سزا یافتہ شخص باہر جاسکتا ہے تو آصف زرداری بھی ضمانت کے حقدار ہیں وزیرداخلہ
نواز شریف کے باہر جانے کے معاملے میں اچھی مثال قائم نہیں ہوئی، اعجازشاہ
وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ ایک سزا یافتہ شخص باہر جا سکتا ہے تو آصف زرداری بھی ضمانت کے حقدار ہیں۔
ایکسپریس نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے میں ڈیل ہے نہ ڈھیل ہے، ان کا باہر جانا حالات کی ستم ظریفی ہے اور کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہوئی، ان کے باہر جانے سے ہمارے اپنے ووٹ بینک پر اثر پڑا ہے، میں عدالت یا حکومت کو اس معاملے میں قصوروار نہیں ٹھہراتا لیکن جب چند افراد علاج کے لیے باہر جاتے ہیں تو لگتا ہے یہاں دو قانون ہیں، بیماری کی وجہ سے نام ای سی ایل سے نکالنا دو قانون ہونے پر مہر لگانا ہے۔
اعجازشاہ نے کہا کہ برطانیہ میں نوازشریف کے دو بیٹے، بیٹی، داماد اور بہت لوگ موجود ہیں، مریم نواز کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اگر نوازشریف 4 ہفتوں میں واپس نہیں آتے تو وہ پنجاب حکومت سے رابطہ کریں گے، پنجاب حکومت نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ دیکھ کر فیصلہ کرے گی اور اپنے بندے بھیج کر میڈیکل چیک اپ دیکھ سکتی ہے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ آصف زرداری کے خلافانوسٹی گیشن ہو رہی ہے ان کے خلاف ابھی ریفرنس دائر نہیں ہوا نہ ہی انہیں سزا ہوئی، ایک سزا یافتہ شخص باہر جا سکتا ہے تو آصف زرداری بھی ضمانت کے حقدار ہیں، میں ڈاکٹر ہوں نہ آصف زرداری سے ملا لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ واقعی بیماری ہیں، اللہ کرے وہ صحت مند ہوں اور پھر ٹرائل میں آئیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آصف زرداری عدالت گئے میڈیکل بورڈ بنا جس کی سفارش پر ضمانت ملی، ان کی رہائی سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی ان کی رہائی میں لین دین کی کوئی بات ہے، میں نے کہا تھا ان کے لئے این آر او نہیں ہے اور اگر وہ پری بارگین یا پلی بارگین میں پیسے دے دیں تو ٹھیک ہے، پری بارگین حکومت نہیں نیب کرتی ہے اور نیب ہم سے پوچھ کر کسی سے پری بارگین یا پلی بارگیں نہیں کرے گی، نیب قانون کے مطابق حکومت کو بتانے یا پوچھنے کی پابند نہیں۔
اعجاز شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو سندھ کے حوالے سے بہت تشویش ہے، سندھ میں گورننس کے مسائل موجود ہیں جب کہ پنجاب میں مضبوط اپوزیشن کے باجود ہم نے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی، جس کا مطلب ہے سندھ سے بہتر گورننس ہے، پنجاب میں آبادی کے تناسب سے جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں، شخصیت کو نہ دیکھا جائے اس کی کارکردگی کو دیکھا جائے، کوئی بتا دے کہ پنجاب میں کیا مسئلہ ہے؟ گزشتہ روز ہونے والے لاہور واقعے کے علاوہ پنجاب میں اللہ کا بڑا کرم ہے۔
اعجازشاہ کا کہنا تھا کہ کراچی اور لاہور کا تقابل کرلیں، کراچی والے تو اپنا کچرا نہیں اٹھا سکتے، کراچی میں تجاوزات، بھتہ خوری، ڈکیتیاں ،اغوا برائے تاوان جیسے جرائم عام ہیں، ہم چاہتے ہیں کراچی میں مداخلت کی نوبت ہی نہ آئے اور مفاہمت سے حکومت چلے۔ سندھ میں فارورڈ بلاک کی باتیں ویسے ہی ہیں، سیاستدان جب اکٹھے بیٹھتے ہیں تو سیاسی باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہا لاہورواقعہ کو کیا نام دوں، معاشرے کے سب سے پڑھے لکھے طبقے وکلا اور ڈاکٹرز اگر ایسے ہوں تو ہماری سول سوسائٹی کے علمبرداروں کو سوچنا ہوگا کہ معاشرہ کتنا گر چکا ہے اور ہماری پستی کا یہ عالم ہے کہ ہم بیماروں کو بھی معاف نہیں کرتے، معاشرے میں برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ اسپتال پر حملے کی مثال تو پہلی جنگ عظیم سمیت تمام جنگوں میں نہیں ملتی کہ کسی نے اسپتالوں کو نشانہ بنایا ہو، اسپتالوں پر تو دشمن کے جہاز بھی بمباری نہیں کرتے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ واقعہ کے دو مقدمات ایک پولیس اور دوسرا اسپتال انتظامیہ کی جانب سے درج ہو چکے ہیں اور 40 وکلا کی شناخت ہوچکی ہے، بس اب بہت ہوچکی ہے اب قانون کو اپنا راستہ لینا ہو گا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ انکوائری میں پتہ چلے گا کہ غلطی کہاں سے ہوئی ہے، دونوں اطراف سے جو بھی ملوث ہوا سخت کارروائی ہوگی، اگر انتظامیہ میں سے بھی کوئی غفلت کا مرتکب پایا گیا تو سخت کارروائی ہوگی ، حکومت واقعہ کے بعد ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، کوشش کریں گے مستقبل میں بھی ایسی کوئی حرکت نہیں ہو۔
ایکسپریس نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے میں ڈیل ہے نہ ڈھیل ہے، ان کا باہر جانا حالات کی ستم ظریفی ہے اور کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہوئی، ان کے باہر جانے سے ہمارے اپنے ووٹ بینک پر اثر پڑا ہے، میں عدالت یا حکومت کو اس معاملے میں قصوروار نہیں ٹھہراتا لیکن جب چند افراد علاج کے لیے باہر جاتے ہیں تو لگتا ہے یہاں دو قانون ہیں، بیماری کی وجہ سے نام ای سی ایل سے نکالنا دو قانون ہونے پر مہر لگانا ہے۔
اعجازشاہ نے کہا کہ برطانیہ میں نوازشریف کے دو بیٹے، بیٹی، داماد اور بہت لوگ موجود ہیں، مریم نواز کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اگر نوازشریف 4 ہفتوں میں واپس نہیں آتے تو وہ پنجاب حکومت سے رابطہ کریں گے، پنجاب حکومت نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ دیکھ کر فیصلہ کرے گی اور اپنے بندے بھیج کر میڈیکل چیک اپ دیکھ سکتی ہے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ آصف زرداری کے خلافانوسٹی گیشن ہو رہی ہے ان کے خلاف ابھی ریفرنس دائر نہیں ہوا نہ ہی انہیں سزا ہوئی، ایک سزا یافتہ شخص باہر جا سکتا ہے تو آصف زرداری بھی ضمانت کے حقدار ہیں، میں ڈاکٹر ہوں نہ آصف زرداری سے ملا لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ واقعی بیماری ہیں، اللہ کرے وہ صحت مند ہوں اور پھر ٹرائل میں آئیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آصف زرداری عدالت گئے میڈیکل بورڈ بنا جس کی سفارش پر ضمانت ملی، ان کی رہائی سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی ان کی رہائی میں لین دین کی کوئی بات ہے، میں نے کہا تھا ان کے لئے این آر او نہیں ہے اور اگر وہ پری بارگین یا پلی بارگین میں پیسے دے دیں تو ٹھیک ہے، پری بارگین حکومت نہیں نیب کرتی ہے اور نیب ہم سے پوچھ کر کسی سے پری بارگین یا پلی بارگیں نہیں کرے گی، نیب قانون کے مطابق حکومت کو بتانے یا پوچھنے کی پابند نہیں۔
اعجاز شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو سندھ کے حوالے سے بہت تشویش ہے، سندھ میں گورننس کے مسائل موجود ہیں جب کہ پنجاب میں مضبوط اپوزیشن کے باجود ہم نے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی، جس کا مطلب ہے سندھ سے بہتر گورننس ہے، پنجاب میں آبادی کے تناسب سے جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں، شخصیت کو نہ دیکھا جائے اس کی کارکردگی کو دیکھا جائے، کوئی بتا دے کہ پنجاب میں کیا مسئلہ ہے؟ گزشتہ روز ہونے والے لاہور واقعے کے علاوہ پنجاب میں اللہ کا بڑا کرم ہے۔
اعجازشاہ کا کہنا تھا کہ کراچی اور لاہور کا تقابل کرلیں، کراچی والے تو اپنا کچرا نہیں اٹھا سکتے، کراچی میں تجاوزات، بھتہ خوری، ڈکیتیاں ،اغوا برائے تاوان جیسے جرائم عام ہیں، ہم چاہتے ہیں کراچی میں مداخلت کی نوبت ہی نہ آئے اور مفاہمت سے حکومت چلے۔ سندھ میں فارورڈ بلاک کی باتیں ویسے ہی ہیں، سیاستدان جب اکٹھے بیٹھتے ہیں تو سیاسی باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہا لاہورواقعہ کو کیا نام دوں، معاشرے کے سب سے پڑھے لکھے طبقے وکلا اور ڈاکٹرز اگر ایسے ہوں تو ہماری سول سوسائٹی کے علمبرداروں کو سوچنا ہوگا کہ معاشرہ کتنا گر چکا ہے اور ہماری پستی کا یہ عالم ہے کہ ہم بیماروں کو بھی معاف نہیں کرتے، معاشرے میں برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ اسپتال پر حملے کی مثال تو پہلی جنگ عظیم سمیت تمام جنگوں میں نہیں ملتی کہ کسی نے اسپتالوں کو نشانہ بنایا ہو، اسپتالوں پر تو دشمن کے جہاز بھی بمباری نہیں کرتے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ واقعہ کے دو مقدمات ایک پولیس اور دوسرا اسپتال انتظامیہ کی جانب سے درج ہو چکے ہیں اور 40 وکلا کی شناخت ہوچکی ہے، بس اب بہت ہوچکی ہے اب قانون کو اپنا راستہ لینا ہو گا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ انکوائری میں پتہ چلے گا کہ غلطی کہاں سے ہوئی ہے، دونوں اطراف سے جو بھی ملوث ہوا سخت کارروائی ہوگی، اگر انتظامیہ میں سے بھی کوئی غفلت کا مرتکب پایا گیا تو سخت کارروائی ہوگی ، حکومت واقعہ کے بعد ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، کوشش کریں گے مستقبل میں بھی ایسی کوئی حرکت نہیں ہو۔