مادرِوطن کے محافظوں کے درمیان
سول سروسز کی اپنی قیادت کو بھی اس کی اہمیت کا چنداں ادراک نہیں۔
ٹریننگ ، سول سروسز کا کمزور ترین پہلو ہے مگر زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس میں بہتری لانے کا ارادہ، نیّت اور جذبہ کہیں نظر نہیں آتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹریننگ حکمرانوں کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے، کیونکہ ان کی ترجیحات ان کی سیاسی ضروریات طے کرتی ہیں اور وہ روزانہ کی بُنیاد پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں،کہیں کوئی گھناونا جرم سرزد ہو جائے یا کہیں کوئی ایسا سانحہ ہو جائے۔
جس سے چینلوں کی اسکرینیں بھرجائیں تو وزیراعظم اور وزیرِاعلیٰ کی طرف سے بیانات جاری ہوجاتے ہیں ''پولیس اصلاحات کے لیے کا م شروع کیا جارہاہے'' دودن بعد جب چینل اس واقعے کو فراموش کر کے کوئی اور موضوع اٹھا لیتے ہیں تو حکمران بھی اصلاحات کے مسئلے کو فراموش کر دیتے ہیں۔مگر سول سروسز کی اپنی قیادت کو بھی اس کی اہمیت کا چنداں ادراک نہیں ۔بار بار جھنجھوڑنے کے باوجود ٹریننگ ان کی اوّلین ترجیحات میں شامل نہیںہو سکا۔پہلے ٹریننگ کے بارے کچھ صاحبانِ دانش اور کا میاب جرنیلوں کی باتیں سن لیں جو ان کے تجربے کا نچوڑ ہیں۔
1."The more you sweat in training,
the less you bleed in combat
(سخت ٹریننگ میں تمہارا جتنا زیادہ پسینہ نکلے گا، جنگ میں تمہارا اتنا ہی کم خون بہے گا)
2."The pain of training is nothing like the embarrassment of poor performance".
(تربیت کی تکلیف ،ناقص کار کردگی کی شرمندگی سے بہتر ہے)
3."It is only through training and strife that individuals and Nation move on to greatness"
(افراد اور قومیں سخت مشقت اور تربیت سے ہی عظمت کے زینے طے کرتی ہیں)
5."A man can seldom fight a winning fight against his training".
(کوئی شخص تربیت کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا)
5."Suffer now through training and live the rest of your life as a champion".
(اِسوقت ٹریننگ کی مشقت برداشت کرنے والا آنے والی ساری زندگی ایک کامیاب انسان کی طرح گزار تا ہے۔)
بلاشبہ اداروں کے معیار میں اگر کوئی چیزفرق ڈالتی ہے تووہ تربیت ہے۔ جسے ہماری سیاسی قیادت اور بیوروکریسی سب سے کم اہمیت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سول سروسز (بشمول پولیس سروس ) کے تربیتی ادارے غیر معیاری افسروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کسی سے حکومت ناراض ہوگئی تو اسے وہاں کھپا دیا گیا، کسی سے آئی جی ناراض ہو گیا تو اُسے تربیتی ادارے میں پھینک دیا گیا، کسی کو کوئی اور پوسٹنگ نہیں مل رہی تو اُس سے تربیتی ادارے کی خالی اسامی پُر کردی گئی، کوئی ایسااعلیٰ معیار کا باصلاحیّت افسر، جس نے فیلڈ میں اپنی صلاحیتّوں کا لوہا منوایا ہو اور ضلعے یا ڈویژن میں نظر آنے والی بہتری لایا ہو پولیس یا دیگر سول سروسز کے تربیتّی ادارں میں نظرنہیں آتا۔
ا س کے برعکس فوج کی تربیت کا معیار بہت ارفع اور بلند ہے ، ٹریننگ کے مراحل سے گذرنے کے بعد ایک زیرِ تربیت فوجی افسر بالکل تبدیل ہو جاتاہے، جب کہ سول اداروں کی ٹریننگ زیرِ تربیت افسروں کا کچھ نہیں بگاڑتی اور وہ ان اداروں میں کئی مہینے گزارنے کے بعد بھی' جیسے تھے' کی تصویر بنکر نکلتے ہیں۔
سول اداروں کے بر عکس ملٹری فورسز کی ترجیحِ اوّل ٹریننگ ہے۔ ٹریننگ فوج کا پرائڈ pride)) سمجھی جاتی ہے۔ لہذافوج کے تربیتی اداروں میں بہترین اور منتخب شدہ افسروں کو تعینا ت کیا جاتاہے، سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی افسرپاکستان ملٹری اکیڈیمی کا کول میں یا کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں تعینات ہوتا ہے تو یہ اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ وہ ایک Outstandingاور کیریئر افسر ہے اور اس کے ترّقی کے زینے طے کرنے اور جنرل بننے کے روشن امکانات موجود ہیں ۔
دنیاکے کسی بھی جدید تربیتی ادارے کی طرح پاک فوج کے تربیتی ادارے اپنے تربیتی نصاب کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور اعلیٰ معیار برقرار رکھنے اوربدلتی ہوئی ضروریات اور عصرِ حاضر کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس پر نظر ثانی بھی کرتے رہتے ہیں۔
حالیہ سالوں میں نوجوان اور جواں سال افسروں کو قیامِ پاکستان کے مقاصد اور فکرِ اقبالؒ سے روشناس کرانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ایک بارپھر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سول سروسز کے تربیتی اداروں میں ان بنیادی اہمیت کے حامل موضوعات پر بھی کوئی توجّہ نہیں دی جاتی۔ نتیجتاً بہت سے سینئر افسر افلاسِ تخیّل اور ژولیدہ فکری کا شکار رہتے ہیں، کچھ ایسے احسان فراموش بھی ہیں (کہ صرف پاکستان کے طفیل اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ وہ کسی ہندو سیٹھ کے کلرک ہوتے)جو نجی محفلوں بلکہ سرکاری دفتروں میں بیٹھ کراپنی کم علمی کی بناء پر پاکستان کے قیام پر اعتراض کرتے اور جعلی فلسفے جھاڑتے رہتے ہیں۔
نومبر کا مہینہ مفکر پاکستان اور حکیم الامّت حضرتِ اقبالؒ کا مہینہ ہے، اس حوالے سے خاصی مصروفیّت رہی۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں ''پیغامِ اقبال'' پر لیکچر کے لیے جانا پڑا۔ پھرانٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی اسی نوعیّت کے سیمینار میں شرکت کی اور اس کے بعد پاک آرمی کے تین بہترین تربیتی اداروں سے لیکچر ز کے لیے دعوت نامے آگئے۔
سب سے پہلے پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول (ایبٹ آباد) کا دورہ ہوا۔ خیال تھا کہ ایبٹ آباد تک پہنچنے میں تین سے چار گھنٹے لگ جائیں گے مگر نئی موٹروے پر سفر انتہائی خوشگوار اور پر لطف رہا اور ہم اسلام آباد سے دوگھنٹے سے بھی کم وقت میں ایبٹ آباد پہنچ گئے۔
رات گئے بھی ہمیں ریسیو کرنے کے لیے آرمی کے چاک و چوبند افسران موجودتھے۔ چائے پر ہلکی سی گپ شپ کے بعد کرنل صاحبان سے اجازت لے کر ہم اپنی آرام گاہ میں چلے گئے۔علی الصبح نماز کے بعد کاکول کے پر فضاء مقام اور دلفریب ماحول میں سیرکی اور پائن کی ٹہنیوں اور چنار کے پتوں سے ٹکراتی ہوئی بادِنسیم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ناشتے کے بعد تیار ہو ئے تو کنڈکٹنگ آفیسر پہنچ گئے، جوہمیں کمانڈنٹ آفس لے گئے جہاں میجر جنرل اختر نواز ستی نے ریسیو کیا۔ جنرل ستی ایک پڑھے لکھے، قابل اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افسر ہیں۔ میں نے انھیں اپنی کتاب دی تو کہنے لگے کہ وہ پہلے ہی میری کتاب پڑھ چکے ہیں۔
تھوڑی سی گپ شپ کے بعد ہم جنرل صاحب کے ہمراہ آڈیٹوریم میں پہنچے جہاں چار سو سے زائد زیرِ تربیت افسران انتہائی ڈسپلن کے ساتھ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔انھی میں سے ایک نوجوان افسر نے تلاوت کی ، پھر ایک افسر نے میرا تعارف کرانے کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی۔
چونکہ پی ایم اے اور فوج کے دوسرے اداروں میں ابلاغ کی زبان انگریزی ہے اس لیے لیکچر کا زیادہ حصّہ انگریزی میں ہی تھا ، مگر حضرتِ اقبالؒ کے چند خاص اشعار کا انگریزی میں ترجمہ کر کے مزہ کرکرا کرنے کے بجائے ان کی آسان اردومیں تشریح کی گئی۔ایک گھنٹے کے لیکچر کے بعد بیس منٹ تک سوال و جواب کی نشست رہی۔ آخر میں روایت کے مطابق کمانڈنٹ نے لیکچر کے بارے میں کچھ تو صیفی کلمات کہے، مہمان مقرر کا شکریہ ادا کیا اور نشست برخاست ہوگئی۔
پی ایم اے کا رائونڈ لگاتے ہوئے میزبان بتاتے رہے کہ پاکستان ملٹری اکیڈیمی اکتوبر 1947میں قائم ہوئی تھی۔ اس کی ابتدائی بٹالینز کا نام اسلامی تاریخ کے نامور جرنیلوں اور سالاروں کے نام پر رکھا گیا ۔ خالد ، طارق ، قاسم اور صلاح الدین بٹالین ، پاکستان کی سب سے پہلی ملٹری اکیڈیمی کے افتتاح کے لیے بانیء پاکستان حٖضرت قائداعظمؒ خود آنے کے متمنّی تھے مگر ان کی گرتی ہوئی صحت کے سبب ڈاکٹروں نے روک لیا۔ لہٰذا ان کی جانب سے خواجہ ناظم الدین نے افتتاح کیا اور اکیڈیمی کو قائداعظم پرچم دیا۔ قائد کے نام سے موسوم اس پرچم کو اس ادارے میں اسقدر عزت اور تقدیس حاصل ہے کہ ہر پاسنگ آئوٹ پر چیمیئن کمپنی یہ پر چم اٹھاکر پریڈ کی قیادت کرتی ہے۔
1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈیمی کو وسعت دی گئی اور دوسری پاکستا ن بٹالین قائم کی گئی جس میں غزنوی، بابر، اور نگ زیب اور ٹیپو کے نام سے چار مزید کمپنیاں شامل ہوئیں۔1989میں تیسری پاکستان بٹالین قائم کی گئی اور اس میں چار مزید کمپنیوں کا اضافہ کیا گیا جن کے نام اسلامی تاریخ کی اُن عظیم ہستیوں کے نام پر رکھے گئے کہ شجاعت اور بہادری میں جن کا کوئی ثانی نہیں ۔ ان کے نام حضرت حیدرؓکراّر، حضرت حمزہؓ ، حضرت ابوعبیدہؓ بن جراّح اور سعدبن ابی وقاص ؓ کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔
تربیت کے دوران جہاں نئے کیڈٹوں کی جسمانی مشقت اور فٹنس پر بہت زور دیا جاتاہے وہاںان کی ذہنی نشورنما کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا جاتاہے۔ اور انھیں عصرِ حاضر کے اہم علوم و فنون سے بھی روشناس کرایا جاتاہے۔ پی ایم اے کی شاندار لائبریری میں ہر موضوع پر ہزاروں معیار ی کتابیں اور دنیا بھر میں چھپنے والے رسالے دستیاب ہوتے ہیں۔
جن سے کیڈٹس ہر روز استفادہ کرتے اور اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں ، ہمارے اپنے مشاہدے کی بات ہے کہ دیہاتی پس منظر کے لڑکے آرمی میں سیلیکٹ ہو جاتے ہیں اور جب پی ایم اے میں دوسال گزار کر نکلتے ہیں تو ان کی چال ڈھال ، خود اعتمادی اور گفتگو کا معیار بالکل بدل چکا ہوتا ہے اور پھر انھیں ملکر محسوس ہی نہیں ہو تاکہ یہ وہی شرمیلا،سہما سہما سا نوجوان ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے فوجی افسران جب پی ایم اے کا دورہ کرتے ہیں تو یہاں کی ٹریننگ اور اس کا اعلیٰ معیار دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں کہ پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ اہلیّت کے پیچھے پی ایم اے کی انتہائی معیاری ٹریننگ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
بلاشبہ پاکستان ملٹری اکیڈیمی کا کول اور کمانڈاینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ پاکستان کے وہ قابلِ فخر ادارے ہیں جنھیں دنیا کے چند بہتر ین تربیتی اداروں میںشامل کیا جاتاہے۔
(جاری ہے)