پلاسٹک کے ذرات انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ماہرین

50 برس کے عرصے میں پیدا کردہ 8 ارب ٹن پلاسٹک خشکی، سمندر، فضا، فصلوں اور کھیتوں سے اب انسانوں میں بھی سرایت کررہا ہے


ویب ڈیسک December 10, 2019
ماہرین نے پلاسٹک کے ذرات کے انسانی اثرات کے متعلق تحقیق پر زور دیا ہے۔ فوٹو: فائل

ماہرین نے کہا ہے کہ ایک جانب تو پلاسٹک سے خشکی، ہوا اور سمندروں کے جاندار بے دریغ مررہے ہیں تو دوسری جانب اب ٹوٹ کر باریک ذرات میں بکھرتا اور کبھی نہ ختم ہونے والا پلاسٹک ہماری خوراک میں بھی شامل ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین نے پلاسٹک کے انسانی صحت پر خطرات پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 50 برس میں ہم نے اندھا دھند پلاسٹک استعمال کیا جس کی مقدار 8 ارب ٹن سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ پلاسٹک ہزاروں سال میں ختم نہیں ہوگا اور مزید ٹوٹ کر باریک ذرات میں تقسیم ہورہا ہے۔ پلاسٹک کے نظر نہ آنے والے باریک ذرات اب آبی ذخائر، فصلوں اور جانوروں کے گوشت تک میں سرایت کرچکے ہیں اور ہماری خوراک کا حصہ بن رہے ہیں۔

امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ اسے دیکھا، چکھا، سونگھا ، سنا نہیں جاسکتا اور اب نہ ہی انہیں روکا جاسکتا ہے۔ ہم نے اب تک پلاسٹک کو صاف کرنے کا کوئی منظم منصوبہ شروع نہیں کیا۔ اس طرح پلاسٹک کی آلودگی اس وقت تک سمندری جانوروں کے لیے بالخصوص اور دیگر جانداروں کے لیے بالعموم ایک خطرہ بن چکی ہے۔

دوسری جانب جسم میں اگر پلاسٹک کے ذرات شامل ہوجائیں تو اس کے انسانی جسم پر منفی اثرات کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں۔ پلاسٹک کے بعض ذرات نینو پیمانے تک چھوٹے ہیں یعنی ایک میٹر کے ایک اربویں حصے کےبرابر ہیں۔

دنیا بھر کے ماہرین نے کہا ہے کہ سیارے کو پلاسٹک کی آلودگی سےبچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب خود انسانوں پر اس کے منفی اثرات جاننے کی کوئی واضح تحقیق شروع نہیں ہوسکی لیکن ماہرین کی اکثریت نے کہا ہے کہ پلاسٹک کے مضر اثرات کا جائزہ اسی وقت شروع ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں