ولید خان اے پی ایس کا باہمت طالبعلم

سانحہ اے پی ایس کا غازی ولید خان برمنگھم میں یوتھ پارلیمنٹ الیکشن جیتنے والا پہلا ہونہار پاکستانی طالبعلم ہے

سانحہ اے پی ایس میں ولید خان کے چہرے پر 6 گولیاں لگی تھیں۔ (فوٹو: فائل)

MUZAFFARGARH:
سانحہ اے پی ایس، پاکستان میں سفاکیت، بے رحمی اور انسانی بے حرمتی کا سب سے سخت ترین واقعہ تھا، جس نے پشاور کے بہت سے گھروں کو ویران کردیا۔ ننھی کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا دیا گیا اور پاکستان کو سیراب کرنے والے کئی پختہ ستاروں کو موت کی نیند سُلادیا گیا۔ سانحہ اے پی ایس، جسے پاکستان میں "بلیک ڈے" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس واقعے کو گزرے تقریباً پانچ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ لیکن آج بھی جب ہم اس سانحے میں ہونے والی تباہی پر روشنی ڈالتے ہیں تو ہر آنکھ اشک بار ہوجاتی ہے، روح کانپ اٹھتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ ایک حادثہ جب پوری قوم کو جھنجھوڑ سکتا ہے تو جن پر یہ قیامت گزری اُن کا کیا حال ہوگا؟

16 دسمبر 2014 کی صبح پیش آنے والے اس واقعے نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایک اسکول جہاں تعلیم کو پروان چڑھایا جاتا تھا، وہاں اگر خون کی ندیاں بہنا شروع ہوجائیں تو کیا ہو۔ سانحہ اے پی ایس نے 144 گھروں کی روشنیوں کو بجھا دیا تھا۔ ان گھروں کے کچھ ستارے غازی بن گئے اور کچھ شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔

سانحہ اے پی ایس نے جہاں پوری قوم کو دہلا کر رکھ دیا، وہیں پوری قوم کو متحد بھی کردیا تھا۔ معصوم طالبعلموں پر حملہ کرنے کا مقصد صرف اور صرف علم کی شمع کو روشن کرنے سے روکنا تھا۔ لیکن ہمارے ملک کے دہشت گردوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ ہماری قوم علم حاصل کرنے کی خاطر ہر حد پار کرسکتی ہے۔

جہاں سانحہ پشاور کا ہر شہید اور غازی پاکستان کا فخر ہے، اسی طرح اے پی ایس کا غازی ولید خان بھی پاکستان کو سیراب کرنے اور اس پاک وطن کا نام اونچا کرنے میں سرگرم ہے۔ سانحہ پشاور کا یہ 19 سالہ نوجوان اپنے چہرے پر تقریباً آٹھ گولیاں کھانے کے باوجود اپنے عزائم مضبوط کیے بیٹھا ہے۔ معجزاتی طور پر زندگی حاصل کرنے والا ولید خان جرأت اور ہمت کے اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں اُس نے اپنے اندر بسے ڈر اور خوف کو نکال کر تعلیم کو اپنا سہارا بنایا اور علم کی لاٹھی سے چلنے میں ہی عافیت سمجھی۔


16 دسمبر 2014 کو تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں ولید خان کے چہرے پر 6 گولیاں لگی تھیں۔ اس طالبعلم کے حوصلے کو جتنی داد دی جائے، کم ہوگی۔ جب ولید خان کے چہرے کے زخم بھرنا شروع ہوئے تو پاکستان کے اس باہمت غازی نے تعلیم کو ہی اپنا سہارا بنایا اور اُسی آرمی پبلک اسکول میں اپنے تعلیمی کیریئر کو جاری رکھا۔ یہ کام حوصلے اور بہادری سے کم نہیں کہ جہاں انسان پر ایک دلخراش سانحہ گزرے، وہیں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے۔

ولید خان کی محنت اور ہمت کی آج یہ مثال ہے کہ وہ برمنگھم میں یوتھ پارلیمنٹ الیکشن جیتنے والا پہلا ہونہار پاکستانی طالبعلم ہے۔ نا صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی ولید خان نے اپنے علم کی شمع روشن کردی ہے۔ جن ملک دشمنوں کا یہ ارادہ تھا کہ قلم اور بندوق کی لڑائی چھیڑیں گے، وہ دیکھ لیں کہ آج علم کا زور اپنے عروج پر ہے اور اس نوجوان نے کر دکھایا کہ ہمارے ملک کے چراغ بجھنے والے نہیں۔

پاکستانی میڈیا اور اخبارات کو انٹرویو میں ولید خان کا کہنا تھا کہ حملے کے دوران وہ بالکل ایک بے حس انسان کی مانند تھا۔ چہرہ چھلنی ہونے کے باوجود وہ کچھ کہنے سننے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ مگر اس سارے سانحے کو سہنے کے باوجود ولید خان نے اپنے عزائم کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔

ہم آنے والے دور میں یہ اُمید ضرور کرتے ہیں کہ ولید خان اور اس جیسے دیگر پاکستانی سپوت پاکستان کا سر فخر سے بلند کریں گے اور علم کی روشنی کو پوری طاقت کے ساتھ اس ملک میں پھیلائیں گے، جہاں دوبارہ سانحہ پشاور جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story