اردو سپریم کورٹ میں
تو یہ پالیسی اچھی خاصی کامیاب چلی آ رہی تھی‘ مگر اب پاکستان سپریم کورٹ درمیان میں آن کھڑا ہوا ہے
جو کام آپ کرنے کے پابند ہیں اور کرنا نہیں چاہتے اس کے سلسلہ میں ایک آزمودہ نسخہ ہے کہ اسے ٹالتے چلے جائو آج نہیں کل' کل نہیں پرسوں' پرسوں نہیں اترسوں۔ وہ جو سالہا سال سے ایک تقاضا چلا آ رہا ہے کہ جب اردو قومی زبان قرار دیدی گئی ہے تو اسے دفتری زبان بنانے میں لیت و لعل کیوں۔ جواب وہی کہ کریں گے ضرورکریں گے۔ آج نہیں کل' کل نہیں پرسوں۔ اس پر ایک شعر سن لیجیے ؎
سوال وصل پر وہ ہو گا کہتے جاتے ہیں
تمنا میری' ماضی احتمالی ہوتی جاتی ہے
تو یہ پالیسی اچھی خاصی کامیاب چلی آ رہی تھی' مگر اب پاکستان سپریم کورٹ درمیان میں آن کھڑا ہوا ہے، سن رہے تھے کہ وہاں ایک جج صاحب نے اپنی عدالت میں مقدموں کی کارروائی' ان کی لکھا پڑھی اردو میں شروع کر دی ہے۔ لیجیے یہ سلسلہ محترم جسٹس جواد خواجہ نے شروع کیا ہے اس کے ایک مقدمے کی کارروائی ہمیں موصول ہوئی ہے۔ کارروائی تو طول طویل ہے مگر تمہید میں جو کہا گیا ہے وہ سن لیجیے۔
یہ بتانے کے بعد کہ یہ نوٹ آئین کے آرٹیکل 251 اور 28 کی رو سے اردو میں بھی تحریر کیا جا رہا ہے، کہا گیا ہے کہ ''عدالتی کارروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت شاقہ اور کئی بے نوا نسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت کم ہی لوگوں کی زبان ہے اور اکثر فاضل وکلا اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں''۔
یہ فنی پیچیدگی اپنی جگہ مگر جیسا کہ کہا گیا ہے ''آرٹیکل 251 کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارا آئین پاکستان کے عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خود پر لاگو قانونی ضوابط اور اپنے آئینی حقوق کی بابت صادر کیے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمراں جب ان سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں۔ یہ نہ صرف عزت نفس کا تقاضا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے''۔
اس سے آگے اس تمہید میں کہا گیا ہے کہ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔ برصغیر پاک وہند میں آریائی عہد سے لے کر فرنگی راج تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ ''لارڈ میکالے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیر سایہ ہماری مقامی اور قومی زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے۔ اور جس کے نتیجہ میں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے' جس نے ایک قلیل لیکن قوی اور غالب اقلیت (جو انگریزی جانتی ہے اور عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہے) اور عوام الناس جو انگریزی سے آشنا نہیں' کے درمیان ایسی خلیج پیدا کر دی ہے جو کسی بھی طور قومی یکجہتی کے لیے کارگر نہیں''۔
اب اس بیان کا مقطع سنئے ''آئین پاکستان البتہ ہمارے عوام کے سیاسی اور تہذیبی شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے جنہوں نے آرٹیکل 251 اور آرٹیکل 28 میں محکومانہ سوچ کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اور حکمرانوں کو بھی تحکمانہ رسم و رواج ترک کرنے اور سنت خادمانہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ آئین کی تشریح سے متعلق فیصلے اردو میں سنانا یا کم از کم ان کے تراجم اردو میں کرانا اسی سلسلہ کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے، عدالت عظمیٰ نے اسی کڑی کو آگے بڑھانے میں ایک شعبہ تراجم بھی قائم کیا ہے جو عدالتی فیصلوں کو عام فہم زبان میں منتقل کرتا ہے''۔
خوب' بہت خوب۔ اس پر سپریم کورٹ کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ اور یہ تو صرف آغاز ہے۔ اس سلسلہ میں ابھی تو شعبہ تراجم قائم ہوا ہے۔ آگے بھی تو مختلف اقدامات کرنے پڑیں گے۔
