لاڑکانہ نئی حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں کا عدم اعتماد
عدالت سے رجوع کا فیصلہ، بد امنی، منشیات فروشی، جعلی ادویات ، صحت و صفائی کی ابتر صورت حال کے خلاف عوامی ریلی
سندھ اسمبلی میں نئے بلدیاتی نظام کا بل منظور ہوئے خاصا عرصہ گزرچکا ہے، تاہم سپریم کورٹ کے احکامات پر27 نومبر کو منعقدہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ نے نئی حلقہ بندیاں مکمل کرلی ہیں۔
جس کے مطابق لاڑکانہ شہر کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن بنانے کے لیے 20 نئی یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ہیں۔ رتو ڈیرو میں میونسپل کمیٹی قائم کرکے 20 وارڈ اور نوڈیرو میونسپل کمیٹی بنا کر 18وارڈ بنائے گئے ہیں۔ ڈوکری، باڈہ اور گیریلو کو ٹائون کمیٹیوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ جب کہ ڈوکری میں 5، باڈہ میں سات اور گیریلو میں 3وارڈ بنائے گئے ہیں۔ باقرانی شہر جو کہ تعلقہ ہیڈ کواٹر ہے جہاں پہلے تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریشن قائم تھی، اب یہ درجہ واپس لے کر باقرانی کو فقط یونین کونسل کا درجہ دیا گیا ہے، جس پر اب تک شہریوں کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ، دوسری جانب لاڑکانہ تعلقہ سمیت رتو ڈیرو، باقرانی اور ڈوکری تحصیلوں کے دیہی علاقوں پر مشتمل کل 43 یونین کونسلز قائم کی گئی ہیں، جو ضلع کونسل کے ماتحت ہوںگی۔ نئی یونین کونسلز قائم کرنے سے لاڑکانہ ضلع کے دیہی علاقوں میں16یونین کونسلز کا اضافہ ہوا ہے۔
اس سے پہلے لاڑکانہ ضلع میں شہری اور دیہی علاقوں پر مشتمل کل یونین کونسلز کی تعداد 44 تھی ، جن میں 27 دیہاتوں اور 17شہری حلقوں پر مشتمل تھیں۔ ان میں سے لاڑکانہ شہر میں 11، رتو ڈیرو شہر میں 2، نوڈیرو، ڈوکری، باڈہ اور گیریلو میں 1,1 یونین کونسل کو ختم کر کے شہروں میں یونین کمیٹیاں اور وارڈز تشکیل دیئے گئے ہیں، جس سے 17یونین کونسلز ختم ہوگئیں، جب کہ دیہی علاقوں پر مشتمل 16یونین کونسلز کا اضافہ کر کے ضلع میں نئی یونین کونسلز کی تعداد 43 کر دی گئی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی فہرستیں، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عوامی اعتراضات کے خدشات کے پیش نظرتاخیر سے آویزاں کی گئیں تاکہ کم سے کم اعتراضات داخل کرائے جا سکیں۔ ن لیگ، مسلم لیگ فنکشنل، جے یو آئی، سندھ دوست عوامی اتحاد سمیت مختلف سیاسی جماعتیں نئی حلقہ بندیوں کی تیار فہرستیں تاخیر سے آویزاں کرنے کو ابھی سے پاکستان پیپلز پارٹی کی دھاندلی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے کے بیانات دے رہی ہیں۔
لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے حلقہ بندیوں کا عمل تو مکمل کر لیا گیا ہے تاہم اس عمل میں شہریوں کی رائے کو یک سر نظر انداز کیا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اس حوالے سے عوامی رائے بھی نہیں لی گئی، جس سے حلقہ بندیوں کاعمل مشکوک ہوچکا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کی جو فہرستیں تیار کر کے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ آفس میں آویزاں کی گئی ہیں ان فہرستوں میں بے شمار غلطیاں سامنے آئی ہیں جس کے بعد لاڑکانہ میں یہ عمل مشکوک قرار دیا جارہا ہے ۔ ابتدائی طور پر آویزاں کی گئی فہرستوں میں یونین کونسل فتح پور کے گاؤں بارانی مغیری کو دیہہ کنگا اور دیہہ چوہڑ پور میں الگ الگ شامل کیا گیا ہے اسی طرح مذکورہ یوسی کے گاؤں سچے بخش جاگیرانی کو یوسی فتح پور اور کوٹھی کلہوڑو میں دو مرتبہ شامل کیا گیا ہے ، جب کہ مختلف تحصیلوں کی یونین کونسلز کے دیہاتوں کے نام ایک سے زائد بار الگ الگ دیہوں میں لکھے گئے ہیں، بیشتر دیہاتوں کے نام فہرستوں سے غائب ہیں ،اہم بات یہ بھی ہے کہ ڈپٹی کمشنر آفس سے اب تک یہ فہرستیں الیکشن کمیشن میں بھی جمع نہیں کروائی گئیں، ڈپٹی کمشنر آفس کے مطابق ان فہرستوں کی تیاری میں ٹائپنگ کی غلطیاں ہیں ، جنہیں درست کر کے فہرستیں الیکشن کمیشن کے حوالے کردی جائیں گی۔
