استدلال پرملال
ذرا منطق کی رو سے جائزہ لیجیے اور تمام امور کو استدلال کی روشنی میں دیکھیے تو اس دورے کے مقاصد واضح ہوجائیں گے
میاں محمد نواز شریف کی امریکا روانگی سے قبل میڈیا پر بڑا شور و غوغا تھا، امیدوں کا ایک سمندر، لہلہاتے کھیت، خوبصورت لینڈ اسکیپ فتح و کامرانی کے رزمیہ گیت جانے کیا امریکا جاکر ہونے والا ہے ، نا سمجھی کی ایک طویل قطار جیسے کہ عرب کے صحرا سے ہدی خواں اونٹوں کے قافلے پر رواں دواں ہیں ، یہی احوال کچھ امریکا روانگی سے قبل تھا۔ قیاس اور غلو سے کام لیا گیا لہٰذا پاک امریکا تعلقات کو ایک نئے باب کا نام دیا گیا، گویا ماضی میں جو بھی ہوا سب غلط تھا، پاک امریکا تعلقات ایک اعتبار سے ختم ہوچکے تھے یہ تجدید وفا ہے، رنجشوں کو بھلا کر دوستی اور اخوت کا ایک نیا دور اور نئے دروازے کھلنے کو ہیں مگر دیکھا جائے تو نہ کچھ ٹوٹا نہ کچھ چھوٹا ۔ پاک امریکا تعلقات تو ہمیشہ نشیب و فراز کا منظر پیش کرتے رہے ہیں، جب سوویت یونین کے سربراہ اسٹالن نے خان لیاقت علی خان کو سوویت یونین آنے کی دعوت دی تو انھوں نے تجدید وفا کے لیے امریکا کو بہتر سمجھا اور پاک امریکا تعلقات میں اکثر ایسے موڑ آتے رہے کہ عوامی خواہشات کچھ تھیں مگر حکمران عوام کو ہمیشہ دھوکہ دیتے رہے ۔
نہر سوئز کی جنگ پر پاکستانی وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کا موقف پھر سوویت یونین کے خلاف ایوب خان کے دور میں کے پی میں بڈا بیر کا ہوائی اڈہ جہاں سے U2 نے پرواز کی اور خروشیف کے دور میں اس کو مار گرایا گیا، لہٰذا یہ کہنا کہ پاک امریکا تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا ، حکومتی سطح پر روابط میں ہمیشہ گرم جوشی رہی البتہ عوامی سطح پر دباؤ کی وجہ سے کواکب کچھ اور نظر آتے رہے ۔ اب تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ابتدائی ڈرون حملے ہماری حکومتوں کے اشارے پر ہوتے رہے لہٰذا یہ سوچنا کہ ہم اپنی پالیسی کی بنیاد پر امریکی پالیسی کو تبدیل کراسکتے ہیں عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے ، ذرا غور کریں کہ پاکستان کے اہم موضوعات کیا تھے اور امریکا کے بنیادی مقاصد کیا تھے پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کے گوہر نایاب کیا فرماتے ہیں کہ کم ازکم اب ڈائیلاگ تو شروع ہوا تو کوئی ان سے پوچھے اب تک کیا ہوتا رہا۔ ضیا دور میں وزیر اعظم صاحب بھی ایک معتبر شخصیت تھے اور آج بھی ہیں کل بھی امریکی مفادات کو سمجھتے تھے اور اب تو کئی بار کی حکومتی مسند نے حالات پر نظر اور گہری کردی ہے۔
ذرا منطق کی رو سے جائزہ لیجیے اور تمام امور کو استدلال کی روشنی میں دیکھیے تو اس دورے کے مقاصد واضح ہوجائیں گے، دراصل امریکا کمزور تر معاشی ممالک سے کیونکر دبنے لگا؟ کیا آپ امریکا کو قرض دے رہے ہیں؟ کیا امریکا اور روس میں ڈیوڈ سنوڈین کی وجہ سے جو سرد جنگ شروع ہوئی ہے ہم صلح کراسکتے ہیں؟ کیا ہم امریکا کی سپلائی لائن بند کرسکتے ہیں؟ جو لیڈران امریکا یا نیٹو ممالک کی سپلائی لائن بند کرنے کی باتیں کرتے ہیں وہ عوام کو خوابوں کی جنت میں لے جانا چاہتے ہیں، وہ سال میں کئی بار امریکی دورہ کرتے ہیں اور چندہ جمع کرتے ہیں۔ پاکستان کیا خود کفالت کے دور میں داخل ہوگیا ہے؟ پاکستان نیوکلیئر پاور ضرور ہے مگر کیا یہ نیوکلیئر انرجی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا پاکستان امن وامان کا گہوارہ ہے جہاں لوگ آکر انڈسٹری لگائیں؟ کیا آپ آزاد خارجہ پالیسی کے مالک ہیں ، ابھی امریکا نے پاک ایران گیس پائپ لائن پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا ہے تو کیا یہ معاہدہ قابل عمل ہے جب کہ ایران اور امریکا تعلقات کا نیا دور شروع کرنے والے ہیں، برطانیہ میں ایرانی سفارت خانہ کھولنے کی امیدیں پیدا ہورہی ہیں کیونکہ ایران نے امریکا کو باور کرادیا ہے کہ ان کا ایٹمی پروگرام نیوکلیئر بم نہیں بلکہ انرجی ہے جو نیوکلیئر بم سے زیادہ کارآمد ہے جس سے مشین کا پہیہ گھومے گا روزگار بڑھے گا۔
امریکا نے عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھانے نہ دیا بلکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ ہم ڈرون ڈرون کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی کی ۔ مگر کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ اختیار کیا؟ امریکا نے ڈرون کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مستقبل میں دیکھا جائے گا۔ امریکی استدلال اور منطق کے سامنے ہمارا وفد کیوں خاموش تماشائی رہا اور امریکا سے نکل کر برطانیہ میں شور و غوغا کیا گیا آخر کیوں؟ امریکا نے طالبان مذاکرات کو اس کا اپنا معاملہ قرار دیا جب کہ کابل کی حکومت کو مستحکم رہنے اور پاکستان سے تعاون کی یقین دہانی لی گئی۔ بھارت سے تعلقات کی بحالی اور کنٹرول لائن پر کشیدگی کے خاتمے پر اصرار اور ممبئی حملوں کے ذمے داروں کو سزا دلوانے اور حافظ سعید کی تنظیم کو غیر قانونی قرار دینے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھا۔ ڈاکٹر عافیہ کا مسئلہ زیر بحث نہ آیا البتہ پاکستان کو زر حقیر دے کر اپنی پالیسی کو مزید مستحکم بنایا مسٹر بارک اوباما نے اپنے ملک کی سلامتی کے لیے جو کچھ بھی تحفظات تھے نواز شریف صاحب کو آگاہ کیا اور خارجہ پالیسی کا بادباں امریکی رخ پر چلتا رہا بلکہ اس سے بڑھ کر اسحاق ڈار صاحب امریکی حکمرانوں کو پاکستان کے جوہری اثاثوں کے متعلق وضاحتیں کرتے نظر آئے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں ۔
البتہ امریکا نے اس معاملے پر پاکستان کی حکومت سے اتفاق کیا۔ اس کو کسی حد تک ایک ہلکی سی کامیابی سے تعبیر کرسکتے ہیں اگر پاک امریکا تعلقات میں مزید الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور خارجہ پالیسی بالکل متوازی ہوجاتی ہے تو یہ پہلو جوہری معاملات پر نئے خطرناک پہلوؤں کو اجاگر کرے گا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں ، گویا اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان اور امریکا کے سیاسی اقدامات لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں ہماری سیاسی پالیسی کا کلیدی پہلو یہی ہے کہ امریکی مفاد مقدم اور پاکستانی مفاد دویم پاکستان معاشی طور پر جتنا انحطاط پذیر ہوگا اسی قدر امریکی دباؤ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ایسی صورت میں ایسا لگتا ہے کہ غیر منطقی اور بغیر استدلال کے مستقبل کے مفروضوں پر میڈیا پر کمنٹری کی جاتی ہے اس طرح عوام کی سیاسی گمراہی کا پیمانہ لبریز کردیا جاتا ہے اور اگر کسی گفتگو کرنے والے کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو وہ بلند آواز کرکے اپنی بے یقینی کو یقین میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے یہی احوال کچھ ان لوگوں کا بھی تھا جو وزارت خارجہ کے مشیران ہیں ان کی تمام تر گفتگو قیاس آرائی، مستقبل کی توقعات پر مبنی تھی، ہر چیز کا تذکرہ، ہوجائے ہوجائیں گے، نقارہ فتح بجاتے رہتے ہیں اسی لیے سیاست میں اوج ثریا کے بجائے تحت الثریٰ ہی عوام کا مقدر بنتا جارہا ہے ۔ سچ خواہ تلخ ہو
