ڈوب کر ابھرنے والا
وہ بات جو کل زمانہ اور پرسوں آنے والی نسل کررہی ہوگی اسے ہم آج کیوں نہ کرلیں۔
عمران کے لیے لاہور کا مینار پاکستان والا جلسہ ڈوبتے سیاست دان کو ابھارگیا۔ 2011میں موسم ایسا تھا کہ گرمی رخصت ہورہی تھی اور سردی آنے والی تھی۔ پندرہ سال کے انتظار کے بعد ایک کرکٹر نے سیاست میں اہمیت اختیار کی تھی۔ پھر لوگ جوق در جوق پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو قارئین نہ جانتے ہوں۔ انتخابات میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ نے عمران کو مستقبل کے وزیراعظم کی دوڑ میں سر فہرست کردیا۔ اب سب سے زیادہ انحصار کپتان کی خیبر پختونخوا میں کارکردگی پر ہوگا۔ جب ہم ایک بڑے سیاست دان کی بات کررہے ہیں تو کیوں نہ اس کی زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں پر نظر ڈالیں۔.
وہ بات جو کل زمانہ اور پرسوں آنے والی نسل کررہی ہوگی اسے ہم آج کیوں نہ کرلیں۔ ہم صرف ایک سیاست دان کے ماضی میں نہیں جھانکیںگے بلکہ اس سے ہم اس کے مستقبل کے کاموں کا اندازہ کرسکیںگے۔ اب ہمیں عمران پسند ہو یا ناپسند، ہم اس سے محبت کرتے ہوں یا بے زاری کا اظہار، مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب پاکستان کی ضرورت بن چکا ہے۔ دہشت گردی، مہنگائی، عوام تک اختیارات کی منتقلی ایسے معاملات ہیں جن پر کپتان کی رائے سب سے مختلف ہے۔ ''سب کو آزمایا ہے تو اب عمران کو بھی آزمائیں'' یہ کہنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ پہلے ہم آج کے سیاست دانوں کی ''کوچہ شہرت'' میں آمد کا موازنہ عمران سے کریںگے اور اس کے بعد کپتان کی بالکل ابتدائی کتاب سے ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریںگے۔ عمران کی وہ تصنیف جو سن 83میں شایع ہوئی تھی۔ پہلے پاکستانی سیاست دانوں کی عوام میں واقفیت کی کہانی۔
بے نظیر بھٹو اور عمران وہ سیاست دان ہیں جنھیں عوام ستر کے عشرے سے جانتے ہیں۔ خاتون سیاست دان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انھوںنے بین الاقوامی شہرت شملہ جاکر اندرا گاندھی سے ملاقات کرکے حاصل کی۔ ان ہی دنوں میں عمران کرکٹ ٹیم میں آمد کے لیے جد وجہد کررہے تھے۔ 76میں سڈنی کی بارہ وکٹیں اور آسٹریلیا کے مقابل پاکستان کی کامیابی نے عمران کی شہرت کو ہزاروں انسانوں تک پھیلادیا۔ 85کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد نواز شریف نے پنجاب کا وزیراعلیٰ بن کر شہرت کمائی، قاضی حسین ان ہی دنوں میں جماعت کے امیر بنے۔ الطاف حسین نے سندھ کے شہری علاقوں سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد شہرت کے گراف کو چھوا یہی دور تھا جب آصف زرداری کی بے نظیر سے شادی نے انھیں بین الاقوامی شہرت عطاکی۔ یہی وہ عشرہ تھا جب مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت سیاست کے میدان کے کھلاڑی بنے۔ 90کے عشرے میں اسفندیار ولی اور طاہر القادری پاکستانی سیاست میں مشہور ہوئے۔ گویا عمران تمام سیاست دانوں سے دس بیس سال آگے ہیں۔ ذاتی قابلیت کی بنیاد پر شہرت کے حوالے سے پاکستان کا کوئی سیاست دان عمران کا ہم سر ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
کرکٹ ٹیم کی لازمی ضرورت بن جانے کی بدولت عمران خان مسلسل اہمیت اختیار کرتے گئے۔ ہم سن 83میں شایع ہونے والی کتاب کے حوالے سے عمران کو سمجھنے کی کوشش کریںگے۔ یہ وہ دور تھا جب عمران نے نہ ورلڈ کپ جیتا تھا اور نہ اس کی امید تھی۔ پہلی امید 87میں تھی جو پوری نہ ہوئی اور پھر وہ سن 92آیا جس میں عمران نے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوایا۔ ہماری کہانی میں نہ کینسر اسپتال ہوگا اور نہ نمل یونیورسٹی کہ یہ سب کچھ کتاب کی اشاعت کے دس بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ہم تحریک انصاف کے قائد کو تیس سال قبل لکھی گئی کتاب کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تین عشروں نے حالات کو کہیں کا کہیں پہنچادیا ہے۔ نوجوان فاسٹ بولر اب پاکستان کا صف اول کا سیاست دان بن چکا ہے۔
وہ ایک صوبے میں حکومتی پارٹی کا سربراہ ہے پوری قوم کی نظریں پاکستان کے شمال مغرب کی جانب ہیں۔ پٹھانوں کی سر زمین پر بھی نظر ہے اور پٹھان پر بھی۔ ہمارے کالم میں آنے والی باتیں بظاہر کرکٹ کی ہوں گی لیکن اہم مقصد کتاب کی روشنی میں ایک شخصیت کو سمجھنا ہے۔ کچھ لوگ اس تجزیے سے خوش ہوںگے اور کچھ کہیںگے کہ عمران کو خواہ مخواہ بلند مرتبے پر فائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کتاب کی مدد سے عمران کو سمجھنے کا مقصد پاکستان میں آنے والے دنوں میں بہتری کے امکان کو سمجھناہے۔ ایک ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت کا جائزہ لینا ہے کہ یہ لیڈر کن خصوصیات کا حامل ہے اور کیسی خامیوں کو لیے ہوئے ہے۔ اگر وہ ملک کی قیادت کرتاہے تو ہمیں بحرانوں سے نکال پائے گا؟ آیئے The Autobiography of Imran Khan کی مدد سے عمران کے لڑکپن اور جوانی میں جھانکتے ہیں۔
جاوید برکی اور ماجد خان آئیڈیل تھے، لاہور کا زمان پارک اور کرکٹ کی ابتدا فرسٹ کلاس کرکٹ لاہور کی طرف سے کھیلی۔ سن 71میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کھیلا لیکن اچھا تاثر نہ چھوڑسکے۔ یہ چالیس سال قبل کی مایوس کن ابتدا تھی۔ بطور فاسٹ بولر نہ خوب صورت رن اپ اور نہ شاندار بولنگ ایکشن۔ محنت سے ردھم حاصل کیا اور بیٹنگ پر توجہ کی۔ خواب تھا کہ پاکستانی ٹیم میں اپنی جگہ بنائوں۔ آکسفورڈ میں تعلیم اور کرکٹ ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ مضمون تھے، سیاست اور معیشت۔ 74میں پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا موقع ملا تو پرفارمنس بہتر تھی۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے والا اور بہتری کی جانب بڑھنے کا جذبہ رکھنے والا کیا پاکستان کی سیاسی ومعاشی خامیوں کو دور کرسکے گا؟
ورلڈ کپ 75کے بارے میں عمران کی رائے ہے کہ ہم جیت جاتے اگر اعصاب کو مضبوط رکھتے۔ کائونٹی نے عمران کو بڑی رقم کی پیشکش کی۔ وہ کہتے ہیں کہ رقم میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ راضی نہ ہونے پر ڈرانے کے لیے ذاتی حملہ کیا۔ وہ لالچ اور خوف کو استعمال کررہے تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں پاک بھارت مقابلے شروع ہوئے۔ اب عمران ورلڈ کلاس بولر تھے۔ لاہور ٹیسٹ میں 100منٹ میں ایک سو پچیس رنز بنائے تھے۔ چوتھے نمبر پر جب بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا تو بیدی کے دو چھکوں اور ایک چوکے نے معاملہ طے کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لاہور ٹیسٹ کے بعد میں راتوں رات اسٹار بن گیا۔ چند دنوں بعد ہم نے کراچی میں بھی میچ جیت لیا۔ عمران نے لاہور و کراچی میں ابتدائی جلسے کرنے اور پھر پاکستان کے دونوں بڑے شہروں سے بڑی تعداد میں ووٹ لے کر منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے۔ شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی ہو جو بیک وقت دونوں شہروں میں مقبول ہو۔
''فیئر پلے'' کے لیے غیر جانبدار امپائر کی تجویز سب سے پہلے عمران نے دی۔ دیکھیں کہ تیس سال قبل لکھی گئی کتاب میں وہ کیا کہتے ہیں ''نیوزی لینڈ میں امپائرنگ سے شکایات پیدا ہوئیں۔ دنیا میں ان کا کمزور ترین معیار تھا۔ میں نے پہلے دفعہ سمجھاکہ غیر جانبدار امپائرنگ مسئلے کا حل ہے۔ اس سے کرکٹ بڑی حد تک معیاری ہوجائے گی۔ ہر مرحلے پر مہمان ٹیم کو جیتنے کے لیے زیادہ کارکردگی دکھانی پڑتی ہے'' اب پاکستانی انتخابات میں ایمانداری کو اپنانے کی تجویز بھی وہیں سے آرہی ہے۔
کپتانی کا تاج عمران کے سر پر کس طرح سجا؟ یہ سمجھ کر ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کو اہم ذمے داریاں ملیں تو معاملات کو کس طرح سنبھالا جائے گا۔ میانداد اور ماجد ایک دوسرے پر متفق نہ تھے۔ یوں دو بڑے کھلاڑیوں کی لڑائی میں مجھے پیشکش کی گئی۔ دو دن بعد کمنٹیٹر افتخار احمد سے مشورہ کیا تو انھوںنے ذمے داری لینے کی مخالفت کی۔ میری دلیل تھی کہ جو آل رائونڈر ہوتاہے وہ بولر اور بلے باز دونوں کو سمجھتاہے۔ میں نے ذمے داری قبول کی۔ ٹیم کے انتخاب میں میری بات فیصلہ کن ہوتی۔ میں نے طے کیا کہ اگر ہم ناکام ہوئے تو بطور کپتان میں ذمے داری قبول کروں گا'' اب دیکھتے ہیں کہ ایک صوبے میں عمران کس طرح کرپشن کا خاتمہ کرتے ہیں۔ بہتر گورننس دیتے ہیں اور کس طرح اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچاتے ہیں۔
Merit ''وہ میری ناکامی کے منتظر تھے۔ میں نے طے کیا کہ ہر کھلاڑی کو میرٹ پر منتخب کیاجائے گا۔ میں دفاعی کے بجائے جارحانہ فیلڈ پلیسنگ کا قائل تھا۔ اب ہماری ٹیم زیادہ متحد تھی۔ میں خوش تھا کہ کپتانی کے باوجود میری کارکردگی خراب نہ تھی۔ ہمارے کھلاڑی بہترین ہیں لیکن سسٹم کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوتے۔ یہ ہے وہ کتاب جو ایک کرکٹ کھلاڑی نے کپتانی کے ابتدائی دور میں لکھی تھی۔ یہ ایک سیاست دان کو سمجھنے کے لیے بہتر ہے۔ ہارون الرشید صاحب کو اس کتاب کا بھی ترجمہ کرنا چاہیے۔ اس سے پاکستان کے لوگ اندازہ کرسکیںگے کہ ابتدا میں پہلے کرکٹ اور پھرکینسر اسپتال میں ناکام ہونے والا کس طرح کامیاب ہوا۔ وہ جان سکیںگے کہ سیاست کے میدان میں پندرہ سال تک ناکام رہنے والے نے کیا کیا؟ اب کیا تیرے گا ہر شعبے میں ہمیشہ ڈوب کر ابھرنے والا!!
وہ بات جو کل زمانہ اور پرسوں آنے والی نسل کررہی ہوگی اسے ہم آج کیوں نہ کرلیں۔ ہم صرف ایک سیاست دان کے ماضی میں نہیں جھانکیںگے بلکہ اس سے ہم اس کے مستقبل کے کاموں کا اندازہ کرسکیںگے۔ اب ہمیں عمران پسند ہو یا ناپسند، ہم اس سے محبت کرتے ہوں یا بے زاری کا اظہار، مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب پاکستان کی ضرورت بن چکا ہے۔ دہشت گردی، مہنگائی، عوام تک اختیارات کی منتقلی ایسے معاملات ہیں جن پر کپتان کی رائے سب سے مختلف ہے۔ ''سب کو آزمایا ہے تو اب عمران کو بھی آزمائیں'' یہ کہنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ پہلے ہم آج کے سیاست دانوں کی ''کوچہ شہرت'' میں آمد کا موازنہ عمران سے کریںگے اور اس کے بعد کپتان کی بالکل ابتدائی کتاب سے ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریںگے۔ عمران کی وہ تصنیف جو سن 83میں شایع ہوئی تھی۔ پہلے پاکستانی سیاست دانوں کی عوام میں واقفیت کی کہانی۔
بے نظیر بھٹو اور عمران وہ سیاست دان ہیں جنھیں عوام ستر کے عشرے سے جانتے ہیں۔ خاتون سیاست دان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انھوںنے بین الاقوامی شہرت شملہ جاکر اندرا گاندھی سے ملاقات کرکے حاصل کی۔ ان ہی دنوں میں عمران کرکٹ ٹیم میں آمد کے لیے جد وجہد کررہے تھے۔ 76میں سڈنی کی بارہ وکٹیں اور آسٹریلیا کے مقابل پاکستان کی کامیابی نے عمران کی شہرت کو ہزاروں انسانوں تک پھیلادیا۔ 85کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد نواز شریف نے پنجاب کا وزیراعلیٰ بن کر شہرت کمائی، قاضی حسین ان ہی دنوں میں جماعت کے امیر بنے۔ الطاف حسین نے سندھ کے شہری علاقوں سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد شہرت کے گراف کو چھوا یہی دور تھا جب آصف زرداری کی بے نظیر سے شادی نے انھیں بین الاقوامی شہرت عطاکی۔ یہی وہ عشرہ تھا جب مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت سیاست کے میدان کے کھلاڑی بنے۔ 90کے عشرے میں اسفندیار ولی اور طاہر القادری پاکستانی سیاست میں مشہور ہوئے۔ گویا عمران تمام سیاست دانوں سے دس بیس سال آگے ہیں۔ ذاتی قابلیت کی بنیاد پر شہرت کے حوالے سے پاکستان کا کوئی سیاست دان عمران کا ہم سر ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
کرکٹ ٹیم کی لازمی ضرورت بن جانے کی بدولت عمران خان مسلسل اہمیت اختیار کرتے گئے۔ ہم سن 83میں شایع ہونے والی کتاب کے حوالے سے عمران کو سمجھنے کی کوشش کریںگے۔ یہ وہ دور تھا جب عمران نے نہ ورلڈ کپ جیتا تھا اور نہ اس کی امید تھی۔ پہلی امید 87میں تھی جو پوری نہ ہوئی اور پھر وہ سن 92آیا جس میں عمران نے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوایا۔ ہماری کہانی میں نہ کینسر اسپتال ہوگا اور نہ نمل یونیورسٹی کہ یہ سب کچھ کتاب کی اشاعت کے دس بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ہم تحریک انصاف کے قائد کو تیس سال قبل لکھی گئی کتاب کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تین عشروں نے حالات کو کہیں کا کہیں پہنچادیا ہے۔ نوجوان فاسٹ بولر اب پاکستان کا صف اول کا سیاست دان بن چکا ہے۔
وہ ایک صوبے میں حکومتی پارٹی کا سربراہ ہے پوری قوم کی نظریں پاکستان کے شمال مغرب کی جانب ہیں۔ پٹھانوں کی سر زمین پر بھی نظر ہے اور پٹھان پر بھی۔ ہمارے کالم میں آنے والی باتیں بظاہر کرکٹ کی ہوں گی لیکن اہم مقصد کتاب کی روشنی میں ایک شخصیت کو سمجھنا ہے۔ کچھ لوگ اس تجزیے سے خوش ہوںگے اور کچھ کہیںگے کہ عمران کو خواہ مخواہ بلند مرتبے پر فائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کتاب کی مدد سے عمران کو سمجھنے کا مقصد پاکستان میں آنے والے دنوں میں بہتری کے امکان کو سمجھناہے۔ ایک ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت کا جائزہ لینا ہے کہ یہ لیڈر کن خصوصیات کا حامل ہے اور کیسی خامیوں کو لیے ہوئے ہے۔ اگر وہ ملک کی قیادت کرتاہے تو ہمیں بحرانوں سے نکال پائے گا؟ آیئے The Autobiography of Imran Khan کی مدد سے عمران کے لڑکپن اور جوانی میں جھانکتے ہیں۔
جاوید برکی اور ماجد خان آئیڈیل تھے، لاہور کا زمان پارک اور کرکٹ کی ابتدا فرسٹ کلاس کرکٹ لاہور کی طرف سے کھیلی۔ سن 71میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کھیلا لیکن اچھا تاثر نہ چھوڑسکے۔ یہ چالیس سال قبل کی مایوس کن ابتدا تھی۔ بطور فاسٹ بولر نہ خوب صورت رن اپ اور نہ شاندار بولنگ ایکشن۔ محنت سے ردھم حاصل کیا اور بیٹنگ پر توجہ کی۔ خواب تھا کہ پاکستانی ٹیم میں اپنی جگہ بنائوں۔ آکسفورڈ میں تعلیم اور کرکٹ ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ مضمون تھے، سیاست اور معیشت۔ 74میں پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا موقع ملا تو پرفارمنس بہتر تھی۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے والا اور بہتری کی جانب بڑھنے کا جذبہ رکھنے والا کیا پاکستان کی سیاسی ومعاشی خامیوں کو دور کرسکے گا؟
ورلڈ کپ 75کے بارے میں عمران کی رائے ہے کہ ہم جیت جاتے اگر اعصاب کو مضبوط رکھتے۔ کائونٹی نے عمران کو بڑی رقم کی پیشکش کی۔ وہ کہتے ہیں کہ رقم میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ راضی نہ ہونے پر ڈرانے کے لیے ذاتی حملہ کیا۔ وہ لالچ اور خوف کو استعمال کررہے تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں پاک بھارت مقابلے شروع ہوئے۔ اب عمران ورلڈ کلاس بولر تھے۔ لاہور ٹیسٹ میں 100منٹ میں ایک سو پچیس رنز بنائے تھے۔ چوتھے نمبر پر جب بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا تو بیدی کے دو چھکوں اور ایک چوکے نے معاملہ طے کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لاہور ٹیسٹ کے بعد میں راتوں رات اسٹار بن گیا۔ چند دنوں بعد ہم نے کراچی میں بھی میچ جیت لیا۔ عمران نے لاہور و کراچی میں ابتدائی جلسے کرنے اور پھر پاکستان کے دونوں بڑے شہروں سے بڑی تعداد میں ووٹ لے کر منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے۔ شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی ہو جو بیک وقت دونوں شہروں میں مقبول ہو۔
''فیئر پلے'' کے لیے غیر جانبدار امپائر کی تجویز سب سے پہلے عمران نے دی۔ دیکھیں کہ تیس سال قبل لکھی گئی کتاب میں وہ کیا کہتے ہیں ''نیوزی لینڈ میں امپائرنگ سے شکایات پیدا ہوئیں۔ دنیا میں ان کا کمزور ترین معیار تھا۔ میں نے پہلے دفعہ سمجھاکہ غیر جانبدار امپائرنگ مسئلے کا حل ہے۔ اس سے کرکٹ بڑی حد تک معیاری ہوجائے گی۔ ہر مرحلے پر مہمان ٹیم کو جیتنے کے لیے زیادہ کارکردگی دکھانی پڑتی ہے'' اب پاکستانی انتخابات میں ایمانداری کو اپنانے کی تجویز بھی وہیں سے آرہی ہے۔
کپتانی کا تاج عمران کے سر پر کس طرح سجا؟ یہ سمجھ کر ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کو اہم ذمے داریاں ملیں تو معاملات کو کس طرح سنبھالا جائے گا۔ میانداد اور ماجد ایک دوسرے پر متفق نہ تھے۔ یوں دو بڑے کھلاڑیوں کی لڑائی میں مجھے پیشکش کی گئی۔ دو دن بعد کمنٹیٹر افتخار احمد سے مشورہ کیا تو انھوںنے ذمے داری لینے کی مخالفت کی۔ میری دلیل تھی کہ جو آل رائونڈر ہوتاہے وہ بولر اور بلے باز دونوں کو سمجھتاہے۔ میں نے ذمے داری قبول کی۔ ٹیم کے انتخاب میں میری بات فیصلہ کن ہوتی۔ میں نے طے کیا کہ اگر ہم ناکام ہوئے تو بطور کپتان میں ذمے داری قبول کروں گا'' اب دیکھتے ہیں کہ ایک صوبے میں عمران کس طرح کرپشن کا خاتمہ کرتے ہیں۔ بہتر گورننس دیتے ہیں اور کس طرح اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچاتے ہیں۔
Merit ''وہ میری ناکامی کے منتظر تھے۔ میں نے طے کیا کہ ہر کھلاڑی کو میرٹ پر منتخب کیاجائے گا۔ میں دفاعی کے بجائے جارحانہ فیلڈ پلیسنگ کا قائل تھا۔ اب ہماری ٹیم زیادہ متحد تھی۔ میں خوش تھا کہ کپتانی کے باوجود میری کارکردگی خراب نہ تھی۔ ہمارے کھلاڑی بہترین ہیں لیکن سسٹم کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوتے۔ یہ ہے وہ کتاب جو ایک کرکٹ کھلاڑی نے کپتانی کے ابتدائی دور میں لکھی تھی۔ یہ ایک سیاست دان کو سمجھنے کے لیے بہتر ہے۔ ہارون الرشید صاحب کو اس کتاب کا بھی ترجمہ کرنا چاہیے۔ اس سے پاکستان کے لوگ اندازہ کرسکیںگے کہ ابتدا میں پہلے کرکٹ اور پھرکینسر اسپتال میں ناکام ہونے والا کس طرح کامیاب ہوا۔ وہ جان سکیںگے کہ سیاست کے میدان میں پندرہ سال تک ناکام رہنے والے نے کیا کیا؟ اب کیا تیرے گا ہر شعبے میں ہمیشہ ڈوب کر ابھرنے والا!!