دوسری جانب لاڑکانہ کی سیاسی جماعتوں ن لیگ ، فنکشنل لیگ سمیت دیگر نے جلد بازی میں کی گئی غلط حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہوئے وفاق اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس عمل کا نوٹس لے کر حلقہ بندیوں کے عمل کو شفاف بنائیں، رات کے اندھیرے میں سیاسی مداخلت اور احکامات پر سرکاری دفاتروں میںحلقہ بندیاں کی گئی ہیں اور حلقوں کا دورہ کر کے عوامی رائے نہیں لی جارہی، مستقبل قریب میں لاڑکانہ کے عوام کے لیے بلدیاتی انتخابات کیا نوید لاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم اس وقت دو سابق وزراء اعظم کے اس شہر کے باسی زندگی کی بجائے موت کے طلب گار بنتے جا رہے ہیں اور شہریوں کو اس نہج تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کی مبینہ کرپشن ہے۔
چند روز قبل بھی لاڑکانہ میں بڑھتی بد امنی، منشیات فروشی،گندگی، بے روزگاری سمیت دیگر بنیادی مسائل حل نہ کرنے کے خلاف سندھ دوست عوامی اتحاد کی جانب سے ذوالفقار باغ سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کی سربراہی سماجی رہنما سردار فدا حسین گوپانگ ، سید دیدار حسین شاہ ، اعجاز علی شاہ اور دیگر نے کی، ریلی شہر کے مختلف راستوں حیدری محلہ،گجن پور محلہ، بینک اسکوائر، بندر روڈ، پاکستانی چوک سے ہوتی ہوئی جناح باغ چوک پہنچ کر جلسے کی صورت اختیار کر گئی، جس میں سینکڑو ں افراد نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھاکر جناح باغ چوک پر دھرنا دیا۔ رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان منتخب نمائندوں کا ضمیر مر چکا ہے کہ انہیں اپنے قائدین کے شہر کا کوئی خیال نہیں، انہیں شرم آنی چاہیے کہ انہوں نے لاڑکانہ کو ماڈل ضلع بنانے کی بجائے موئن جو داڑو بنادیا ہے شہرکھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے، جہاںصفائی ہے اور نا ہی نکاسی آب کا بہتر نظام، بد امنی کے علاوہ منشیات فروشی عروج پر ہے، زہریلی شراب کے باعث متعدد ہلاکتوںکے باوجود ایک بار پھرشراب کی دکانیںکھول دی گئی ہیں ، لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ اورموجودہ حکومت کے منتخب نمائندوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث شہر جہنم بنتا جا رہا ہے۔
اس وقت لاڑکانہ منشیات فروشوں کا گڑھ بن چکا ہے، حال ہی میں زہریلی شراب کے باعث آٹھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور دیگر اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں جعلی ادویات کے استعمال کا انکشاف خود کمشنر لاڑکانہ نے چند روز پہلے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا ہے ،شہریوں کا دیرینہ مطالبہ صٖفائی اور ستھرائی بھی پورا نہیں کیا جارہا اور بنیادی سہولیات شہریوں کے لیے خواب بن گئی ہیں،ضلع کے کئی اسکول بند ہیں اور جو دیہاتوں میں چل رہے ہیں وہاں تعلیم معیاری نہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاڑکانہ میں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے، نساسک اور میونسپل کارپوریشن اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں مکمل ناکام ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی نساسک کے ساتھ 2018 تک کا نیا معاہدہ کرلیا گیا ہے ،رہنماؤں کا کہنا تھا کہ محرم الحرام کے بعد اس احتجاجی تحریک کو جاری رکھا جائے گا ۔