یا شیریں عوام کو معلوم ہونا چاہیے ۔ عوام کو اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی پر جو خلا پیدا ہوگا اس کو کون پورے کرے گا؟ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد شمالی اور جنوبی افغانستان کے معاملات کون چلائے گا؟ کیسے چلیں گے، کاشغر میں طالبان کے متعلق چین کا کیا رویہ ہوگا۔ پاکستان کے داخلی انتشار کے سبب مخالف قوتیں کیا کریں گی؟ اور ان کو روکنے کے لیے ہم نے کیا انتظامات کر رکھے ہیں بلوچستان کی ساحلی پٹی پر امن و امان کی صورت حال کیا ہوگی اس سے کیسے نبرد آزما ہوں گے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا نے اپنا دوست قرار دیا ہے اور اس کی آزادی کو خصوصی اہمیت دی ہے اس کا سدباب یا مسئلے کے حل کو کورٹ کے ذریعے کس طرح حل کیا جائے گا، آفریدی پر فرد جرم عاید کرنے کے بعد امریکی رد عمل کیا ہوگا اور اس رد عمل پر ہمارا کیا عمل ہوگا؟ پاکستان میں انرجی کی ابتری اور انڈسٹری کا بند ہونا ایک بھیانک سپنا ہے، اگر آپ ٹیلی ویژن پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اب صرف موبائل فون اور نیٹ ورک بزنس رہ گیا ہے یا ہاؤسنگ پلازہ وغیرہ۔ اگر صورت حال یہی رہی تو جلد یا دیر ایڈور ٹائزنگ بزنس دم توڑ دے گا جس کا اثر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑے گا ، مجموعی مارکیٹ کی مندی کے اثرات رفتہ رفتہ آنا شروع ہوگئے ہیں ، ہماری سوسائٹی سے مشکلات کا حل صرف استدلال اور منطق سے ہی ممکن ہے خواہ وہ تجارت ہو، سماجی سرگرمیاں یا سیاسی امور پر دلائل اور غور و فکر کے بعد پالیسیاں وضع کرنا، پورے نظام کائنات پر تفکر ، مگر اس پہلو کا تو انتقال ہوچکا گو کہ ہم کو بچپن میں پڑھایا گیا تھا کہ تخلیق ِپاکستان تفکر ِعلامہ اقبال ہے جس نے یہ کہا:
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں
لہٰذا مجھے بھی خیال آیا کہ انتقال پر ملال کی اصطلاح تو رخصت ہوئی ہم سے، پورا ملک لہو لہو ہے، رہ گیا تھا دلیل اور استدلال ، دوران تکلم تو اس کو بھی تصرف میں لایا جائے اور اب سیاست بھی استدلال پر ملال کی راہ پر گامزن ہے۔
نہر سوئز کی جنگ پر پاکستانی وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کا موقف پھر سوویت یونین کے خلاف ایوب خان کے دور میں کے پی میں بڈا بیر کا ہوائی اڈہ جہاں سے U2 نے پرواز کی اور خروشیف کے دور میں اس کو مار گرایا گیا، لہٰذا یہ کہنا کہ پاک امریکا تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا ، حکومتی سطح پر روابط میں ہمیشہ گرم جوشی رہی البتہ عوامی سطح پر دباؤ کی وجہ سے کواکب کچھ اور نظر آتے رہے ۔ اب تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ابتدائی ڈرون حملے ہماری حکومتوں کے اشارے پر ہوتے رہے لہٰذا یہ سوچنا کہ ہم اپنی پالیسی کی بنیاد پر امریکی پالیسی کو تبدیل کراسکتے ہیں عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے ، ذرا غور کریں کہ پاکستان کے اہم موضوعات کیا تھے اور امریکا کے بنیادی مقاصد کیا تھے پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کے گوہر نایاب کیا فرماتے ہیں کہ کم ازکم اب ڈائیلاگ تو شروع ہوا تو کوئی ان سے پوچھے اب تک کیا ہوتا رہا۔ ضیا دور میں وزیر اعظم صاحب بھی ایک معتبر شخصیت تھے اور آج بھی ہیں کل بھی امریکی مفادات کو سمجھتے تھے اور اب تو کئی بار کی حکومتی مسند نے حالات پر نظر اور گہری کردی ہے۔
ذرا منطق کی رو سے جائزہ لیجیے اور تمام امور کو استدلال کی روشنی میں دیکھیے تو اس دورے کے مقاصد واضح ہوجائیں گے، دراصل امریکا کمزور تر معاشی ممالک سے کیونکر دبنے لگا؟ کیا آپ امریکا کو قرض دے رہے ہیں؟ کیا امریکا اور روس میں ڈیوڈ سنوڈین کی وجہ سے جو سرد جنگ شروع ہوئی ہے ہم صلح کراسکتے ہیں؟ کیا ہم امریکا کی سپلائی لائن بند کرسکتے ہیں؟ جو لیڈران امریکا یا نیٹو ممالک کی سپلائی لائن بند کرنے کی باتیں کرتے ہیں وہ عوام کو خوابوں کی جنت میں لے جانا چاہتے ہیں، وہ سال میں کئی بار امریکی دورہ کرتے ہیں اور چندہ جمع کرتے ہیں۔ پاکستان کیا خود کفالت کے دور میں داخل ہوگیا ہے؟ پاکستان نیوکلیئر پاور ضرور ہے مگر کیا یہ نیوکلیئر انرجی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا پاکستان امن وامان کا گہوارہ ہے جہاں لوگ آکر انڈسٹری لگائیں؟ کیا آپ آزاد خارجہ پالیسی کے مالک ہیں ، ابھی امریکا نے پاک ایران گیس پائپ لائن پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا ہے تو کیا یہ معاہدہ قابل عمل ہے جب کہ ایران اور امریکا تعلقات کا نیا دور شروع کرنے والے ہیں، برطانیہ میں ایرانی سفارت خانہ کھولنے کی امیدیں پیدا ہورہی ہیں کیونکہ ایران نے امریکا کو باور کرادیا ہے کہ ان کا ایٹمی پروگرام نیوکلیئر بم نہیں بلکہ انرجی ہے جو نیوکلیئر بم سے زیادہ کارآمد ہے جس سے مشین کا پہیہ گھومے گا روزگار بڑھے گا۔
امریکا نے عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھانے نہ دیا بلکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ ہم ڈرون ڈرون کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی کی ۔ مگر کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ اختیار کیا؟ امریکا نے ڈرون کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مستقبل میں دیکھا جائے گا۔ امریکی استدلال اور منطق کے سامنے ہمارا وفد کیوں خاموش تماشائی رہا اور امریکا سے نکل کر برطانیہ میں شور و غوغا کیا گیا آخر کیوں؟ امریکا نے طالبان مذاکرات کو اس کا اپنا معاملہ قرار دیا جب کہ کابل کی حکومت کو مستحکم رہنے اور پاکستان سے تعاون کی یقین دہانی لی گئی۔ بھارت سے تعلقات کی بحالی اور کنٹرول لائن پر کشیدگی کے خاتمے پر اصرار اور ممبئی حملوں کے ذمے داروں کو سزا دلوانے اور حافظ سعید کی تنظیم کو غیر قانونی قرار دینے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھا۔ ڈاکٹر عافیہ کا مسئلہ زیر بحث نہ آیا البتہ پاکستان کو زر حقیر دے کر اپنی پالیسی کو مزید مستحکم بنایا مسٹر بارک اوباما نے اپنے ملک کی سلامتی کے لیے جو کچھ بھی تحفظات تھے نواز شریف صاحب کو آگاہ کیا اور خارجہ پالیسی کا بادباں امریکی رخ پر چلتا رہا بلکہ اس سے بڑھ کر اسحاق ڈار صاحب امریکی حکمرانوں کو پاکستان کے جوہری اثاثوں کے متعلق وضاحتیں کرتے نظر آئے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں ۔
البتہ امریکا نے اس معاملے پر پاکستان کی حکومت سے اتفاق کیا۔ اس کو کسی حد تک ایک ہلکی سی کامیابی سے تعبیر کرسکتے ہیں اگر پاک امریکا تعلقات میں مزید الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور خارجہ پالیسی بالکل متوازی ہوجاتی ہے تو یہ پہلو جوہری معاملات پر نئے خطرناک پہلوؤں کو اجاگر کرے گا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں ، گویا اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان اور امریکا کے سیاسی اقدامات لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں ہماری سیاسی پالیسی کا کلیدی پہلو یہی ہے کہ امریکی مفاد مقدم اور پاکستانی مفاد دویم پاکستان معاشی طور پر جتنا انحطاط پذیر ہوگا اسی قدر امریکی دباؤ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ایسی صورت میں ایسا لگتا ہے کہ غیر منطقی اور بغیر استدلال کے مستقبل کے مفروضوں پر میڈیا پر کمنٹری کی جاتی ہے اس طرح عوام کی سیاسی گمراہی کا پیمانہ لبریز کردیا جاتا ہے اور اگر کسی گفتگو کرنے والے کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو وہ بلند آواز کرکے اپنی بے یقینی کو یقین میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے یہی احوال کچھ ان لوگوں کا بھی تھا جو وزارت خارجہ کے مشیران ہیں ان کی تمام تر گفتگو قیاس آرائی، مستقبل کی توقعات پر مبنی تھی، ہر چیز کا تذکرہ، ہوجائے ہوجائیں گے، نقارہ فتح بجاتے رہتے ہیں اسی لیے سیاست میں اوج ثریا کے بجائے تحت الثریٰ ہی عوام کا مقدر بنتا جارہا ہے ۔ سچ خواہ تلخ ہو
یا شیریں عوام کو معلوم ہونا چاہیے ۔ عوام کو اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی پر جو خلا پیدا ہوگا اس کو کون پورے کرے گا؟ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد شمالی اور جنوبی افغانستان کے معاملات کون چلائے گا؟ کیسے چلیں گے، کاشغر میں طالبان کے متعلق چین کا کیا رویہ ہوگا۔ پاکستان کے داخلی انتشار کے سبب مخالف قوتیں کیا کریں گی؟ اور ان کو روکنے کے لیے ہم نے کیا انتظامات کر رکھے ہیں بلوچستان کی ساحلی پٹی پر امن و امان کی صورت حال کیا ہوگی اس سے کیسے نبرد آزما ہوں گے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا نے اپنا دوست قرار دیا ہے اور اس کی آزادی کو خصوصی اہمیت دی ہے اس کا سدباب یا مسئلے کے حل کو کورٹ کے ذریعے کس طرح حل کیا جائے گا، آفریدی پر فرد جرم عاید کرنے کے بعد امریکی رد عمل کیا ہوگا اور اس رد عمل پر ہمارا کیا عمل ہوگا؟ پاکستان میں انرجی کی ابتری اور انڈسٹری کا بند ہونا ایک بھیانک سپنا ہے، اگر آپ ٹیلی ویژن پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اب صرف موبائل فون اور نیٹ ورک بزنس رہ گیا ہے یا ہاؤسنگ پلازہ وغیرہ۔ اگر صورت حال یہی رہی تو جلد یا دیر ایڈور ٹائزنگ بزنس دم توڑ دے گا جس کا اثر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑے گا ، مجموعی مارکیٹ کی مندی کے اثرات رفتہ رفتہ آنا شروع ہوگئے ہیں ، ہماری سوسائٹی سے مشکلات کا حل صرف استدلال اور منطق سے ہی ممکن ہے خواہ وہ تجارت ہو، سماجی سرگرمیاں یا سیاسی امور پر دلائل اور غور و فکر کے بعد پالیسیاں وضع کرنا، پورے نظام کائنات پر تفکر ، مگر اس پہلو کا تو انتقال ہوچکا گو کہ ہم کو بچپن میں پڑھایا گیا تھا کہ تخلیق ِپاکستان تفکر ِعلامہ اقبال ہے جس نے یہ کہا:
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں
لہٰذا مجھے بھی خیال آیا کہ انتقال پر ملال کی اصطلاح تو رخصت ہوئی ہم سے، پورا ملک لہو لہو ہے، رہ گیا تھا دلیل اور استدلال ، دوران تکلم تو اس کو بھی تصرف میں لایا جائے اور اب سیاست بھی استدلال پر ملال کی راہ پر گامزن ہے۔