پنجاب پبلک لائبریری لاہور…
موجودہ نسل علم کے بجائے انفارمیشن کے حصول میں سرگرداں ہے۔
ISLAMABAD:
دنیا کے نامور دانشور، فلاسفر اور سائنسدانوں نے مشترکہ اور متفقہ طور پر اس حقیقت کو بخوبی تسلیم کیا ہے کہ "Knowledge is Power" یعنی ''علم طاقت ہے'' اور علم بے پناہ وسعتوں میں پھیلا ایک ایسا سمندر ہے جس کو حاصل کرنے میں انسان زندگی کا بیشتر قیمتی حصہ صرف کردیتا ہے۔ علم کا حصول صرف اور صرف بنیادی اکیڈمک تعلیم کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلیم کے بعد ہی اس کا درست سمت میں آغاز ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نصابی اور غیر نصابی کتب کا بغور مطالعہ ہی علم میں اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مطالعے کی عادت انسان کی ذہنی نشوونما اور اس کی زندگی میں ہونے والے مشاہدات اور تجربات میں پنہاں ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز اسی مشہور عالمی قول ''علم طاقت ہے'' میں مضمر ہے۔ جدید دور سائنس و ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مزین ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت انٹرنیٹ متعارف ہوا، جس نے دنیا کو گلوبل ولیج کی جدید شکل دیتے ہوئے ہر قسم کا کم سے کم وقت میں وافر مقدار میں معلوماتی مواد فراہم کیا۔
موجودہ نسل علم کے بجائے انفارمیشن کے حصول میں سرگرداں ہے۔ یاد رکھیے! علم کے حصول کا صرف اور صرف واحد ذریعہ کتاب ہے، انفارمیشن نہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ حیران کن ایجاد کے باوجود ''کتاب'' کا اب تک کوئی نعم البدل نہیں مل سکا۔ حال ہی میں لندن کے بکنگھم پیلس میں معروف مصنف ''جوانے ہیرس'' کو انٹرویو دیتے ہوئے ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم نے کمپیوٹر گیمز اور ای بکس کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ کتاب کی افادیت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ان کا اندازہ تھا کہ نئی نسل ای بکس سے کسی قسم کا استفادہ حاصل نہیں کرپا رہی ہے بلکہ اسے بھی کھیل ہی سمجھتی ہے۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حصول علم ایک سنجیدہ عمل ہے جو کتاب کے مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن میں قائم عالمی قومی کتب خانہ ''برٹش لائبریری'' امریکا کی لائبریری آف کانگریس کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قائم پنجاب پبلک لائبریری، مغلیہ اور برطانوی دور کی یاد دلاتی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور قدیم ترین یہ لائبریری شہر کے مصروف ترین کمرشل اور تعلیمی حصہ میں مغلیہ طرز کی تعمیر شدہ عمارت ''بارہ دری گورنر وزیر خان'' کے نام سے موسوم تھی جو اس وقت کے مغل شنہشاہ شاہجہان اور پنجاب حکومت کے باہمی تعاون سے 1884 میں قائم ہوئی۔ مال روڈ سے ملحق لائبریری روڈ پر واقع اس لائبریری کے اطراف میں قومی عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس (NCA)، پنجاب یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس، گورنمنٹ کالج، ناصر باغ، پرانا ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارت، مشہور انارکلی بازار، ایم اے او کالج اور ٹائون ہال جیسے اہم مقامات واقع ہیں۔ تحقیق و تخلیق کے اس عظیم الشان مطالعاتی مرکز میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق کتب کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ بے شمار میگزین، اخبارات، رپورٹس اور دستی تحریروں کے تقریباً 1893 مجموعات، 25 اقسام کے جرنلز کا وافر ذخیرہ مطالعے کے لیے ہر وقت دستیاب رہتا ہے۔
علم کے شہر لاہور میں موجود علم کے قصر نے اپنی انتظامی خدمات کی وسعتوں کا دائرہ کار 16 سیکشنز میں تقسیم کیا ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ ایکوزیشن، ٹیکنیکل، سرکولیشن، ریفرنس، بیت القرآن، چلڈرن، اورینٹل، کمپیوٹر اور ای لائبریری، ایوا(AVA)، بائنڈری (Bindery)، اکائونٹ، ہندی/ گرومکھی/ سنسکرت، ریکارڈ، گزٹ/ رپورٹ، پرانے اخبارات/ میگزین بریلی (Braille) اور اس کے علاوہ بک ریزرویشن، فوٹو کاپی، لائبریری کیٹلاگ، ریڈر/ ریفرنس سروسز لائبریری کی جانب سے بلاتفریق فراہمی ہے۔ کلچرل سرگرمیوں کا انعقاد لائبریری انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔ HEC کی ڈیجیٹل لائبریری پروگرام کے ذریعے لائبریری کو ڈیجیٹل رسائی کی سہولت بھی حاصل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبائی حکومت اخراجات کی مد میں 43 ملین سالانہ گرانٹ ادا کرتی ہے۔ ممبر شپ کی مد میں وصول ہونے والی قلیل رقم بھی لائبریری کی آمدنی میں معمولی اضافے کا سبب ہے۔ ممبر شپ کی چار اقسام ہیں، 1۔ جنرل، 2۔ طلباء و طالبات، (3) چائلڈ، (4) لائف ممبرشپ۔ مبلغ 5000 روپے لائف ممبر شپ کی مد میں ایک عطیہ ہے۔ کتابوں، رسائل یا کسی قسم کے معلوماتی مواد کا رضاکارانہ طور پر لائبریری کو عطیہ قابل قبول ہے۔
لائبریری میں ''رفعت سلطانہ میموریل کلیکشن'' کے نام سے ایک یونٹ بھی قائم ہے جس میں تقریباً نو ہزار کتب سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ممتاز اسکالر ڈاکٹر ممتاز حسن نے اپنی بیٹی رفعت سلطانہ کے نام لائبریری کو عطیہ کے طور پر پیش کی تھیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر عبدالقادر، محمود علی قصوری، عبدالحامد اور ڈاکٹر اظہر علی کے ناموں سے موسوم کلیکشن یونٹس بھی قائم ہیں۔ لائبریری کے انتظام کو چلانے کے لیے ایک 13 رکنی بورڈ آف گورنر قائم ہے جس کا سربراہ صدر کہلاتا ہے۔ اس کے انتظامی معاملات بحسن خوبی چلانے کے لیے ایس اینڈ جی اے ڈی (آرکائیوز اینڈ لائبریری ونگز)، حکومت پنجاب کی ذمے داری میں شامل ہے۔ پرانے اخبارات کا ریکارڈ باقاعدہ جلدی شکل میں ترتیب دینے کا مرحلہ لائبریری کو پاکستان کی بڑی بڑی لائبریریوں سے ممتاز کرتا ہے۔ لائبریری میں رکھی گئی تاثرات کی کتاب سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ یورپین ممالک برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، اٹلی اور پڑوسی ملک بھارت کی ذی علم اہم اور اعلیٰ شخصیات کی قابل ذکر تعداد مختلف اوقات میں اس لائبریری کا دورہ کرچکی ہے۔
ایک ملاقات میں لائبریری کی روح رواں اور چیف محترمہ عذرا عثمان نے اپنے اس قوی عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ تمام اخبارات کے کالم نویسوں کی تحریروں کے مجموعے سی ڈی کی شکل میں ایک علیحدہ یونٹس کے قیام کے ساتھ ساتھ کالم نویسوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور تبادلہ خیال کے لیے لائبریری میں سالانہ پروگرام کے انعقاد کی بھی خواہاں ہیں۔ راقم کی اس کالم کے توسط سے لائبریری کی اعلیٰ انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اس عمارت کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس سے ملحق چوراہوں پر مناسب رہنمائی کے لیے اشارتی بورڈ نصب کردیے جائیں تاکہ نئے آنے والوں کو باآسانی رسائی ممکن ہوسکے۔