مگر یہ دیکھئے کہ مادرچہ خیالیم و فلک درچہ خیال۔ وہ جو آج نہیں کل اور کل نہیں پرسوں والی پالیسی پر خوش اسلوبی سے عمل ہو رہا تھا، اس میں کتنا بڑا کھنڈت پڑ گیا اور ہماری بیورو کریسی کے لیے عدالت عظمیٰ نے کتنی پریشانی پیدا کر دی ہے۔ اور حکومت وقت کی پریشانیوں اور الجھنوں میں بیٹھے بٹھائے یہ ایک اور اضافہ ہو گیا۔ اپنی نئی جمہوری حکومت کے ساتھ تو وہ ہوا ہے کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے لگے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ آخر پچھلی حکومتوں کو بھی تو وقتاً فوقتاً اس الجھن سے سابقہ پڑا تھا۔ انھوں نے' ان کی پارلیمنٹوں نے کس خوبصورتی سے مسئلہ کو مستقبل کی طرف ڈھکیل دیا اور بے فکر ہو گئے اور اب تو جو نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی ہے یعنی کہ پرائمری کلاس سے بچوں کو انگریزی میں پڑھائو۔ بس پھر پاکستان میں بچہ بچہ انگریزی میں طاق ہو جائے گا۔ پھر ہمیں کسی قومی یا مقامی زبان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
مگر لیجیے ابھی ہم اخبار میں ایک رپورٹ پڑھ رہے تھے۔ یہ پالیسی کس حد تک کامیاب رہی' یہ جائزہ لیا جا رہا تھا۔ اس جائزہ پینل میں بیکن ہائوس نیشنل یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر طارق رحمن بھی تھے اور لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر صبیحہ منصور ان دونوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ حکومت پنجاب نے جو یہ پالیسی وضع کی تھی کہ پہلی جماعت سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کر دی جائے وہ پالیسی تو بالکل ٹھپ ہو گئی۔ یہ پالیسی نافذ ہی نہیں ہو سکتی پبلک اسکولوں کی ابتدائی کلاسوں میں بیشک میتھمیٹک اور سائنس کی درسی کتابیں انگریزی میں ہیں مگر یہ مضمون پڑھائے جا رہے ہیں اردو میں۔ انھوں نے بتایا کہ برٹش کونسل کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے کہ نہ تو استادوں کو اتنی انگریزی آتی ہے کہ وہ انگریزی میں پڑھائیں اور نہ ابتدائی کلاسوں کے طلبا اتنی انگریزی جانتے ہیں کہ یہ مضمون انگریزی میں پڑھ اور سمجھ سکیں۔
ارے صاحب یہ تو بڑا مایوس کن نقشہ ہے۔ پنجاب کے اولوالعزم ارباب بست و کشاد کے سارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ پھر تو جسٹس جواد خواجہ ہی ٹھیک کہتے ہیں اور ٹھیک کر رہے ہیں۔ جس مقدمے کی کارروائی ہم تک پہنچی ہے اس میں سوال یہ زیر بحث ہے کہ قومی خزانے کے بعض کھاتوں کو خفیہ رکھنے کا کیا جواز ہے۔ ابھی تک حکومت نے اپنے اس اقدام کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا ہے۔ اس پر لمبی چوڑی بحث ہے اور سب اردو میں ہے۔ اور چونکہ اردو میں تھی اس لیے قانونی نکتہ طرازیوں کے باوجود ہماری سمجھ میں آ رہی تھی۔
ایسے معاملات اردو میں زیر بحث آنے لگے تو پھر تو ایرا غیرا سب کی سمجھ میں بہت سی باتیں آ جائیں گی۔ یہی بات تو تشویش ناک ہے۔
سوال وصل پر وہ ہو گا کہتے جاتے ہیں
تمنا میری' ماضی احتمالی ہوتی جاتی ہے
تو یہ پالیسی اچھی خاصی کامیاب چلی آ رہی تھی' مگر اب پاکستان سپریم کورٹ درمیان میں آن کھڑا ہوا ہے، سن رہے تھے کہ وہاں ایک جج صاحب نے اپنی عدالت میں مقدموں کی کارروائی' ان کی لکھا پڑھی اردو میں شروع کر دی ہے۔ لیجیے یہ سلسلہ محترم جسٹس جواد خواجہ نے شروع کیا ہے اس کے ایک مقدمے کی کارروائی ہمیں موصول ہوئی ہے۔ کارروائی تو طول طویل ہے مگر تمہید میں جو کہا گیا ہے وہ سن لیجیے۔
یہ بتانے کے بعد کہ یہ نوٹ آئین کے آرٹیکل 251 اور 28 کی رو سے اردو میں بھی تحریر کیا جا رہا ہے، کہا گیا ہے کہ ''عدالتی کارروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت شاقہ اور کئی بے نوا نسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت کم ہی لوگوں کی زبان ہے اور اکثر فاضل وکلا اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں''۔
یہ فنی پیچیدگی اپنی جگہ مگر جیسا کہ کہا گیا ہے ''آرٹیکل 251 کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارا آئین پاکستان کے عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خود پر لاگو قانونی ضوابط اور اپنے آئینی حقوق کی بابت صادر کیے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمراں جب ان سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں۔ یہ نہ صرف عزت نفس کا تقاضا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے''۔
اس سے آگے اس تمہید میں کہا گیا ہے کہ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔ برصغیر پاک وہند میں آریائی عہد سے لے کر فرنگی راج تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ ''لارڈ میکالے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیر سایہ ہماری مقامی اور قومی زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے۔ اور جس کے نتیجہ میں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے' جس نے ایک قلیل لیکن قوی اور غالب اقلیت (جو انگریزی جانتی ہے اور عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہے) اور عوام الناس جو انگریزی سے آشنا نہیں' کے درمیان ایسی خلیج پیدا کر دی ہے جو کسی بھی طور قومی یکجہتی کے لیے کارگر نہیں''۔
اب اس بیان کا مقطع سنئے ''آئین پاکستان البتہ ہمارے عوام کے سیاسی اور تہذیبی شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے جنہوں نے آرٹیکل 251 اور آرٹیکل 28 میں محکومانہ سوچ کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اور حکمرانوں کو بھی تحکمانہ رسم و رواج ترک کرنے اور سنت خادمانہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ آئین کی تشریح سے متعلق فیصلے اردو میں سنانا یا کم از کم ان کے تراجم اردو میں کرانا اسی سلسلہ کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے، عدالت عظمیٰ نے اسی کڑی کو آگے بڑھانے میں ایک شعبہ تراجم بھی قائم کیا ہے جو عدالتی فیصلوں کو عام فہم زبان میں منتقل کرتا ہے''۔
خوب' بہت خوب۔ اس پر سپریم کورٹ کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ اور یہ تو صرف آغاز ہے۔ اس سلسلہ میں ابھی تو شعبہ تراجم قائم ہوا ہے۔ آگے بھی تو مختلف اقدامات کرنے پڑیں گے۔
مگر یہ دیکھئے کہ مادرچہ خیالیم و فلک درچہ خیال۔ وہ جو آج نہیں کل اور کل نہیں پرسوں والی پالیسی پر خوش اسلوبی سے عمل ہو رہا تھا، اس میں کتنا بڑا کھنڈت پڑ گیا اور ہماری بیورو کریسی کے لیے عدالت عظمیٰ نے کتنی پریشانی پیدا کر دی ہے۔ اور حکومت وقت کی پریشانیوں اور الجھنوں میں بیٹھے بٹھائے یہ ایک اور اضافہ ہو گیا۔ اپنی نئی جمہوری حکومت کے ساتھ تو وہ ہوا ہے کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے لگے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ آخر پچھلی حکومتوں کو بھی تو وقتاً فوقتاً اس الجھن سے سابقہ پڑا تھا۔ انھوں نے' ان کی پارلیمنٹوں نے کس خوبصورتی سے مسئلہ کو مستقبل کی طرف ڈھکیل دیا اور بے فکر ہو گئے اور اب تو جو نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی ہے یعنی کہ پرائمری کلاس سے بچوں کو انگریزی میں پڑھائو۔ بس پھر پاکستان میں بچہ بچہ انگریزی میں طاق ہو جائے گا۔ پھر ہمیں کسی قومی یا مقامی زبان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
مگر لیجیے ابھی ہم اخبار میں ایک رپورٹ پڑھ رہے تھے۔ یہ پالیسی کس حد تک کامیاب رہی' یہ جائزہ لیا جا رہا تھا۔ اس جائزہ پینل میں بیکن ہائوس نیشنل یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر طارق رحمن بھی تھے اور لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر صبیحہ منصور ان دونوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ حکومت پنجاب نے جو یہ پالیسی وضع کی تھی کہ پہلی جماعت سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کر دی جائے وہ پالیسی تو بالکل ٹھپ ہو گئی۔ یہ پالیسی نافذ ہی نہیں ہو سکتی پبلک اسکولوں کی ابتدائی کلاسوں میں بیشک میتھمیٹک اور سائنس کی درسی کتابیں انگریزی میں ہیں مگر یہ مضمون پڑھائے جا رہے ہیں اردو میں۔ انھوں نے بتایا کہ برٹش کونسل کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے کہ نہ تو استادوں کو اتنی انگریزی آتی ہے کہ وہ انگریزی میں پڑھائیں اور نہ ابتدائی کلاسوں کے طلبا اتنی انگریزی جانتے ہیں کہ یہ مضمون انگریزی میں پڑھ اور سمجھ سکیں۔
ارے صاحب یہ تو بڑا مایوس کن نقشہ ہے۔ پنجاب کے اولوالعزم ارباب بست و کشاد کے سارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ پھر تو جسٹس جواد خواجہ ہی ٹھیک کہتے ہیں اور ٹھیک کر رہے ہیں۔ جس مقدمے کی کارروائی ہم تک پہنچی ہے اس میں سوال یہ زیر بحث ہے کہ قومی خزانے کے بعض کھاتوں کو خفیہ رکھنے کا کیا جواز ہے۔ ابھی تک حکومت نے اپنے اس اقدام کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا ہے۔ اس پر لمبی چوڑی بحث ہے اور سب اردو میں ہے۔ اور چونکہ اردو میں تھی اس لیے قانونی نکتہ طرازیوں کے باوجود ہماری سمجھ میں آ رہی تھی۔
ایسے معاملات اردو میں زیر بحث آنے لگے تو پھر تو ایرا غیرا سب کی سمجھ میں بہت سی باتیں آ جائیں گی۔ یہی بات تو تشویش ناک ہے۔