خود آپ اپنا گریباں چاک کیے ہوئے

افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ، اَن پڑھ لوگوں سے زیادہ ریخت کا باعث بن رہے ہیں


شاہد کاظمی December 12, 2019
لاہور میں وکلا نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پرر دھاوا بولا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

معاشرہ اگر گولی سے ترقی پاتا تو ہٹلر کو آج دنیا اچھے لفظوں میں یاد کررہی ہوتی۔ معاشرے کی فلاح اگر باہمی نفاق میں ہوتی تو مشرقی و مغربی جرمنی کبھی بھی ایک نہ ہوتے۔ اگر معاشرتی ریخت میں بھلائی ہوتی تو دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا امن کے معاہدے نہ کررہی ہوتی۔ گولی یا تشدد یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کیا جلا رہے ہیں اور کیا ختم کر رہے ہیں۔ ان کا تو کام ہی تباہی ہے۔ معاشرے میں اگر بہتری کی کوشش کرنی ہے تو پھر دلیل کی مدد سے کی جاسکتی ہے۔ دلیل کی مدد سے مشکل سے مشکل معاملات بھی باہمی اتفاق و اتحاد سے طے کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کےلیے ضروری یہ ہے کہ دلیل سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھا جائے اور دلیل کو موقع دیا جائے۔ اگر آپ دلیل کو موقع ہی نہیں دے رہے تو پھر کیا فائدہ آپ کے تعلیم یافتہ ہونے کا اور کیا حاصل معاشرے کے فرد ہونے کا۔ ایسے ہونے سے تو نہ ہونا ہی بہتر ہے۔

لاہور میں وکلا نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پرر دھاوا بولا۔ دھاوا کبھی بھلائی کےلیے ہو نہیں سکتا، اس لیے لاہور میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک سرکاری عمارت نشانہ بنی۔ عمارت بھی وہ جو لوگوں کو صحت جیسی اہم سہولت فراہم کرتی ہے۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ علاج معالجے میں خلل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اموات تک ہوئی ہیں۔ اور اسپتال میدان جنگ بنا رہا۔ فیاض الحسن چوہان سے سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن بہرحال انہوں نے کوشش کی معاملات کو سلجھانے کی اور رہنما کا کام بھی یہی ہے۔ لیکن اس رہنما کے ساتھ بھی ہجوم نے وہ سلوک کیا جو کسی طرح مہذب نہیں گردانا جاسکتا۔ پولیس موبائل کو آگ لگی سو لگی کہ گاڑیاں تو ہنگاموں کا نشانہ بنتی ہی رہتی ہیں۔ لیکن اس پوری صورت حال سے عوام کو تکلیف اٹھانا پڑی۔

احتجاج جمہوری معاشرے کی نشانی ہوتے ہیں کہ وہ معاشرہ مثبت رویوں پر پروان چڑھ رہا ہے۔ اختلاف، احتجاج تو ہر مہذب معاشرے کی پہچان ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح کا پرتشدد احتجاج لاہور میں وکلا نے کیا، وہ تو معاشرے کو ترقی کے بجائے تنزلی کی کھائی میں لے جائے گا۔ ہم تو نیا پاکستان ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ کیا کہ آگے بڑھنے کے بجائے ریورس گیئر لگ رہا ہے معاشرتی ترقی کو۔ موقف میں وکلا ہوسکتا ہے درست بھی ہوں، لیکن جس طرح کا اندازِ احتجاج انہوں نے اپنایا ہے یہ تو جہالت کی نشانی ہے۔ پڑھے لکھے جاہل شاید ایسے ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ نے تشدد کو ہی احتجاج کا حصہ بنانا ہے تو کل کو کوئی مزدور یا ریڑھی بان بھی ایسے احتجاج کی راہ اپنائے جس میں تشدد شامل ہو تو ہم اس سے کیا گلہ کرسکیں گے؟ ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی اکائیاں ہی اگر گالم گلوچ کا راستہ اپنائیں گی تو اَن پڑھ افراد سے پھر ہم کیسا گلہ کر پائیں گے؟

تعلیم ہمیں معاشرے کا کارآمد فرد بننا سکھاتی ہے۔ جاہل اور صاحب علم میں ایک واضح فرق ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ، اَن پڑھ لوگوں سے زیادہ ریخت کا باعث بن رہے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ہو، وکلا ہوں، معاشرے کے دیگر پڑھے لکھے افراد ہوں، ہر کوئی احتجاج میں تشدد، ریخت، ابتری کا پہلو لازمی نکال لیتا ہے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے کے اَن پڑھ طبقہ میں شمار ہونے والے افراد معاشرتی ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف احساس اپنائے ہوئے ہیں، بلکہ وہ معاشرے میں مثبت کردار بھی ادا کررہے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ کہ ایسا ہوا بھی پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے ہے۔ جو دلیل کی بات کرتے ہیں وہ ہاتھ چلانا کیوں ضروری سمجھنے لگے ہیں۔ دلیل میں وزن نہیں رہا یا اثر باقی نہیں ہے۔ کیا ہمارا معاشرہ اسی نہج پر آگے بڑھے گا؟

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسی طرح معاشرہ آگے بڑھتا رہا تو کسی بلندی کے بجائے پستی کی کھائی میں جاگرے گا۔ اَن پڑھ معاشرتی اکائیاں یہ تصور کیے رکھتی ہیں کہ پڑھا لکھا طبقہ ان کی ترقی کےلیے کردار ادا کرے گا۔ ایوان میں پڑھے لکھے افراد بہتر قانون سازی کریں گے تو وکلا، ڈاکٹر، انجینئرز، سائنسدان معاشرے کو ان کےلیے مثبت انداز میں تعمیر کریں گے۔ لیکن جب یہی پڑھا لکھا طبقہ اپنے لہجے، گفتگو، احتجاج کو جاہلانہ انداز سے بیان کرنے کا وتیرہ اپنائے گا تو سمجھ نہیں آتا کہ معاشرہ کیسے مثبت راہ پر سفر جاری رکھ سکے گا اور کیسے ترقی کرپائے گا؟

اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوگی ہی، بلکہ ہمیں عالمی سطح پر کئی دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اور ہمیں بچانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا کہ ہم خود آپ اپنا گریباں چاک کیے ہوئے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں