حکومت سائنسدان پیدا کرے دوسرا اور آخری حصہ
پاپولر سائنس پر بہت کم یعنی نا ہونے کے برابر میگزین پاکستان میں چھپ رہے ہیں۔
یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ بڑے ، بڑے ادارے شوبزکے پروگرام اسپانسرکرتے ہیں مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں وہ پاکستانی جو بیرونی ممالک میں رہتے ہیں وہ بھی اپنا رول ادا کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اداروں کی مالی مدد کریں یا پھر اس سیکٹر میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے باہرکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور ریسرچ کرنے کے لیے اسکالرشپ کا بندوبست کریں۔
اس کے علاوہ پاکستان سے نکلنے والے اور بند کیے گئے سائنس میگزین اور ڈائجسٹ کی مالی مدد کریں تاکہ وہ اپنا کام کرتے رہیں یا پھر بند ڈائجسٹ دوبارہ مارکیٹ میں لائیں جس سے پڑھنے والوں کو بنیادی سائنس کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی رہیں۔ رضی صاحب اپنے نکالے ہوئے 119 شماروں کو نیٹ پر رکھنے کے لیے ایک ویب سائٹ کو لانچ کرنے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی سائنس اور ٹیکنالوجی سے محبت کرنے والا ان کے سائنس ڈائجسٹ کو دوبارہ شایع کرنے کے لیے آگے بڑھے۔
انھیں ایک بات کا بڑا افسوس ہے کہ وہ اپنی زندگی میں چاہتے ہوئے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر عبدالسلام کے انٹرویوز اپنے سائنس ڈائجسٹ کے لیے نہیں کر پائے۔ کراچی میں ایک سائنٹیفک سوسائٹی تھی جو پاکستان لیول پر کام کر رہی تھی جسے میجر (ریٹائرڈ ) آفتاب حسن چلایا کرتے تھے جو 1954ء میں قائم ہوئی تھی۔
جس کے پاکستان کے تمام ممتاز سائنس دان ممبر تھے۔ دوسری کا نام تھا پاکستان ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس اور تیسری کا نام پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنٹفک پروفیشن کراچی جسے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے بنایا تھا جو اب بھی گلشن اقبال میں قائم ہے جس میں مہینے کے آخری ہفتے کو ایک پروگرام ہوتا ہے۔ جہاں پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر مقالے پڑھے جاتے ہیں۔
پاپولر سائنس پر بہت کم یعنی نا ہونے کے برابر میگزین پاکستان میں چھپ رہے ہیں۔ اس لیے جو لوگ سائنس سے محبت اور جذبہ رکھتے ہیں وہ آگے آئیں اور نئے میگزین یا پھر ڈائجسٹ نکالیں ان کے ایک شاگرد علیم احمد نے ایک گلوبل سائنس میگزین نکالا تھا جو 2016ء میں بند ہو گیا جب کہ سائنس ڈائجسٹ کی مقبولیت یہ تھی کہ اس کی سرکولیشن 5ہزار تک پہنچ گئی تھی اور اس وقت نیوز پرنٹ ایک ٹن کی قیمت 6500 روپے تھی جو اس وقت 7500 سے اوپر تک پہنچ گئی ہے اور یہ قیمت 2001ء سال کی تھی۔ وہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے کیونکہ وہ ادب کی دنیا کی بھی بڑی نالج رکھتے تھے۔ خاص طور پر بین الاقوامی ادب اور وہ کہتے تھے کہ وہی سائنسدان اچھا ہے جسے ادب اور شاعری سے لگائو ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس، شاعری اور مصوری میں ایک مشترکہ بات حسن ہے۔
سائنس کی اہمیت یہ ہے کہ آپ اپنے سارے مسائل اس کے ذریعے حل کر سکتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب 2005ء میں امریکا کے شہرnew orleans میں ایک بڑا سمندری طوفان آیا جس میں شہر کا 80 فیصد حصہ تباہ ہو گیا تھا لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک 20 انچ موٹی اور 40 انچ چوڑی اسٹیل کی سمندر کے ساحل پر دیوار بنائی گئی ہے جس کی وجہ سے اب سمندر کی اونچی لہریں شہر کو نقصان نہیں دے سکیں گی۔
پاکستان میں پانی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے جس کو سلجھانے کے لیے سائنس کے ذریعے برف کے تودوں کو (glaciers) ایک کنٹرول سسٹم سے چلایا جائے تو ہم پانی بچا بھی سکتے ہیں اور وہ ضایع بھی نہیں ہو گا اور اسے اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ کئی ممالک میں سمندر کے کھارے پانی کو سائنس کے ذریعے پینے کے لائق بنایا جا رہا ہے جہاں پر پانی کی کوئی قلت نہیں ہوتی اور اس سے زرعی زمین کو بھی پانی دیا جاتا ہے ، مگر کیا کریں جن کے پاس اقتدار ہے وہ صرف اپنی سیاست کو چمکانے اور پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب تو کئی سال سے سیاستدان اپنا وقت ایک دوسرے کی لڑائی میں ہی برباد کر دیتے ہیں اور پھر ایوان اقتدار میں وہ آتے ہیں جو سردار، چوہدری، زمیندار اور میر ہوتے ہیں جنھیں ان چیزوں سے کوئی لگائو نہیں ہے۔
رضی الدین خان اپنی زندگی میں صدر محمد ایوب خان سے متاثر تھے کیونکہ انھوں نے پاکستان میں انڈسٹریز لگائیں حالانکہ وہ فوجی ڈکٹیٹر تھے اور بھٹو صاحب سے ان کی یہ خواہش ہے کہ ٹی وی چینلز اور اخبارات ریڈیو پاکستان اور ریڈیو ایف ایم روزانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے پروگرام پیش کرتے رہیں اور حکومت سائنس دانوں کی ہمت افزائی کے لیے ضرورت کا سامان اور پیسہ دے اور سالانہ بجٹ میں کم از کم ایک فیصد کا حصہ رکھنے کا اعلان کرے۔ اس کے علاوہ سائنس کے میگزین اور ڈائجسٹ کے اجرا میں مالکان کی مدد کریں۔
رضی الدین 2 اپریل 1946ء میں جے پور کے ایک شہر میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے کے بعد 1951ء میں ان کے والد چوہدری امام الدین کراچی چلے آئے۔ رضی نے اپنی پرائمری تعلیم انصار المہاجرین اسکول سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول ڈرگ کالونی جسے اب شاہ فیصل کالونی کہتے ہیں ، وہاں سے پاس (1962ء) کیا ۔ اس کے بعد انھوں نے بی ایس سی ڈی جے سائنس کالج سے 1968ء میں پاس کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم میں 1970ء میں کیا۔
جیسا کہ وہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ، اس لیے انھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ 1963ء میں پی ڈبلیو ڈی میں اور اس کے بعد 1968ء میں پوسٹ آفس میں جاب کرتے رہے۔ وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے اور انھوں نے 10سال کی عمر سے ہی ایک اردو اخبار میں مضامین لکھنا شروع کیے جنھیں بہت پسندکیا جاتا تھا اور اخبار والے اور مضمون پڑھنے والے سمجھتے تھے کہ وہ تحریرکسی بڑے تجربہ کار آدمی کی ہے۔ جب وہ نویں اور دسویں جماعت میں آئے تو ان کے مضامین ایڈیٹوریل صفحہ پر چھپنے لگے جس کی وجہ سے انھیں اخبار میں کام بڑی آسانی سے مل گیا۔ انھیں شاعری سے گہرا لگائو ہے خود بھی شعر کہے ہیں ۔ مگر وہ اپنا شعری مجموعہ نہیں چھپواتے کیونکہ وہ بطور شاعر پر مقبولیت نہیں چاہتے۔
رضی نے 1982ء میں شادی کی اور ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو اپنے اپنے گھروں میں خوش وآباد ہیں۔ وہ ترجمہ کرنے کے بڑے ماہر ہیں اور ان کی تحریر اور ہینڈ رائٹنگ بڑی صاف اور خوبصورت ہے۔ ان کی یادداشت بھی بڑی مضبوط ہے، انھیں الفاظ کے مخفف بہت یاد ہیں اور انگریزی اور اردو میں اچھی مہارت رکھتے ہیں وہ طبعتاً بڑے ملنسار ، ہمدرد اور کام آنے والے انسان ہیں جس کی وجہ سے نوجوان ان کے پاس سیکھنے کے لیے آتے رہتے ہیں اور وہ انھیں سکھا کر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے انمول اور ذہین لوگوں کے ٹیلنٹ سے فائدہ حاصل کریں۔