روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی محض مفروضہ ہے آنگ سان سوچی کا عالمی عدالت میں بیان

روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر گیمبیا نےعالمی عدالت انصاف میں میانمار کیخلاف تحقیقات کرنے کی درخواست دائر کی تھی

رخائن میں ہونے والے فسادات ہمارا اندرونی معاملہ ہے، فوٹو : فائل

نوبیل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی نے حیران کن طور پر عالمی عدالت انصاف میں میانمار کی سربراہ کی حیثیت سے اپنے ملک میں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا دفاع کیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک چھوٹے افریقی ملک گیمبیا کی جانب سے 11 نومبر کو عالمی عدالت انصاف میں میانمار کیخلاف روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین کی عصمت دری پر تحقیقات کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ آج دوسری سماعت کے موقع پر میانمار کی سربراہ آنگ سانگ سوچی پیش ہوئیں۔

حیران کن طور پر امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی نے اپنے ملک کے فوجی جنرلز اور شدت پسند بدھوں کی حمایت کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی، بچوں کے قتل، خواتین کی عصمت دری اور املاک کو نذر آتش کرنے کے سفاکانہ اور غیرانسانی عمل کا دفاع کیا۔

آنگ سانگ سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں روہنگیا نسل کشی کو مفروضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2017 میں ہونے والے فسادات ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ کیا ایسے ملک میں نسل کشی کا تصور کیا جا سکتا ہے جہاں غیر قانونی عمل پر فوج کے آفیسرز اور اہلکاروں سے نہ صرف تفتیش کی جاتی ہے بلکہ انہیں کڑی سزائیں بھی دی گئیں۔

میانمار کی سربراہ نے مزید کہا کہ رخائن کا معاملہ پیچیدہ ہے جہاں روہنگیا اقلیت کو کچھ مشکلات کا سامنا بھی ہے انہیں 2017 میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں لاکھوں افراد کے بنگلا دیش میں پناہ لینے کا علم ہے اور ان کی حالت زار پر افسوس بھی ہے۔


آنگ سانگ سوچی نے کہا کہ رخائن میں بدامنی اور دہشت گردی میں ملوث اراکان روہنگیا سلویشن آرمی کیخلاف کارروائی کی گئی ہے۔ یہ لوگ حکومت کو متعدد وارداتوں میں مطلوب تھے۔ تاہم اپنی گفتگو میں آنگ سانگ سوچی نے اقوام متحدہ کی غیر جانبدار رپورٹ کا تذکرہ نہیں جس میں نسل کشی کے شواہد پیش کیے گئے تھے۔

پہلی سماعت میں گیمبیا کے وکیل اینڈریو لووینسٹین نے اقوام متحدہ کی رپورٹ پیش کی جس میں ایک گاؤں 'من گئی' میں 100 بچوں سمیت 750 افراد کو قتل کرنے کے شواہد پیش کیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں ایک خاتون کا بیان پیش کیا گیا جسے فوجی اہلکار نے نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ 20 دن کے بچے کو فرش پر پٹخ کر قتل کردیا تھا۔

واضح رہے کہ 2017 میں فوج اور بدھ انتہا پسندوں نے روہنگیا مسلمان مرد اور بچوں کو قتل کیا، املاک کو جلادیا اور خواتین کیساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی۔ اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے اس عمل کو نسل کشی قرار دیا تھا اور عالمی دباؤ کے پیش نظر میانمار کی حکومت اپنے چند فوجی افسران پر مقدمات چلانے پر مجبور ہوئی تھی۔

 

 

 
Load Next Story