بُک شیلف

عظیم شخصیات اپنی زندگی میں ملکی یا عالمی سطح پر شہرت اور توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں


Basheer Wasiq/Ghulam Mohi Uddin December 13, 2019

صفرنامہ ناپرسان۔۔۔۔۔ عالی شان
مصنف: سعد اللہ جان برق



ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔۔۔۔ فون نمبر:8422518۔۔۔۔ قیمت درج نہیں

جناب سعد اللہ جان برق وطن عزیز کے ممتاز لکھاری ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا مگر بطور پیشہ دیگر فنون میں بھی قسمت آزمائی۔ کھیتی باڑی کی اور ہومیو پیتھی سیکھی۔ آخر کار لکھنے پڑھنے کو کل وقتی کام بنالیا۔ پشتو اور اردو کے علاوہ ہندی سے شناسائی رکھتے ہیں۔ شاعری، افسانہ، کالم اور طنز و مزاح پر کئی کتب شائع ہوچکیں۔ قارئین ایکسپریس ان کے طنزیہ و مزاحیہ کالموں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب ہمارے ممدوح کی تازہ تخلیق ہے۔ اس میں انہوں نے ایک تصوراتی سیاح، ابن بے طوطا کا روپ دھار کر ایک خیالی مملکت، ناپرسان کا سفرنامہ لکھا ہے۔ یہ خیالی مملکت پاک سرزمین ہی ہے جس کے مختلف سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل برق صاحب نے بڑے مزاحیہ انداز میں اجاگر کیے ہیں۔

ایک مسئلے کو طنزیہ طور پر بیان کرنا بڑا کٹھن فن ہے۔ یہ کام تجربے کار اور گرم و سرد چنیدہ لکھاری ہی انجام دے سکتے ہیں۔ سعداللہ جان برق کامیابی سے یہ مشکل منزل سر کرنے میں کامیاب رہے۔ منفرد اوردلچسپ افسانوی سفرنامے سے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔مملکت اللہ داد، ناپرسان کی راج دھانی، انعام آباد اکرام آباد خاص الخاص انتظامات کے تحت وجود میں آئی ہے۔

اس کی تعمیر میں سب سے زیادہ گدھوں کا حصہ تھا کیونکہ اس زمانے میں جدید تعمیراتی مشینیں نہیں تھیں اور یہ تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ کسی میں سوگن نہ ہوںتب بھی ایک گن اپنی ماں کا ضرور ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں کی مٹی میں بھی گوشت پوست کی اس مشینری کی خوبروہی بسی ہے۔ گویا اس کی تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خر۔۔۔ اس لیے یہاں سے سارے انعامات و اکرامات اسی ''خزانہ'' کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ نقد کو ''انعام'' اور عہدوں کو ''اکرام'' کہا جاتا ہے۔ ملک بھر سے ''چنے ہوئے'' یہاں جوق در جوق آتے ہیں اوہر حسب لیاقت انعامات اکرامات پاتے ہیں۔ (صفحہ 16)

انسان اور انسانی جمگھٹے، ملک، مذہب، عقیدے اور معاشرے کے لیے دوست اتنا ضروری نہیں جتنا دشمن ضروری ہوتا ہے۔ مملکت ناپرساں اور ناگماں، دونوں اسی درستی و دشمنی کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ کمال کی بات دشمن دوستانوی نے یہ لکھی ہے کہ تمام واقعات، حادثات، نظریات، انقلابات اور خرافات کے ساتھ تمام علوم و فنون فلسفہ، منطق اور نفسیات، سب سے ثابت ہوچکا کہ پوری دنیا میں صرف ایک ہی دشمنی ابتدا سے چلی آرہی ہے اور وہ ہے: اشرافیہ اور عوام کی صدیوں پرانی دشمنی۔ چناں چہ ہر ملک و قوم میں اشرافیہ صرف اپنی عوامیہ کی دشمن ہوتی ہے۔ لیکن دشمن ملک کی اشرافیہ کی دوست ہوتی ہے۔ دونوں اشرافی بظاہر دشمن دکھا کر اپنی اپنی عوامیہ کو لوٹنے کا بندوبست کیے رکھتی ہیں۔ دونوں اپنی دکھاوے کی دشمنی کا ''ہوا'' دکھا کر اپنی عوامیہ کو لوٹتی ہیں۔ (صفحہ 43)

اس منفرد تصوراتی سفرنامے کے ہر صفحے پر ابن بے طوطا اسی طرح قاری کے ضمیر کے کچو کے لیتا اور اسے بیدار کرنے کی سعی کرتا ہے۔ یہ سفرنامہ بظاہر طنزیہ و مزاحیہ ہے لیکن اس کے ذریعے برق صاحب نے اپنے بے شعور عوام کو شعور دینے کی سنجیدہ سعی کی ہے۔

وہ عوام پاکستان کو حقوق و فرائض سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی آگاہی و شعور پاکر اپنی پھوٹی قسمت تبدیل کرسکیں۔ ایک لکھاری کا اولیں فرض یہی ہے کہ وہ اپنی تحریر سے قارئین کے خیالات، جذبات اور احساسات میں مثبت تبدیلی لے آئے۔ طنز و مزاح سے بھرپور زیر تبصرہ کتاب لکھ کر گویا برق صاحب نے یہ حق ادا کردیا۔یہ کتاب نفیس کاغذ پر خوبصورت انداز میں طبع ہوئی ہے۔ سرورق کا اپنا حسن و دلکشی ہے۔ اس کتاب کو اپنی لائبریری کی زینت بنائیے۔ یہ حال کے علاوہ مستقبل میں بھی آپ کی سوچوں کے در ہمیشہ وا رکھے گی۔

مادر فطرت
مصنف: ایم سلیم، ناشر: ڈاکٹر عبدالکریم پوسٹ گریجویٹ ریسرچ لائبریری، الملک، سول لائنز، لیڈیز کلب روڈ، پاکپورہ، سیالکوٹ
قیمت: 4000 روپے



اردو میں سائنسی کتب کی بے اتنہا کمی ہے۔ اس باعث پاکستانی عوام سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت بھی کم شعور رکھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک میں ہر مسلمان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ علم حاصل کرے تاکہ دین و دنیا میں سرخرو ہوسکے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ جناب ایم سلیم نے سائنسی معلومات کو کتاب کا روپ دینے کی سعی و جستجو کی ہے۔

جناب ایم سلیم ایک استاد ہیں۔ سائنسی موضوعات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی زیر تبصرہ کتاب علم کونیات (کوسمولوجی) کے اسرار و روموز سموئے ہوئے ہے۔ اس علم میں کائنات کے بارے میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ایم سلیم صاحب نے اسی علم کے جدید ترین نظریات پر قلم اٹھایا ہے۔ بعض اہم موضوعات یہ ہیں: کیا کائنات انسان کی خاطر تخلیق کی گئی؟ روشنی اور خلا میں بنیادی فرق، مادہ، وقت اور ارتقا، کائنات کی عمر اور کہکشائوں کا ایک دوسرے سے دور ہٹنے کا نظریہ۔سائنسی موضوعات پر لکھتے ہوئے مصنف نے کئی فکر انگیز نکات اٹھائے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ قیمتی معلومات بھی قارئین کو فراہم کرتے ہیں۔

مثلاً وہ صفحہ 70 پر لکھتے ہیں ''آج کل انسان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرکے چولہے، گیزر، موٹر کار اور ہوائی جہاز تک چلا رہا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خود انسان کا جسم بھی شمسی توانائی کے ذریعے ہی کام کرتا ہے۔ بقیہ جان داروں حتیٰ کہ پھل، سبزیوں اور اناج میں بھی سورج کی توانائی کارفرما ہوتی ہے۔

سائنس کی خوبی یہ ہے کہ اس کا کوئی نظریہ حتمی نہیں ہوتا۔ اگر وہ تجربہ کی کسوٹی پر پورا نہ اترے، تو اسے رد کردیا جاتا ہے۔ سائنس کے نت نئے انکشافات کی وجہ سے ہی نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے بھی مختلف سائنسی نظریے پیش کیے ہیں۔ انہیں اپنے تجربے کی روشنی میں پرکھیے اور جاننے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔کتاب عمدہ کاغذ پر صفائی ستھرائی سے طبع ہوئی ہے۔ نشر رواں اور شستہ انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مطالعے سے وقت ضائع ہونے کا احساس قریب نہیں بھٹکتا۔ یہ کتاب ضرور خریدیے اور اپنے علم و معلومات میں گراں قدر اضافہ کیجئے۔

روحانی مراقبہ
مولف: صوفی شوکت رضا
قیمت: 200 روپے۔۔۔۔۔صفحات:128



روحانیت کی دنیا بہت وسیع ہے، مادیت کے مارے ہوئے جو لوگ روحانیت کو نہیں مانتے وہ بھی اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے، جیسے مغربی ممالک بظاہر ان دیکھی دنیائوں سے انکار کرتے ہیں مگر ان کی فلمیں اور ڈرامے اکثر انھی ماورائی مخلوقات اور پراسرار طاقتوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں، روحانیت کے اس عالم میں داخل ہونے کی پہلی سیڑھی مراقبہ ہے، یعنی استغراق سے ہم اپنے قلب و نظر کو اس قابل کرتے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر جو پردہ پڑا ہوا ہے اس کے پار دیکھ سکیں۔

ایک عجیب بات ہے کہ روحانی دنیا میں داخل ہونے والے کو مثبت اور منفی دونوں طرح کی طاقتوں سے پالا پڑتا ہے، حالانکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ روحانیت مثبت ہوتی ہے، اس حوالے سے صوفی شوکت رضا نے بڑی خوبصورت تشریح فرمائی ہے''لازم نہیں ہر مراقبہ کرنے والے کا گمان حق کی طرف ہی ہواور یہ بھی لازم نہیں کہ مراقبہ کرنے والا انسان کامل ہو جائے، کامل ہونے کے لیے کامل لوگوں کی خدمت درکار ہے،اور خدمت کرنے والے ہی انسانوں میں سے سب سے عظیم ہوتے ہیں''۔ راہ سلوک پر چلنے والوں کو اس راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ شیطان انھیں گمراہ کرتا ہے ایسے میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، صوفی صاحب کی کتاب اس سلسلے میں بہت اہم ہے انھوں نے بہت باریک نکات بیان کئے ہیں اور بڑے خوبصورت انداز میں تشریح فرمائی ہے، ہرخاص و عام کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

Straight Talk



انسانی تہذیب کے ارتقاء میں سب سے بنیادی کردار انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر تجربات اور ان سے حاصل شدہ نتائج کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی شعوری کوشش نے ادا کیا ہے۔ اقوام عالم میں مادی اور اخلاقی اعتبارات سے آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور بہتر سے بہتر مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کے ثمرات بھی قومی سطح پر اپنے تجربات کو سنجیدہ نقد و نظر کے مراحل سے گزار کر اگلی نسلوںکو منتقل کرنے کے مربوط نظام کی مرہون منت ہوتا ہے۔

مجھے یہ معلوم کرکے انتہائی حیرت ہوئی کہ آج سے ساڑھے تین سو برس قبل بھی برطانیہ میں ہر ڈاکٹر اپنے مریضوں کی علامات ان کے علاج اور علاج کے نتائج کی تفصیلات ایک رجسٹر میں درج کیا کرتے تھے۔ یہ رجسٹر آج بھی طبی تحقیق کے لیے میسر ہیں اور ان کی تفصیلات کو محفوظ بھی کیا گیا۔ یقینا سینکڑوں برس تک جاری رہنے والی اس سرگرمی نے طبی تحقیق و جستجو کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے کلیدی نوعیت کی مدد فراہم کی ہے۔

انسانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، زندگی کے تجربات مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔

اس طرح کسی شخصیت کو جس قدر اہم حیثیتوں میں زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے، جتنی اہم ذمہ داریوں اور چیلنجوں سے عہدہ برا ہونا پڑتا ہے اسی قدر اس کے تجربات اور تجزیئے اپنی اثر پذیری میں وسعت اختیار کرجاتے ہیں اور زندہ معاشروں میں ان تجربات اور ان کی روشنی میں اخذ کیے جانے والے تجزیے اور رہنمائی سے آشنا ہونے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب Straight Talk بھی ایسی ہی ایک تصنیف ہے جو اپنے اندر غیر معمولی دلچسپی اور رہنمائی کا سامان رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ذوالفقار احمد چیمہ سابق آئی جی پولیس ہیں۔

اپنی سرکاری نوکری کے دوران انہوں نے ویسی ہی نیک نامی کمائی جو قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں بیشتر سرکاری اہلکاروں کے حصے آیا کرتی تھی۔ہمارے ملک میں گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں سرکاری ملازموں کو ریاست کی وفاداری ترک کرکے حکمرانوں کی وفاداری کی جانب مائل کرنے کی کامیاب مہم چلائی گئی جس نے ہر سطح پر نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا لیکن ذوالفقار چیمہ کے بارے میں ہر طرف سے یہی گواہی ملتی ہے کہ وہ اصول کے حق میں کسی کو بھی انکار کردینے کی جرأت رکھتے ہیں۔

ہمارے ملک کی سیاست میں جو نیا رواج عام ہے وہ یہ ہے کہ حکمران چاہتے ہیں کہ سزا اورجزا کا تعلق کسی ادارے سے نہیں بلد ان کے گھر کی دہلیز سے وابستہ ہونا چاہیے اور وہ اس مقصد میں بڑی تک کامیاب بھی ہوگئے لیکن ذوالفقار چیمہ ان گنتی کے افسران میں شامل رہے۔ جنہوں نے نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر انتہائی دلیری کے ساتھ ہمیشہ اپنے ضمیر، قانون، آئین اور اصول کو فوقیت دی۔ اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے نوجوانوں کی رہنمائی اور کالم نگاری کے میدانوں کا رخ کیا اور یہاں بھی اپنی بے غرض دیانت اور حب الوطنی کی داد پائی۔

آج کل سینئر کالم نگار کے طور پر روزنامہ ایکسپریس کا حصہ ہیں۔ زیر نظر کتاب دراصل زیادہ تر ان کی اردو تحریروں کے انگریزی تراجم پر مشتمل ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے بتایا کہ بہت سے نوجوان، پاکستانی لڑکے، لڑکیوں نے ان سے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اردو نہیں پڑھ سکتے اس لیے ان کے کالموں اور گزشتہ کالموں پر مشتمل کتاب ''دوٹوک باتیں'' سے مستفید نہیں ہوپاتے۔ لہٰذا انگریزی زبان میں بھی ایک کتاب مفید ثابت ہوگی۔

اس بات کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور کسی قلم کار کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کراتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات الگ سے لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستان میں ایسے تعلیم یافتہ نوجوان بھی ہیں جو اپنی قومی زبان کو پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس کتاب میں شامل تحریریں متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں جن میں بالخصوص قانون کی حکمرانی، بدعنوانی، کرپشن، احتساب، جمہوری رویے، اداروں کا ٹکرائو، معیار حکمرانی، تعلیم اور پولیس اصلاحات سمیت دلچسپ ذاتی تجربات اور سیاحتی تاثرات شامل ہیں۔ عالمگیر شہرت کے حامل چینی فلسفی اور دانشور کنفیوشنس کا ایک قول ہے کہ ''جب یہ بات صاف ہوجائے کہ مقاصد کا حصول ممکن نہیں رہا تو مقاصد میں ردو بدل کے بجائے اپنی حکمت عملی اور طرز عمل میں تبدیلیاں کرو''۔

مصنف کی اپنی زندگی کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے اسی لیے انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں شاندار کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ اس مجلد کتاب کی پیش کش کا معیار شاندار ہے۔ جسے ماورا پبلشرز، 60 شاہراہ قائداعظم لاہور نے شائع کیا ہے۔ قیمت 700/- روپے ہے۔ (تبصرہ نگار: غلام محی الدین)

نوادرات فیض



عظیم شخصیات اپنی زندگی میں ملکی یا عالمی سطح پر شہرت اور توجہ کا مرکز بنے رہتی ہیں لیکن اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی شہرت اور ہر دلعزیزی کے ایک دوسرے دور کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ان شخصیات کے چلے جانے کے بعد ان سے تعلق رکھنے والی ہر شے تحریریں، خطوط، تصاویر اور ان سے منسلک واقعات اور شخصیات توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں اور ان سے محبت کرنے والے لوگ ان چیزوں سے ان کی شخصیت کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔

بلاشبہ فیض احمدفیضؔ کا شمار پاکستان کی ان شاندار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں اور بعدازاں انتقال کے بعد بھی ملکی اور عالمی سطح پر بے پناہ محبتیں سمیٹیں، شاعر، ادیب، صحافی اور ٹریڈ یونین رہنما فیض احمد فیض برصغیر کی تاریخ میں بائیں بازو کی تحریک کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہیں۔ادب کے شعبہ میں نوبل پرائز کیلئے نامزد ہوئے لینن امن پرائز حاصل کیا، دوسری عالمگیر جنگ میں نازی فاشٹ جارحیت کے خلاف برطانوی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں خدمات انجام دیں اور انہیں ایم بی ای میڈل عطا کیا گیا۔

1990ء میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز عطا کیا، زیر نظر کتاب ''نوادرات فیض'' فیض صاحب کے قلم سے نکلی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو ان کی زندگی میں تو توجہ کا مرکز نہ بن پائیں لیکن آج فیض کے چاہنے والوں کے لیے واقعی نوادرات سے کم نہیں۔ ان تحریروں کا تعلق فیض کے زمانہ طالب علمی سے لے کر وفات تک سے ہے۔ ان میں خطوط، اشعار، کتابوں کے پیش لفظ، کسی تخلیقی کام پر رائے زنی، شخصیات کے بارے میں تاثرات، کسی جریدے کے خاص نمبر پر پیغام، اجازت نامے، پیغامات سمیت بڑی تعداد میں تحریریں شامل ہیں۔

ان میں زیادہ تر تحریریں غیر مطبوعہ اور غیر مدّون تھیں جنہیں کتاب کے مرتب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ نے غیر معمولی محنت اور جدوجہد سے جمع کرکے قابل اشاعت بنایا۔ اس کتاب کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں فیض صاحب کی نادر تصاویر بھی جمع کی گئیں۔ اس کتاب کو کل پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں غیر مطبوعہ خطوط ہیں۔ اس حصے میں فیض صاحب کی جانب سے قائداعظم محمد علی جناح، محمد طفیل (مدیر نقوش) ایلس فیض، گلوکارہ فریدہ خانم، قتیل شفائی (شاعر) ڈاکٹر وحید قریشی، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، جیلانی بانو اور محسن بھوپالی سمیت اہم شخصیات کو لکھے گئے خطوط شامل ہیں۔

دوسرے حصے کو شعری باقیات کا نام دیا گیا ہے جس میں تین غزلیں، 22 نظمیں، 10 گیت اور متفرق کلام یعنی ایک دو اشعار شامل ہیں۔ تیسرا حصہ کتابوں کے دیباچوں، فلیپس اور آرا پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے کو کمیاب نگارشات کے نام سے شامل کیا گیا ہے جو پیغامات پر مشتمل ہے۔

اسی حصے میں کمیاب خطوط، دیباچوں اور نگارشات کے اصل عکس بھی شامل ہیں اور پانچواں حصہ تصاویر پر مشتمل ہے۔کتاب کا دیباچہ ممتاز شاعر اور ادیب افتخار عارف نے تحریر کیا ہے جس میں لکھتے ہیں ''نوادرات فیض'' مطالعات فیض کے ضمن میں ایسا بیش بہا اضافہ ہے جو تفہیم فیض کے ضمن میں نیا مواد فراہم کرتا ہے۔''

ڈاکٹر سلیچ کے اسلوب تحقیق سے آشنا قارئین بخوبی واقف ہوں گے کہ وہ مواد کی نری جمع آوری پر یقین نہیں رکھتے بلکہ حسن ترتیب و تدوین سے اس طور منظم کرتے ہیں کہ پڑھنے والا صحیح معنی میں اس سے مستفید ہوسکتا ہے۔

کتاب کی پیش کش کا انداز شاندار ہے جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل بینک اسٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ نے شائع کیا ہے۔ قیمت 1200/- روپے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں