مہنگائی کا حل کیا ہے

اب نوبت ایں جا رسید کہ نان جویں کا بندوبست ہی کرنا مشکل سے مشکل بنتا جا رہا ہے۔


خرم علی راؤ December 11, 2019

نوکیلے کٹیلے چھبتے ہوئے الفاظ ، طعن و تشنیع سے بھری باتیں، کسی کو مطعون کرنا ،کسی پر تنقید کرنا، کیڑے نکالنا اور نکالتے چلے جانا ، کسی انفرادی یا اجتماعی کمزوری، کوتاہی ، غلطی کو جا و بیجا نمایاں کرنا اور سینہ پھلا کر کسی کو بھی تحریرا، تقریرا اور کسی بھی سطح اور فورم پرگندہ کرنا ، یہ سب بڑے آسان کام ہیں کیونکہ یہاں جیسے ہر ہر شعبہ زندگی میں زوال کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور دو نمبری کا راج ہے اور یہاں جو بھی ہے اپنے تئیں باون گز سے کم کا نہیں ہے ویسے ہی ہم تنقید کرنے میں بھی دو نمبری سے ہوگئے ہیں اور تصدیق و تحقیق کی محنت کرنے کی بجائے سنی سنائی سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ مسائل کی معتبر نشاندہی کرنے کی آڑ میں ناروا بھڑاس نکالتے ہیں اور ذاتی پسند وناپسند کو ترجیح دینے کے شوقین ہیں۔ اب ہیں تو ہیں بھائی کیا کیا جاسکتا ہے؟ چلنے دو ایسے ہی !

نہیں ایسے نہیں چلنا چاہیے اور کِیا یہ جاسکتا ہے کہ ہم تنقید کریں اور مسائل کی نشان دہی بھی کریں اور ضرورکریں کہ یہ خود کو انسان سجھنے والوں کے نزدیک ان کے بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے، لیکن کوئی حل بھی تو بتائیں،کوئی راستہ بھی تو دکھائیں، کوئی تو روزن کوئی دریچہ تو وا کرنے کی کم از کم کوشش توکریں پھر تو بات ہے۔

اب بعض حضرات اور خاص طور سے شعبہ صحافت سے وابستہ معتبر افراد کے ایک اکثریتی گروہ اور اسکول آف تھاٹ کی دلیل یہ ہوتی ہے اور اس میں وزن بھی ہے کہ جی ! یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ مسائل کا حل بھی بتائیں، یہ تو ماہرین ، دانشوروں اور مفکروں کے کام ہوتے ہیں۔ ہمارا کام تو بس نشاندہی کرنا اور خبردار کرنے کا ہے۔ لیکن اسی شعبے کے دوسرے گروہ کا خیال اور نکتہ نظر یہ ہے کہ بے شک مختلف معاملات میں خرابیوں اور مسائل کی نشان دہی کرنا ہی ایک صحافی کا بنیادی کام اور فریضہ ہے لیکن اگر وہ کوئی حل بتا سکے کوئی راستہ دکھا سکے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں سوائے ذرا سی اضافی محنت کے۔

ذاتی طور پر راقم بھی اسی دوسرے خیال کا حامل ہے اور اسی لیے اس معتبر شعبے کے ایک بڑے محترم استاد صحافت اطہر عباس مرحوم جو کہ اس خیال کے حامی تھے کہ کسی مسئلے کے حل کو اس شعر کی مطابقت کے ساتھ پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں ،کی تلقین کے موافق یہ ایک خیال پیش کرنے کی جسارت اور حقیر سی سعی ہے اور فی زمانہ جس طرح آج کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہوگئی یا کردی گئی ہے ، اس سے نپٹنے کی ایک تجویز ذہن میں آئی ہے کہ شاید کسی کے دل میں اترجائے مری بات۔

آج کل لوگ سب سے زیادہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں اور اب نوبت ایں جا رسید کہ نان جویں کا بندوبست ہی کرنا مشکل سے مشکل بنتا جا رہا ہے۔ یہ مہنگائی جو حقیقی سے زیادہ مصنوعی ہے یعنی منافع خور طبقے کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی سے تخلیق کی گئی ہے۔

اس مہنگائی کے خارجی عوامل جو ہیں وہ تو سو ہیں مثلا ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت ، درآمدات و برآمدات کا خسارہ ، آمدنی اور اخراجات کا بڑھتا ہوا فرق ، بین الاقوامی معاشی وسیاسی حالات اور دیگر اونچی سطح کے معاشی مسائل اور معمے وغیرہ، لیکن ایک بڑی وجہ جس سے یہ مصنوعی مہنگائی متوسط اور نچلے متوسط طبقے کو بہت زیادہ محسوس ہورہی ہے وہ ہے قیمتوں پر کنٹرول کا نہ ہونا ، خاص طور پر روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں ہفتہ وار حساب سے بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور آٹا ، دال سبزی وغیرہ جیسی چیزیں سرکاری کی بجائے من چاہے نرخوں پر فروخت کی جارہی ہیں۔

اس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں جو اخبارات میں آتی رہتی ہیں اور قیمتوں پر کنٹرول کا سرکاری نظام کرپشن اور بے عملی میں لتھڑ کر فعال کردار ادا نہیں کر پا رہا ہے اور وہ روایتی گھسے پٹے طریقوں یعنی کبھی کبھارگراں فروشی پر تھوڑے بہت جرمانے عائد کرنے کا طریقہ ، یوٹیلیٹی اسٹورز یا بچت بازار وغیرہ سے مسئلہ حل نہیں ہو رہا تو ایک حل جو سمجھ میں آتا ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کرکے یا آرڈیننس کے ذریعے سے سارے ملک میں عوامی سطح پرمعمولی انتظامی اختیارات دے کر رضاکارانہ عوامی مہنگائی کمیٹیاں بنائی جائیں۔

جیسے کہ زکوۃ کی تقسیم کے لیے زکوۃ کمیٹیاں بنائی گئی تھیں اور اب بھی ہیں بالکل اسی طرح کے نمونے پر یہ کمیٹیاں محلے اور علاقے کی سطح پر تشکیل دی جائیں۔ ان میں بنیادی کردار عوام کا ہو۔ پڑھے لکھے ریٹائرڈ سول اداروں اور افواج سے وابستہ افراد جوکہ ہر علاقے ، محلے اور قصبوں میں ہوتے ہیں انھیں تیارکیا جائے اور وہ رضاکارانہ کام کریں اور ان افراد کی کیمیٹوں کو علاقے کے ایم پی اے یا ٹائون چیئرمین یا ڈپٹی کمشنر سے منسلک کیا جائے اور اس کمیٹی کا کام اپنے اپنے علاقے کی سطح گراں فروشی پر نظر رکھنا اورلوگوں کو من مانے نرخوں پر روزمرہ کی اشیا فروخت کرنے سے روکنا ہو۔

یہ کمیٹیاں محلے کی سطح پر ہوں اور پھرکئی محلوں کی کمیٹیاں ایک علاقائی کمیٹی کے تحت ہوں اور علاقائی کمیٹیاں ایک مرکزی یا شہری کمیٹی کے تحت کام کریں اور یہ سارا بندوبست اور نظام رضاکارانہ بنیاد پر استوار ہو۔ بہت سے معتبر پڑھے لکھے اورکار آمد بڑی عمرکے افراد یقینا اس قومی اور عوامی خدمت کے لیے رضاکارانہ طور پر تیار ہوجائیں گے اور اس طرح وہ بھی خود کو ریٹائرمنٹ کے بعد تھوڑے بہت انتظامی اختیارات کے ساتھ معاشرے کا ایک فعال کارکن سمجھیں گے اور معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ جس نے ایک زندگی گزر لی ہوتی ہے اور وہ معاملات کے لحاظ سے تجربہ کار بھی ہوتے ہیں۔

وہ سوسائٹی میں مثبت انداز میں فعال ہونا یقینا چاہیں گے اور ضرور اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرنے میں دلچسپی لیں گے اور حکومت کو اس نظام کو ترتیب دینے اور چلانے میں زیادہ اخراجات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں میڈیا کو بھی بطور ایک کارآمد ٹول کے استعمال کیا جاسکتا ہے اور مہنگائی کے حوالے سے قائم کردہ ان کمیٹیوں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی رابطہ کرنے اور اپنے اپنے علاقوں میں مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرنے میں مدد کے لیے استعمال کرنے کی ترتیب بنائی جا سکتی ہے۔ پھر ائمہ حضرات سے گزارش کی جاسکتی ہے کہ مساجد میں اپنے خطبات وبیانات میں دیگر دینی معاملات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری ، ذخیرہ اندوزی اور مہنگا بیچنے کی وعیدیں ذرا تسلسل سے نمازیوں کے گوش گزارکریں۔

یہ ایک بے ترتیب سا اور اجمالی خاکہ ہے مہنگائی کے خلاف لڑنے کا۔ اسے صاحبان اختیار اگر قابل غور سمجھیں تو مشاورت اور غوروفکر سے مزید ترتیب دے کر بہتر شکل میں اس کے خد و خال طے کر سکتے ہیں۔ کئی ممالک میں اس سے ملتے جلتے سیٹ اپ قائم ہیں جو سوشل سروسزکے عنوان سے ایسے کام کرتے ہیں ، وہاں سے بھی رہنمائی مل سکتی ہے۔ پھر اس سارے نظام کو بنانے اور اس ترتیب و ترکیب کو عمل میں لانے سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے کا ایک وہ بڑا اور بزرگ طبقہ جو خود کو ریٹائرڈ سمجھ کر بیکار اور غیر فعال سمجھنے لگتے ہیں انھیں نوجوانوں کی معاونت سے خود کو فعال کرنے کا بہترین موقع ملے گا اوریقینا ایک مثبت ہلچل سامنے آئے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں