لوٹی ہوئی دولت کی واپسی
مختلف وزرا نے اپنے بیانات کے ذریعے قوم کی ذہن سازی شروع کی کہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ناممکن ہے
مستقل مزاجی، پختہ عزم اور وطن سے لازوال محبت ہو تو آپ ناممکن کو بھی ممکن کرسکتے ہیں۔ جی ہاں یہ ذکر ہے عمران خان کا، جنہوں نے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ ستر سال میں عمران خان واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے دعووں کو حقیقت کا روپ دیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ آئیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وطن عزیز کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایوب خان وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ مسند اقتدار پر براجمان ہوتے وقت انھوں نے کہا۔ ''میں پچھلے دو سال سے شدید تشویش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں طاقت کی بےرحم رسہ کشی جاری ہے، بدعنوانی اور ہمارے محب وطن، سادہ، محنتی اور ایمان دار عوام کے استحصال کا بازار گرم ہے، رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کےلیے آلۂ کار بنا دیا گیا ہے۔ ... سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس درجہ گرچکی ہے کہ مجھے یقین نہیں رہا کہ انتخابات سے موجودہ داخلی انتشار بہتر ہوگا اور ہم ایسی مستحکم حکومت بنا پائیں گے''۔
یہی وجہ تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے چور بازاری اور پرمٹ باز سیاستدانوں کے احتساب کا فیصلہ کیا۔ لیکن کرپٹ سیاستدانوں سے (بقول ان کے) کچھ وصول کرسکے اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ان کے بعد آنے والے یحییٰ خان نے 313 نوکرشاہوں کو بدعنوانی و گھپلے کے الزام میں برطرف کردیا، لیکن وصولی ندارد۔ اس کے بعد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1400 بیورو کریٹس کو نااہلی و نامعلوم کرپشن کے باعث چلتا کیا۔ لیکن قومی خزانے میں مال مسروقہ شائد وہ بھی جمع نہ کروا سکے۔
بھٹو کے بعد آنے والے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق نے 'پہلے احتساب پھر انتخاب' کا نعرہ لگایا اور گزشتہ حکومت کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات ثابت کرنے کےلیے سیکڑوں صفحات کے وائٹ پیپرز شائع کیے، لیکن لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا دعویٰ یہاں پر بھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔
پہلے بے نظیر اور پھر نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق لغاری نے ان ہی الزامات کے تحت برطرف کیا۔ نواز شریف کی دوسری حکومت نے بے نظیر اور آصف زرداری کے خلاف احتساب بیورو میں کرپشن ریفرنس فائل کیے۔ لیکن لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا خواب یہاں پر بھی حقیقت نہ بن سکا۔
جنرل پرویز مشرف نے سابق احتساب بیورو کی جگہ نیب کا ادارہ قائم کیا، مگر ایک طویل عرصے تک وطن عزیز کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے کے باوجود وہ بھی قوم کو لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی خبر نہ سناسکے۔
حسب روایت عمران خان بھی کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگا کر ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے۔ کرپشن کے خلاف ان کا پختہ عزم دیکھ کر قوم کو امید ہوچلی تھی شائد اس بار لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا خواب حقیقت میں بدل جائے، مگر اقتدار میں آنے کے بعد پہلے عارف علوی نے فرمایا کہ انتخاب سے پہلے کے وعدے شادی سے پہلے کیے گئے وعدوں کی طرح ہوتے ہیں۔ پھر مختلف وزرا نے اپنے بیانات کے ذریعے قوم کی ذہن سازی شروع کی کہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ناممکن ہے۔ لیکن خان صاحب اپنی بات پر قائم تھے اور اب اللہ کے فضل و کرم سے بارش کے پہلے قطرے کی مانند ایک بڑی رقم پاکستان کو وصول ہوچکی ہے۔ جس پر بلاشبہ عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں۔
امید ہے کہ پاکستان سے لوٹی گئی اس کثیر دولت کی واپسی کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وطن عزیز کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایوب خان وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ مسند اقتدار پر براجمان ہوتے وقت انھوں نے کہا۔ ''میں پچھلے دو سال سے شدید تشویش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں طاقت کی بےرحم رسہ کشی جاری ہے، بدعنوانی اور ہمارے محب وطن، سادہ، محنتی اور ایمان دار عوام کے استحصال کا بازار گرم ہے، رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کےلیے آلۂ کار بنا دیا گیا ہے۔ ... سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس درجہ گرچکی ہے کہ مجھے یقین نہیں رہا کہ انتخابات سے موجودہ داخلی انتشار بہتر ہوگا اور ہم ایسی مستحکم حکومت بنا پائیں گے''۔
یہی وجہ تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے چور بازاری اور پرمٹ باز سیاستدانوں کے احتساب کا فیصلہ کیا۔ لیکن کرپٹ سیاستدانوں سے (بقول ان کے) کچھ وصول کرسکے اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ان کے بعد آنے والے یحییٰ خان نے 313 نوکرشاہوں کو بدعنوانی و گھپلے کے الزام میں برطرف کردیا، لیکن وصولی ندارد۔ اس کے بعد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1400 بیورو کریٹس کو نااہلی و نامعلوم کرپشن کے باعث چلتا کیا۔ لیکن قومی خزانے میں مال مسروقہ شائد وہ بھی جمع نہ کروا سکے۔
بھٹو کے بعد آنے والے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق نے 'پہلے احتساب پھر انتخاب' کا نعرہ لگایا اور گزشتہ حکومت کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات ثابت کرنے کےلیے سیکڑوں صفحات کے وائٹ پیپرز شائع کیے، لیکن لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا دعویٰ یہاں پر بھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔
پہلے بے نظیر اور پھر نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق لغاری نے ان ہی الزامات کے تحت برطرف کیا۔ نواز شریف کی دوسری حکومت نے بے نظیر اور آصف زرداری کے خلاف احتساب بیورو میں کرپشن ریفرنس فائل کیے۔ لیکن لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا خواب یہاں پر بھی حقیقت نہ بن سکا۔
جنرل پرویز مشرف نے سابق احتساب بیورو کی جگہ نیب کا ادارہ قائم کیا، مگر ایک طویل عرصے تک وطن عزیز کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے کے باوجود وہ بھی قوم کو لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی خبر نہ سناسکے۔
حسب روایت عمران خان بھی کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگا کر ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے۔ کرپشن کے خلاف ان کا پختہ عزم دیکھ کر قوم کو امید ہوچلی تھی شائد اس بار لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا خواب حقیقت میں بدل جائے، مگر اقتدار میں آنے کے بعد پہلے عارف علوی نے فرمایا کہ انتخاب سے پہلے کے وعدے شادی سے پہلے کیے گئے وعدوں کی طرح ہوتے ہیں۔ پھر مختلف وزرا نے اپنے بیانات کے ذریعے قوم کی ذہن سازی شروع کی کہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ناممکن ہے۔ لیکن خان صاحب اپنی بات پر قائم تھے اور اب اللہ کے فضل و کرم سے بارش کے پہلے قطرے کی مانند ایک بڑی رقم پاکستان کو وصول ہوچکی ہے۔ جس پر بلاشبہ عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں۔
امید ہے کہ پاکستان سے لوٹی گئی اس کثیر دولت کی واپسی کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