پھر وہی کشمیر
ایک اور تبدیلی جو میں نے اسلام آباد کے حوالے سے محسوس کی ہے کہ اس نے شملہ معاہدہ کا ذکر کرنا ہی ترک کر دیا ہے۔
مجھے پتہ نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف ہر دو تین ماہ کے بعد آخر کشمیر کا مسئلہ کیوں چھیڑ دیتے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ سوال اٹھایا اور پھر نیو یارک میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات میں دوبارہ اس کا ذکر کیا۔ اور اب انھوں نے امریکی صدر اوباما کے ساتھ بات چیت میں بھی یہی بات کی غالباً اس حوالے سے امریکا کی طرف سے ثالثی کرانے کا تقاضا بھی کیا۔
امریکا نے اپنے سابقہ موقف کا اعادہ کیا کہ اس کے خیال میں کشمیر دونوں ملکوں کا باہمی مسئلہ ہے جسے ان دونوں کو ہی حل کرنا چاہیے۔ یہی وہ بات ہے جو بھارت بھی کہہ رہا ہے لیکن پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات میں مسئلہ کشمیر کو بنیادی حیثیت دے کر کسی پیش رفت کی راہ ہموار نہیں کر رہا۔ لیکن جو بات نواز شریف کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتی وہ ان کا یہ ریمارک ہے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں۔ کیا وہ یہ بات دھمکی کے طور پر کہہ رہے ہیں؟ آخر کوئی ملک کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں یا اس کے مخالف کے پاس ہیں۔ اس کا تو مطلب یہ ہے کہ اگر ان ہتھیاروں کا استعمال ہوا تو پاکستان اور شمالی ہند مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مِٹ جائیں گے۔
ایک اور تبدیلی جو میں نے اسلام آباد کے حوالے سے محسوس کی ہے کہ اس نے شملہ معاہدہ کا ذکر کرنا ہی ترک کر دیا ہے۔ قبل ازیں یہ بیان دیا جاتا تھا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدہ کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی سے زبانی طور پر کہا تھا کہ وہ کوشش کریں گے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کر دیا جائے۔ لیکن اپنے ملک میں ان کی یہ تجویز کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی تھی ۔ پاکستان کو لازماً یہ احساس کرنا چاہیے کہ کشمیر کا مذاکرات کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔ لہٰذا شملہ معاہدہ اس حوالے سے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
یہ درست ہے کہ دائیں بازو کی پارٹیوں کا نواز شریف پر خاصا دبائو ہے لیکن ایک عام پاکستانی ایسا محسوس نہیں کرتا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب میں پاکستان گیا تو میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ کشمیر کے بارے میں اس کا کیا خیال ہے۔ اس کا جواب تھا مجھے تو اپنی روزی کمانی ہے، بھلا کشمیر کا اس سے کیا تعلق۔ پاکستان میں ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ جو چیز ہم میدان جنگ میں نہیں جیت سکے وہ بھلا مذاکرات کی میز پر کیونکر جیت سکتے ہیں۔
نواز شریف کی یہ تجویز' جب کہ وہ اقتدار میں نہیں تھے' یقیناً نافذ کرنے کے قابل ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ دونوں ملک کشمیر پر بات چیت کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دیں جس میں کسی بھی قسم کی کوئی مداخلت نہ کی جائے۔ ایسا کرنے کے بعد دونوں ملک تجارت اور کاروبار کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں اور عوام کے عوام کے ساتھ رابطوں کے لیے ویزے کا حصول آسان بنا دیں۔ ممکن ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اپنی اس تجویز پر عملدرآمد کے لیے سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہوں۔ دریں اثناء بھارت کے سابق آرمی چیف وی این سنگھ کے اس الزام نے کہ بھارتی فوج کشمیر کے ریاستی وزیروں کو مالی امداد دیتی رہی ہے تا کہ وہ ریاست میں امن امان قائم رکھ سکیں' ایک سنجیدہ شکل اختیار کر لی ہے۔ جموں کشمیر اسمبلی کے اسپیکر نے قرار دیا ہے کہ وہ بھارتی جرنیل کو باقاعدہ طلب کر کے اس الزام کی وضاحت کرنے کے لیے کہیں گے اور پوچھیں گے کہ کن وزیروں کو یہ امداد دی جاتی رہی ہے۔بہر حال ہم میں سے ان لوگوں کو کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی جو ریاست کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ ریاست میں مداخلت بے جا کی کوشش کی ہے۔ حتٰی کہ کشمیر کے مقبول عام لیڈر شیخ عبداللہ کو بھی دہلی نے اپنا تابع مہمل بنا کر رکھا اور ایک دفعہ جب شیخ عبداﷲ نے منہ کھولنے کی کوشش کی تو پنڈت نہرو نے انھیں بارہ سال کے لیے پابند سلاسل کر دیا۔
درحقیقت ریاست کے بھارتی یونین کے ساتھ مل جانے کے بعد وہاں کوئی انتخابات ہی نہیں ہوئے۔ شیخ عبداللہ کو، جنھیں اس وقت جموں کشمیر کا وزیر اعظم کہا جاتا تھا، بادل نخواستہ حالات کے آگے سر تسلیم خم کر دینا پڑا۔ شیخ عبداللہ کی حراست کے دوران غلام بخشی محمد نے ان کی جگہ لے لی، وہ نئی دہلی حکومت کے شیخ عبداللہ سے بھی زیادہ تابعدار تھے۔ دہلی میں وزارت خارجہ نے امور کشمیر پر ایک علیحدہ محکمہ تشکیل دیدیا تھا۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ چونکہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں ہے۔ لہٰذا اس کی ذمے داری محکمہ امور خارجہ پر ہے جس کے سربراہی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے پاس تھی۔ جب گووند بھلاب پنت نے اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ چھوڑ کر وفاقی وزارت داخلہ کا چارج سنبھالا تو انھوں نے امور کشمیر کا محکمہ وزارت داخلہ کو منتقل کر دیا جو اب تک وزارت داخلہ کے ہی پاس ہے۔
یہ بات البتہ پنڈت نہرو کے حق میں جاتی ہے کہ انھوں نے اس وقت تک مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کی یہ درخواست قبول نہیں کی کہ جموں کشمیر کو بھارت میں شامل کر لیا جائے جب تک کہ شیخ عبداللہ نے اس کی اجازت نہ دے دی جو کہ اس وقت بھارتی جیل میں تھے۔ لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ شیخ نے بھی مایوس ہی کیا۔ انھوں نے نئی دہلی کی ہدایات اور انتظامات پر پانی پھیر کر رکھ دیا۔ اس کے بعد سے سری نگر میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے والے مفتی محمد سعید جن کا تعلق پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی سے تھا یا شیخ عبداللہ کے صاحبزادے فاروق عبداللہ نے یہ بات بخوبی سمجھ لی تھی کہ انھیں نئی دہلی کی مرضی کے مطابق ہی چلنا پڑے گا۔ نوجوان وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کبھی کبھار شور بلند کرتے ہیں لیکن یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ ریاستی پولیس کو بجا طور پر مضبوط کر رہے ہیں تا کہ ریاست میں تعینات بھارتی فوج کے کردار کو کم سے کم کیا جا سکے۔ لیکن وہ پاکستان آرمی کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں جو کہ چاہتی ہے کہ ریاست میں لاوا مسلسل ابلتا رہے۔ جب دونوں ملکوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کنٹرول لائن پر کوئی خلاف ورزی نہیں ہو گی تو ریاست کے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن حالیہ وقتوں نے کنٹرول لائن کی ہمیشہ خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔ میں اس کا الزام پاکستان کو ہی دوں گا کیونکہ اسے تحریک طالبان پاکستان کی حمایت حاصل ہے جو برف باری کے آغاز سے قبل کشمیر میں دراندازی کی کوشش کرتی ہے۔
اگر کشمیر میں دراندازی اسلام آباد کی پالیسی کا حصہ ہے تو پھر وزیر اعظم نواز شریف کا وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات میں کشمیر کا ذکر کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ ان دونوں نے کنٹرول لائن کے بارے میں 2004ء میں ہونے والے سمجھوتے کی پابندی کرنے پر اتفاق کیا جس کے مطابق دونوں ملکوں کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹرز جنرل نے ملاقات کرنی تھی۔ گو کہ اس کے لیے کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ بہر حال اب تک ان کی ملاقات ہو جانی چاہیے تھی۔ اگرچہ یہ ملاقات محض رسمی ہی ہوتی لیکن اس کے باوجود اس کا نتیجہ مثبت ہو سکتا تھا البتہ پاکستان کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کشمیر کو بزور طاقت بھارت کے قبضے سے نہیں چھین سکتا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)