ایک جانب شہری پریشان ہیں تو دوسری جانب موجودہ حکومت کے لاڑکانہ سے منتخب نمائندوں اور اہم عہدیداروں کی بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور افسران سے ناجائز کام کروانے کے باعث لاڑکانہ ایمان دار ضلعی افسران کے لیے جہنم بن گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں میں کئی ایمان دار افسران نے لاڑکانہ میں اپنی تعیناتی کے دو یا تین ماہ بعد ہی یہاں سے اپنا تبادلہ کروانا بہتر سمجھا، ان افسران میں سابق کمشنر لاڑکانہ غلام مصطفی پھل ،سابق ڈی آئی جی لاڑکانہ جاوید عالم اوڈو، سابق ڈپٹی کمشنر عمر فاروق سمیت پانچ سے زاید افسران شامل ہیں، باوثوق ذرائع کے مطابق عیدالا ضحیٰ پرنوڈیرو ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور صوبائی کابینہ کے وزراء کی موجودی کے دوران کئی افسران کے نوڈیرو ہاؤس میں داخلہ سے قبل ان کی نہ صرف تلاشی لی گئی بلکہ انہیں باہرکھڑا کر کے اندر سے اجازت طلب کی جاتی رہی، اس موقع پر ضلعی انتظامیہ کے ایک ا فسر اور نوڈیرو ہاؤس کے ملازم کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، جس کے بعد ضلعی انتظامیہ کے چند اہم افسران نے لاڑکانہ سے تبادلے کے لیے حکومت سندھ کو درخواستیں ارسال کردی ہیں ،جس پرچند اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر چند با اثر سیاسی شخصیات اور ان کے کارندوں کی جانب سے افسران سے سرکاری و نجی دورے کے لیے ہزاروں روپے پیٹرول کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں جب کہ ناجائز کاموں کے لیے بھی مجبور کیا جاتا ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ مذکورہ مسائل کو فوری حل کرے بصورت دیگر بلدیاتی انتخابات میں انہیں پریشانی کے علاوہ مایوسی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے ۔
جس کے مطابق لاڑکانہ شہر کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن بنانے کے لیے 20 نئی یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ہیں۔ رتو ڈیرو میں میونسپل کمیٹی قائم کرکے 20 وارڈ اور نوڈیرو میونسپل کمیٹی بنا کر 18وارڈ بنائے گئے ہیں۔ ڈوکری، باڈہ اور گیریلو کو ٹائون کمیٹیوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ جب کہ ڈوکری میں 5، باڈہ میں سات اور گیریلو میں 3وارڈ بنائے گئے ہیں۔ باقرانی شہر جو کہ تعلقہ ہیڈ کواٹر ہے جہاں پہلے تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریشن قائم تھی، اب یہ درجہ واپس لے کر باقرانی کو فقط یونین کونسل کا درجہ دیا گیا ہے، جس پر اب تک شہریوں کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ، دوسری جانب لاڑکانہ تعلقہ سمیت رتو ڈیرو، باقرانی اور ڈوکری تحصیلوں کے دیہی علاقوں پر مشتمل کل 43 یونین کونسلز قائم کی گئی ہیں، جو ضلع کونسل کے ماتحت ہوںگی۔ نئی یونین کونسلز قائم کرنے سے لاڑکانہ ضلع کے دیہی علاقوں میں16یونین کونسلز کا اضافہ ہوا ہے۔
اس سے پہلے لاڑکانہ ضلع میں شہری اور دیہی علاقوں پر مشتمل کل یونین کونسلز کی تعداد 44 تھی ، جن میں 27 دیہاتوں اور 17شہری حلقوں پر مشتمل تھیں۔ ان میں سے لاڑکانہ شہر میں 11، رتو ڈیرو شہر میں 2، نوڈیرو، ڈوکری، باڈہ اور گیریلو میں 1,1 یونین کونسل کو ختم کر کے شہروں میں یونین کمیٹیاں اور وارڈز تشکیل دیئے گئے ہیں، جس سے 17یونین کونسلز ختم ہوگئیں، جب کہ دیہی علاقوں پر مشتمل 16یونین کونسلز کا اضافہ کر کے ضلع میں نئی یونین کونسلز کی تعداد 43 کر دی گئی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی فہرستیں، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عوامی اعتراضات کے خدشات کے پیش نظرتاخیر سے آویزاں کی گئیں تاکہ کم سے کم اعتراضات داخل کرائے جا سکیں۔ ن لیگ، مسلم لیگ فنکشنل، جے یو آئی، سندھ دوست عوامی اتحاد سمیت مختلف سیاسی جماعتیں نئی حلقہ بندیوں کی تیار فہرستیں تاخیر سے آویزاں کرنے کو ابھی سے پاکستان پیپلز پارٹی کی دھاندلی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے کے بیانات دے رہی ہیں۔
لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے حلقہ بندیوں کا عمل تو مکمل کر لیا گیا ہے تاہم اس عمل میں شہریوں کی رائے کو یک سر نظر انداز کیا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اس حوالے سے عوامی رائے بھی نہیں لی گئی، جس سے حلقہ بندیوں کاعمل مشکوک ہوچکا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کی جو فہرستیں تیار کر کے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ آفس میں آویزاں کی گئی ہیں ان فہرستوں میں بے شمار غلطیاں سامنے آئی ہیں جس کے بعد لاڑکانہ میں یہ عمل مشکوک قرار دیا جارہا ہے ۔ ابتدائی طور پر آویزاں کی گئی فہرستوں میں یونین کونسل فتح پور کے گاؤں بارانی مغیری کو دیہہ کنگا اور دیہہ چوہڑ پور میں الگ الگ شامل کیا گیا ہے اسی طرح مذکورہ یوسی کے گاؤں سچے بخش جاگیرانی کو یوسی فتح پور اور کوٹھی کلہوڑو میں دو مرتبہ شامل کیا گیا ہے ، جب کہ مختلف تحصیلوں کی یونین کونسلز کے دیہاتوں کے نام ایک سے زائد بار الگ الگ دیہوں میں لکھے گئے ہیں، بیشتر دیہاتوں کے نام فہرستوں سے غائب ہیں ،اہم بات یہ بھی ہے کہ ڈپٹی کمشنر آفس سے اب تک یہ فہرستیں الیکشن کمیشن میں بھی جمع نہیں کروائی گئیں، ڈپٹی کمشنر آفس کے مطابق ان فہرستوں کی تیاری میں ٹائپنگ کی غلطیاں ہیں ، جنہیں درست کر کے فہرستیں الیکشن کمیشن کے حوالے کردی جائیں گی۔
دوسری جانب لاڑکانہ کی سیاسی جماعتوں ن لیگ ، فنکشنل لیگ سمیت دیگر نے جلد بازی میں کی گئی غلط حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہوئے وفاق اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس عمل کا نوٹس لے کر حلقہ بندیوں کے عمل کو شفاف بنائیں، رات کے اندھیرے میں سیاسی مداخلت اور احکامات پر سرکاری دفاتروں میںحلقہ بندیاں کی گئی ہیں اور حلقوں کا دورہ کر کے عوامی رائے نہیں لی جارہی، مستقبل قریب میں لاڑکانہ کے عوام کے لیے بلدیاتی انتخابات کیا نوید لاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم اس وقت دو سابق وزراء اعظم کے اس شہر کے باسی زندگی کی بجائے موت کے طلب گار بنتے جا رہے ہیں اور شہریوں کو اس نہج تک پہنچانے والے کوئی اور نہیں لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کی مبینہ کرپشن ہے۔
چند روز قبل بھی لاڑکانہ میں بڑھتی بد امنی، منشیات فروشی،گندگی، بے روزگاری سمیت دیگر بنیادی مسائل حل نہ کرنے کے خلاف سندھ دوست عوامی اتحاد کی جانب سے ذوالفقار باغ سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کی سربراہی سماجی رہنما سردار فدا حسین گوپانگ ، سید دیدار حسین شاہ ، اعجاز علی شاہ اور دیگر نے کی، ریلی شہر کے مختلف راستوں حیدری محلہ،گجن پور محلہ، بینک اسکوائر، بندر روڈ، پاکستانی چوک سے ہوتی ہوئی جناح باغ چوک پہنچ کر جلسے کی صورت اختیار کر گئی، جس میں سینکڑو ں افراد نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھاکر جناح باغ چوک پر دھرنا دیا۔ رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان منتخب نمائندوں کا ضمیر مر چکا ہے کہ انہیں اپنے قائدین کے شہر کا کوئی خیال نہیں، انہیں شرم آنی چاہیے کہ انہوں نے لاڑکانہ کو ماڈل ضلع بنانے کی بجائے موئن جو داڑو بنادیا ہے شہرکھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے، جہاںصفائی ہے اور نا ہی نکاسی آب کا بہتر نظام، بد امنی کے علاوہ منشیات فروشی عروج پر ہے، زہریلی شراب کے باعث متعدد ہلاکتوںکے باوجود ایک بار پھرشراب کی دکانیںکھول دی گئی ہیں ، لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ اورموجودہ حکومت کے منتخب نمائندوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث شہر جہنم بنتا جا رہا ہے۔
اس وقت لاڑکانہ منشیات فروشوں کا گڑھ بن چکا ہے، حال ہی میں زہریلی شراب کے باعث آٹھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور دیگر اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں جعلی ادویات کے استعمال کا انکشاف خود کمشنر لاڑکانہ نے چند روز پہلے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا ہے ،شہریوں کا دیرینہ مطالبہ صٖفائی اور ستھرائی بھی پورا نہیں کیا جارہا اور بنیادی سہولیات شہریوں کے لیے خواب بن گئی ہیں،ضلع کے کئی اسکول بند ہیں اور جو دیہاتوں میں چل رہے ہیں وہاں تعلیم معیاری نہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاڑکانہ میں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے، نساسک اور میونسپل کارپوریشن اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں مکمل ناکام ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی نساسک کے ساتھ 2018 تک کا نیا معاہدہ کرلیا گیا ہے ،رہنماؤں کا کہنا تھا کہ محرم الحرام کے بعد اس احتجاجی تحریک کو جاری رکھا جائے گا ۔
ایک جانب شہری پریشان ہیں تو دوسری جانب موجودہ حکومت کے لاڑکانہ سے منتخب نمائندوں اور اہم عہدیداروں کی بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور افسران سے ناجائز کام کروانے کے باعث لاڑکانہ ایمان دار ضلعی افسران کے لیے جہنم بن گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں میں کئی ایمان دار افسران نے لاڑکانہ میں اپنی تعیناتی کے دو یا تین ماہ بعد ہی یہاں سے اپنا تبادلہ کروانا بہتر سمجھا، ان افسران میں سابق کمشنر لاڑکانہ غلام مصطفی پھل ،سابق ڈی آئی جی لاڑکانہ جاوید عالم اوڈو، سابق ڈپٹی کمشنر عمر فاروق سمیت پانچ سے زاید افسران شامل ہیں، باوثوق ذرائع کے مطابق عیدالا ضحیٰ پرنوڈیرو ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور صوبائی کابینہ کے وزراء کی موجودی کے دوران کئی افسران کے نوڈیرو ہاؤس میں داخلہ سے قبل ان کی نہ صرف تلاشی لی گئی بلکہ انہیں باہرکھڑا کر کے اندر سے اجازت طلب کی جاتی رہی، اس موقع پر ضلعی انتظامیہ کے ایک ا فسر اور نوڈیرو ہاؤس کے ملازم کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، جس کے بعد ضلعی انتظامیہ کے چند اہم افسران نے لاڑکانہ سے تبادلے کے لیے حکومت سندھ کو درخواستیں ارسال کردی ہیں ،جس پرچند اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر چند با اثر سیاسی شخصیات اور ان کے کارندوں کی جانب سے افسران سے سرکاری و نجی دورے کے لیے ہزاروں روپے پیٹرول کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں جب کہ ناجائز کاموں کے لیے بھی مجبور کیا جاتا ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ مذکورہ مسائل کو فوری حل کرے بصورت دیگر بلدیاتی انتخابات میں انہیں پریشانی کے علاوہ مایوسی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے ۔