وزیرستان سے ماسکو تک
عام طور پر ان مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے ان کی تحریکوں کا مقصد دنیا پر غلبہ پانا ہے
روس کے دارالحکومت ماسکوکے ملٹری بیس ٹریننگ سینٹر میں ایک زبردست دھماکا ہوا جس میں 6 کیڈٹ ہلاک اور کچھ زخمی ہوئے روسی صدر پیوتن نے اس دھماکے کو ''بیرونی عناصر'' کی کارستانی کہا ہے۔ ایک روز پہلے روس کے جنوبی علاقے میں ایک مسافر بس میں دھماکا ہوا تھا جس میں کئی مسافر ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔چین کے صوبے سنکیانگ میں بھی دہشت گردی کے واقعات معمول بنے رہے ہیں، شمالی افریقہ، مالی، صومالیہ، سوڈان، نائیجریا وغیرہ میں منظم طریقے سے دہشت گردی کی وارداتیںہو رہی ہیں خود امریکا کے کئی شہروں کے علاوہ برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں بھی یہ وارداتیں جاری ہیں۔ لیکن اس حوالے سے ذہن میں یہ سوالات بہرحال اٹھتے ہیں کہ '' دہشت گرد کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ''
عام طور پر ان مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے ان کی تحریکوں کا مقصد دنیا پر غلبہ پانا ہے لیکن افغانستان اور پاکستان میںیہ جس طرح حاوی ہوگئے ہیں کیا روس امریکا، چین اور دوسرے ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں انھیں پاکستان اور افغانستان جیسی کامیابیاں مل سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے کہ ''ایں خیال است و محال است وجنوں'' مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں مذہبی انتہا پسند اپنے نیٹ ورک اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرنے والے مجاہدین اور دولت کے استعمال سے کہیں کہیں دہشت گردانہ کارروائیوں میں کامیاب تو ہورہے ہیں لیکن روس امریکا، چین، برطانیہ، جرمنی، فرانس، بھارت وغیرہ کو افغانستان یا پاکستان بنانا ممکن ہے؟ امریکا روس وغیرہ میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کامیابیاں ان ملکوں کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کا ثبوت تو ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہبی انتہا پسند ان ملکوں کو پاکستان اور افغانستان بناسکتے ہیں؟ اس سوال کے تمام جوابات نفی میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک بہرحال فوجی طاقت کے حوالے سے اس قدر مضبوط ہیں کہ چند سر پھرے مذہبی انتہا پسند محض خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں اور ٹائم بموں کے ذریعے ان ملکوں پر قبضہ نہیں کرسکتے۔
ابھی چونکہ مغربی ملک دہشت گردی کو اتنا بڑا خطرہ نہیں سمجھتے کہ ان کے ملک اور ان کے ملکوں کی سالمیت اور بقا کا مسئلہ پیدا ہوجائے۔ اگر ان ملکوں کو ذرہ برابر بھی یہ خطرہ محسوس ہوکہ دہشت گرد ان کے ملکوں کی آزادی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ بن رہے ہیں تو یہ ملک اس کی پرواہ کیے بغیر کے ان کی جوابی کارروائیوں میں دہشت گردوں کے علاقوں میں کتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوگا یہ ملک وہ ہتھیار استعمال کرنے سے ہرگز گریز نہیں کریں گے جو لاکھوں انسانوں کو پلک جھپکتے میں موت سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکا کو براہ راست کوئی خطرہ درپیش نہ تھا بلکہ آزاد دنیا کو ملٹری فاشزم سے خطرہ پیدا ہوگیا تھا اس خطرے سے بچنے کے لیے امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیے اور لاکھوں بے گناہ جاپانی ایٹمی آگ میں جل گئے اور ہٹلر اور اس کے اتحادیوں کو شکست قبول کرنا پڑی۔ اس پس منظر میں مغربی ملک جو مذہبی انتہاپسندی کو ہٹلری فاشزم سے بہت بڑا فاشزم سمجھتے ہیں ایٹمی ہتھیار استعمال کر نے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ آج کی بڑھتی پھیلتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی کو ترقی یافتہ ملک اپنے لیے ہی نہیں بلکہ جدید تہذیب کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
دہشت گرد ہوسکتا ہے دنیا پر اپنی مذہبی بالادستی قائم کرنے کے حوالے سے مخلص ہوں لیکن اس مقصد کے لیے انھوں نے دہشت گردی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ اس قدر غیر انسانی ہے کہ مغربی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی بات چھوڑیئے خود عالم اسلام اس وقت دہشت گردی کے اس قدر خلاف ہے کہ ان ملکوں کی مذہبی قیادت خودکش حملوں کو نہ صرف خلاف اسلام قرار دے رہی ہے بلکہ اس کے خلاف سڑکوں پر آکر اس غیر انسانی غیر اسلامی طریقہ تبلیغ کے خلاف احتجاج کر رہی ہے تو پھر دوسرے مذاہب کو ماننے والے اس مذہبی فاشزم کو کس طرح قبول کرسکتے ہیں؟ اس حقیقت کے پس منظر میں جب ہم اس مذہبی انتہا پسندی پر غور کرتے ہیں تو یہی صورت سامنے آتی ہے کہ ساری دنیا اس انتہا پسندی سے نفرت کر رہی ہے اور چند انتہا پسند گروہوں کی اس غیر انسانی سفاکانہ کارروائیوں کی وجہ مسلم ملکوں مسلمانوں اور ان کے مذہب ہی سے بدگمان ہورہی ہے۔ کیا یہ مذہب دوستی مذہب اور اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی گہری سازش تو نہیں؟کیا اپنے مذہب کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے اس غیر منطقی غیر مہذب اور سفاکانہ طریقے نے ساری دنیا کو مسلم دنیا اور مذہب اسلام کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم نہیں کرے گا؟ کیا مٹھی بھر دہشت گرد ساری دنیا سے جنگ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
اپنے مذہب کو دوسرے مذاہب سے برتر اور اعلیٰ سمجھنے کا حق تو ہر مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہے لیکن کسی مذہب کو دہشت گردی کے ذریعے ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کو دنیا قبول کر لے گی؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر مذہبی انتہاپسندوں کی قیادت کو اگر وہ مذہب سے مخلص ہے تو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے اعتدال پسند مذہبی قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس سنگین صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور پاکستان مسلم لیگ اور اپنے مذہب کو لاحق خطرات اور بدنامیوں سے بچانے اور دنیا میں مسلمانوں کے لیے پیدا ہونے والے خطرات کے تدارک کے لیے آگے آئے۔
آج دنیا مذہب، رنگ، نسل اور قومیتوں کے حوالے سے جن نفرتوں، جنگوں، تعصبات اور تنگ نظریوں کا شکار ہے اس دلدل سے دنیا کو نکالنے کے لیے انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارے، درگزر اور ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کرنے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بڑا کٹھن کام ہے کیونکہ ہزاروں سالوں کی گہرائی میں جن تعصبات جن نفرتوں جن تنگ نظریوں کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں انھیں آسانی سے کھرچ کر پھینکا نہیں جاسکتا۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام نے ساری دنیا میں جو فکری اخلاقی اور معاشی انحطاط پیدا کیا ہے اور ساری دنیا اس نظام کی سفاکیوں کے خلاف جس طرح متحد ہورہی ہے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی نے سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکیوں کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ اب دنیا کی توجہ صرف دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کی طرف مبذول ہوکر رہ گئی ہے جو یقینا سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کے خلاف متحد ہوتی دنیا اور دنیا کے عوام کے خلاف ایک گھناؤنی سازش نظر آتی ہے۔
پاکستان بدقسمتی سے اس وبا کا گڑھ مانا جارہا ہے پاکستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت اس عفریت کو ختم کرنے کے لیے اتحاد کرنے کے لیے اتحاد و اتفاق اور جوابی اقدامات کرنے کے بجائے سخت نظریاتی انتشار اور سیاسی مفادات کی اسیر ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ صورت حال دانستہ ہو یا نادانستہ دونوں صورتوں میں پاکستان اور پاکستانی عوام کے مستقبل پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے اس انتشار سے نکلنے کے لیے میڈیا اور اہل قلم اہل دانش کو آگے آنا اور مثبت رول ادا کرنا ہوگا ورنہ یہ عوام اور ملک دشمن طاقتیں اتنی مضبوط اور مستحکم ہوجائیں گی بلکہ ہو رہی ہیں کہ ان سے بچ نکلنا مشکل ہوجائے گا۔