صرف بیٹھ کر لنچ کرنااور اٹھ جانے کا نام کارکردگی نہیں ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ڈی جی اے این ایف سے استفسارکیا کہ آپ بتائیں کہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں کہ نہیں جس پرنفری کی کمی کے بارے میں عدالت کو بتایاگیاتاہم جسٹس خواجہ نے کہاکہ وجوہات عدالت کونہیں بلکہ پرائم منسٹر کو بتائیں۔تاہم ڈی جی نے پھر بھی بے بسی کا اظہارکیا اور کہا کہ 1995 سے فورس میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت میں دلائل نہیں دو جاکرمتعلقہ حکام کو درخواست دیں یا لیٹر لکھیں ۔

عدالت نے 2011میں اپنا تفصیلی فیصلہ دیاشاید آپ نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہاکہ سب سے زیادہ منشیات کے اڈے لیاری میں ہیں،ڈی جی اے این ایف نے کہاکہ ہماری فورس نے لیاری میں ہی منشیات کے عادی افرادکے علاج کیلیے اسپتال بھی قائم کیاہے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ منشیات فروشوں کو پکڑ لو تواسپتال کی کوئی ضرورت نہیں ،ایف بی آر کو بھی پتہ ہے ان کانظام فیل ہوچکا ، آپ کو تو ٹیکس ہی نہیں ملتا ،آپ کے ملک کی معشیت اسلام آباد سے نہیں بلکہ پورٹ سٹی سے چلتی ہے ،چیئرمین ایف بی آر کو تو کراچی میں بیٹھنا چاہیے۔چیف جسٹس نے ایف بی آر کے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کی کراچی کیلیے کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی جس پر چیرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ وہ خامیاں دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

3 ماہ میں کافی فرق پڑا ہے اطمینان بخش صورت حال نہیں مگر بہتر ضرورہے ٹیکس کی وصولی میں انسانی مداخلت کو کم سے کم کررہے ہیں،عدالت نے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس کو طلب کیا اور کہاکہ جائیں کراچی کے پوش علاقوں میں چیک کریں آپ بڑے لوگ ہیں جہازوں میں پھرتے ہیں ذراسڑکوں پر بھی چلیں اور جاکر دیکھیں کہ چپے چپے پر اسمگل شدہ ایرانی پٹرول مل رہاہے،سماعت کے موقع پر ڈی جی انٹیلی جنس کسٹم محمدریاض پیش ہوئے اور عدالت کو بتایاکہ انہوں سہراب گوٹھ سپرہائی وے اور یوسف گوٹھ میں اسلحے اورڈرگ اڈوں کے بارے میں اعلی حکام کو لکھ دیاتھاجس پرعدالت نے کہاکہ وہ رپورٹ پڑھ کربتائیں،محمد ریاض نے عدالت کو بتایاکہ سہراب گوٹھ اوریوسف گوٹھ میں اسلحے اور منشات کے اڈے ہیں سہراب گوٹھ سے اسلحہ منشیات عوامی ٹرانسپورٹ کی آڑ میں ملک بھرمیں بھیجاجاتاہے اور یہ علاقے ڈرگ مافیا کی جنت ہیں، محمد ریاض نے بتایاکہ ان کے پاس نفری کم ہے،انھوںنے بتایاکہ کسٹم نے ضلعی انتظامیہ کوتحریرکیا تھاکہ رینجرز اور پولیس کے ذریعے علاقہ صاف کرایا جائے۔

تاکہ کسٹم حکام اسمگل شدہ اسلحے کے خلاف کارروائی کرسکیں،عدالت نے ڈی جی کسٹم کو طلب کیا اور سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ انٹیلی جنس نے معلومات فراہم کی تھیں آپ نے آپریشن کیوں نہیں کیا،ظفر اقبال نے کہاکہ ہمارے پاس نفری کی کمی ہے جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ نفری فراہم کرنا عدالت کا کام نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ چیئرمین ایف بی آر کوطلب کیا اور ان سے کہاکہ آپ کے پاس ول نہیں اگر عزم ہوتاتوآپ حکومت کو لکھتے کہ منشیات اسلحہ اسمگلنگ کیخلاف آرمی کی مدد فراہم کی جائے، کیونکہ کراچی میں جھگڑاصرف پیسے کا ہے اگر جرائم پیشہ عناصرکی آمدنی کو روک دیا جائے تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔چیئرمین ایف بی آر نے بتایاکہ 64 فیصد ڈیوٹی فری ہے جبکہ 34 فیصد پر ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے، انھوں نے عدالت کو بتایاکہ چین اور دیگرممالک سے فری ٹریڈ معاہدے ہیں جہاں سے مال انتہائی سستے داموں آتا ہے اور ان سے ڈیوٹی بھی نہیں لی جاتی، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ان معاہدوں پر نظر ثانی بھی کرسکتے ہیں۔

کیونکہ آپ کی معشیت کو نقصان ہورہاہے اس شہر میں ہنڈی ،حوالہ کا کاروبارہورہا ہے اب تو ٹیلی فون کمپنیاں بھی غیرقانونی کمیونیکشن اور ٹیکس چوری کرتی ہیں، کالے دھن کا کراچی میں ایک بڑا مسئلہ ہے ،چیئرمین ایف بی آر نے بتایاکہ کوسٹ گارڈ کے اختیارات ان کی ناقص کارکردگی کے باعث واپس لیے عدالت نے کہاکہ آپ کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے اختیارات میں کمی کیسے کرسکتے ہیں ،اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے رمضان بھٹی کمیشن کی رپورٹ پڑھی جس میں عدالت کو بتایاگیاکہ پورٹ قاسم پر اسلحے کے کنسائمنٹس 1994 سے پڑے ہیں جس میں پیٹیوں میں بند اسلحہ مکس ہوچکا ہے جس پر چیف جسٹس نے چیف کلکٹر محمد یحیی سے استفسار کیاکہ مذکورہ اسلحہ کس نے اور کس مقصد کیلیے منگوایا عدالت کو بتائیں کہ بوٹس اور لانچوں کو کون کنٹرول کرتاہے کسٹم حکام کی جانب سے مذکورہ اسلحے کی پیٹیوں کے بارے میںمعلومات نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر کو کہا کہ یہ آپ کے افسران کی کارکردگی ہے 19سالوں سے اسلحہ پورٹ پر پڑاہے اور آپ کے علم میں نہیں،محمد یحیٰ نے عدالت کوبتایاکہ اسلحے کی نیلامی نہیں کی جاسکتی۔

جسٹس خواجہ نے کہا کہ آپ اسلحے کو اپنے پاس تو نہیں رکھ سکتے اس کو آرمی اسٹور میں جمع کیوں نہیں کرواتے۔دوران سماعت اے جی نے بتایاکہ سندھ میں اشتہاری مہم پرغیر قانونی اسلحے کے خلاف مہم چلانے کے بعد کرفیو لگاکر گھر گھر سے اسلحے کی برآمدگی کیلیے طریقہ کار طے کیا جارہاہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل منیراے ملک تمام اداروں کے ساتھ ملکر اجلاس کریں اور اسلحے کیخلاف حکمت عملی کا بلیو پرنٹ عدالت میں جمع کروائیں اگرکراچی میں مزیدپولیس کی ضرورت ہوتو اضافہ کیا جائے یا کسی دوسری پیراملٹری فورس کی مدد لی جائے، جسٹس خواجہ نے کہاکہ انتظامیہ اپناکام کرے تو ہمیں یہاں بیٹھنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔چیف جسٹس نے کہاکہ اسلحہ کیاآسمان سے آرہاہے کوئی آرمی یا بیوروکریٹ آکر بتادے کہ اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ پشاور کے قریب کارخانو کے علاقے میں خود گیا جہاں امریکہ کا جدید اسلحہ کھلے عام فروخت ہورہاہے، ایڈووکیٹ جنرل خالد جاوید جب رمضان بھٹی کمیشن کی رپورٹ پڑھتے ہوئے اس مقام پر پہنچے ۔

جہاں کمیشن نے بتایا کہ امریکی سفیر کاایک خط چیئرمین ایف بی آر کو آیا تھا جس میں کسی بھی کنٹینر کی گمشدگی سے لاعلمی کا اظہار کیا گیاتھا،امریکی سفیر نے خط میں یہ بھی لکھا تھا جس میں بتایاگیا کہ کنٹینر کے ذریعے ان کا کوئی اسلحہ نہیں آتا اورنہ ہی ان کا کوئی کنٹینر چوری ہوا ہے۔فاضل چیف جسٹس نے اس پرناگواری کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ امریکی سفیرکویہ خط لکھ وضاحت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ نے بتایاکہ یہ معاملہ میڈیامیں آیا تھااس لیے امریکی سفیر نے اس بارے میں خط لکھاتھا،جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ جس اخبارمیں اس بارے میں پڑھا تھا اس کے ایڈیٹر کوخط لکھنا کافی تھا،چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے ، امریکی سفیر کو چیئرمین ایف بی آر کے بجائے حکومت کوخط لکھنا چاہیے تھا، اٹارنی جنرل بتائیں کہ حکومت نے اس پر کس رد عمل کا اظہارکیا، اٹارنی جنرل منیراے ملک نے کہا کہ وہ اس معاملے پرحکومت سے بات کرینگے ، چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجودایف بی آر کے سابق وکیل راجاارشاد سے اس بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے کہا کہ ناٹو کنٹینرز کے کیس میں وہ خود وکیل تھے،شعیب سڈل کمیشن کی رپورٹ میں 9مختلف رپورٹس ہیں۔

جن میں یہ بات ثابت ہے کہ امریکی اسلحہ پاکستان میں اسمگل ہورہاہے ،انھوں نے کہا کہ اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر سلمان صدیق نے عدالت میں برملا کہا تھا کہ کنٹینرز کے غیر قانونی طریقے سے پورٹ سے نکلنے کے باعث قومی خزانے کو 65 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید نے کہا کہ کنٹینرزکی گمشدگی حقیقت ہے تاہم ان کی تعداد پر اختلاف ہوسکتا ہے،چیف جسٹس نے عدالتی عملے کوحکم دیاکہ مذکورہ رپورٹ کوعدالت میں پیش کیاجائے۔منیراے ملک نے اعتراض کیاکہ دونوں ممالک کے درمیان خط و کتابت ہوئی ،دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ہیں اب یہ ہمارے ادراوں کی ساکھ کا بھی مسئلہ ہے جس پر راجاارشاد نے کہاکہ امریکی سفیر کا موقف درست نہیں اور وہ ثابت کردیں گے کہ کنٹینر کے ذریعے جدید اسلحہ آرہاہے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ منیراے ملک صاحب اپ دوسروں کویہ پیغام دیں کہ آپ کی عدالتیں آزاد ہیں اگرکسی ملک کا اسلحہ ہمارے ملک میں بگاڑپید اکررہاہے تو عدالتیں فیصلہ دیں گی، جس پر منیراے ملک نے کہاکہ امریکی سفیرنے اپنی رپورٹ میں کنٹینرز کی چوری نہ ہونے کا کہاہے اور یہ نہیں کہاکہ کنٹینر ز سے سامان چوری نہیں ہوا۔بعدازاں چیف جسٹس نے حکم دیاکہ یہ ہمارے لیے حیران کن ہے کہ تمام اداروں کواسلحے اورمنشیات کی اسمگلنگ کا علم ہے مگروہ اقدام کیلیے تیارنہیں کوسٹ گارڈکواختیارات واپس دیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں