مٹھی بھر صہیونی ارض ِفلسطین پر کیسے قابض ہوئے
وادی کشمیر میں بھی صہیونی پلان پہ عمل کرنے کا بھارتی منصوبہ طشت از بام
یہ مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر کا مشہور محلہ ہے۔ محلے کی دیوار پر پینٹ سے جلی حروف میں ''فلسطین زندہ باد'' لکھا ہے۔ سامنے کی دیوار پر ''غزہ کو آزاد کرو'' کے الفاظ لکھے دکھائی دیتے اور پڑھنے والوں کا لہو گرماتے ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان پہلے بیت خدا' مسجد الاقصی کی وجہ سے فلسطین کو مقدس سرزمین سمجھتے ہیں۔ مگر اہل کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں میں ایک اور قدر مشترک ہے... دونوں پچھلے کئی عشروں سے غاصب قوتوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ جمو ں و کشمیر کے مسلمان بے جگری سے اسرائیلی اور بھارتی سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن دشمن کی عسکری طاقت اور عیارانہ سازشوں کے باعث ان کی جدوجہد آزادی اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔پچھلے ماہ نیویارک کے بھارتی قونصل جنرل نے بیان دیا کہ بھارت بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندو بستیاں بسا سکتا ہے۔ اس بیان پر حکومت پاکستان اور اہل کشمیر نے سخت احتجاج کیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم رکن نے یہ بیان کیوں دیا؟ وجہ یہ کہ صہیونیوں نے ارض فلسطین میں یہودی بستیاں بسا کر ہی اس پر قبضہ جمایا۔ یہ وہ بنیادی ہتھیار ہے جسے اپنا کر انھوں نے فلسطین ہڑپ کیا اور لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔
صہیونی آج بھی اسی شاطرانہ چال کے ذریعے مغربی کنارے کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں جہاں مستقبل میں آزاد ریاست فلسطین کے قیام کی نوید سنائی جاتی ہے۔فلسطین پر صہیونی قبضے کی داستان حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔ یہ عیا ں کرتی ہے کہ مسلم اشرافیہ کے بعض ارکان نے بھی انجانے میں یا جانتے بوجھتے صہیونیوں کو فلسطین ہڑپ کرنے میںمدد دی۔ پیسے کی کشش نے انہیں اندھا کر دیا اور وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ صہیونی اپنی دولت کے بل بوتے پر فلسطینی زمینوں پہ قبضہ جما مسلمانوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے' صہیونی وہ یہودی ہیں جنہوںنے انیسویں صدی میں قیام اسرائیل کی خاطر ایک مذہبی ' سیاسی و عسکری تحریک کا آغاز کیا۔
اسلامی ممالک میں پناہ ملی
یہود عظیم پیغمبروں کے پیروکار ہیں جن پر مسلمان بھی ایمان رکھتے ہیں۔ مگر یہود وقتاً فوقتاً خدائی احکامات ماننے سے انکار کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے ان پر عذاب بھی نازل ہوئے۔ کبھی بابلی لشکر نے یہود کا قتل عام کیا تو کبھی فارسی فوج نے انہیں غلام بنا لیا۔ رومیوںنے فلسطین پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس ہی سے نکال باہر کیا۔
یہود ہی حضرت عیسیٰؑ کے قاتل تھے۔ اسی لیے فلسطین پر عیسائیوں کی حکومت آئی تو انہوںنے بھی ان سے برا سلوک کیا۔پانچ سو سال بعد جب حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مسلم لشکر نے فلسطین فتح کیا'تب یہود کو بیت المقدس آنے کی اجازت ملی۔خلیفہ دوم نے انہیں ارض فلسطین پر آباد ہونے کی بھی اجازت دے دی۔مغرب میں یہود سے نفرت کی جاتی تھی۔ ان کے ساتھ عیسائی عوام کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ اس لیے بہت سے یہود نے اسلامی ممالک میں پناہ لی جہاں وہ جزیہ دے کر امن ' شہری حقوق اور آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔
یہودی امرا کا ظہور
سہولہویں صدی میں یورپ میں یہودی بینکار و سرمایہ کار خاندانوں کا ظہور ہوا جو یورپی حکومتوں اور تنظیموں کو سود پر قرضے دینے لگے۔ اب حکومتوں سے لے کر اداروں تک ہر کوئی مالی طور پر ان کا محتاج ہو گیا۔ اس تبدیلی نے یہودی بینکار خاندانوں کا دنیائے مغرب میں اثر و رسوخ بڑھا دیا۔ انسیویں صدی تک روتھ شیلڈ (یورپ) مونٹے فیورے' سمیوئل مونٹیگو اور ارنسٹ کاسل (برطانیہ) جیکب شیف' فلپ لیہمان اور مارکس گولڈ مین (امریکا) مغربی دنیا میں امیر کبیر یہودی خاندان بن چکے تھے۔ یہ سرمایہ کاری' بینکاری اور کاروبار سے منسلک تھے۔
انیسویں صدی میں درج بالا خاندان ہی مالی طور پر ان یہودی لیڈروں کی مدد کرنے لگے جو فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ یہود ہی ارض فلسطین کے اصل مالک ہیں لہٰذا انہیں وہاں اپنی ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان یہود ہی کو ''صہیونی '' کہا گیا۔ ان صیہونیوں کو برطانیہ و امریکا میں بعض عیسائی مذہبی لیڈر بھی بطور سرپرست مل گئے۔پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے یہ مذہبی لیڈر سمجھتے تھے کہ جب بیت المقدس میں یہود اپنا ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کر لیں گے تبھی حضرت عیسیٰؑ بھی دوبارہ زمین پر آئیں گے۔ اسی لیے لیڈر صہیونیوں کی ہر ممکن مدد کرنے لگے تاکہ وہ بیت المقدس پر قبضہ کر کے وہاں نیا ہیکل تعمیر کر سکیں۔ صیہونیوں کے حمایتی یہ لیڈر اب ''صہیونی عیسائی' کہلاتے ہیں۔
پہلی یہودی بستی کی تعمیر
صہیونی رہنما کسی ایسے طریق کار کی تلاش میں تھے جس کے ذریعے فلسطین مسلمانوں سے چھینا جا سکے۔ باہمی مشاورت سے یہ طریقہ واردات دریافت ہوا کہ فلسطین میں مسلمانوں سے زمین خرید کر وہاں یہودی بستیاں قائم کر دی جائیں۔ یوںان بستیوں کی بدولت رفتہ رفتہ فلسطین میں یہود کے قصبے اور پھر شہر وجود میں آ جاتے۔
مستقبل میں انہی قصبات اور شہروں کی بنیاد پر یہودی ریاست کا قیام عمل میں آ سکتا تھا۔ ان یہودی بستیوں میں دنیا بھر سے یہود لا کر بسائے جانے تھے۔ یورپ و شمالی امریکا کے بعض یہودی امرا کو یہ منصوبہ قابل عمل نہیں لگا تاہم اسے روتھ شیلڈ خاندان کے ایک اہم رکن' ایڈمنڈ جیمز (متوفی 1934ء) کی حمایت حاصل ہو گئی۔ وہ فرانس کا یہودی بینکار تھا۔
ایڈمنڈ جیمز نے پھر صیہونی لیڈروں کو منہ مانگا سرمایہ فراہم کیا جس سے فلسطین کے ساحلی علاقے میں''12ہزار ایکڑ'' زمین خریدی گئی۔ اسی زمین پر صہیونیوں نے 1883ء میں فلسطین میں پہلی یہودی بستی بسائی جو ''پتاح تکفا''(Petah Tikva ) کہلاتی ہے۔ آج یہ بستی ایک شہر کا روپ دھار چکی۔ یہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے دس کلو میٹر دور واقع ہے۔ عملی طور پر تل ابیب ہی کا حصہ بن چکا۔ پتاح تکفا کے قیام سے ارض فلسطین پر صہیونی قبضے کے پلان کا آغاز ہو گیا۔صہیونیوں نے 1878ء میں پتاح تکفا کی زمین خریدی تھی۔ تب فلسطین عثمانی ترک سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔
ترک عثمانی حکمران کبھی یہود پر مہربان ہوجاتے تھے اور کبھی نامہربان۔ بہرحال ان کے دور حکومت میں یہود امن و امان سے زندگی گزارتے رہے۔ ان کی اکثریت بیت المقدس میں آباد تھی۔ عثمانی ترکوں کی سرکاری پالیسی یہ تھی کہ کوئی غیر ملکی فلسطین میں زمین نہیں خرید سکتا۔ 1858ء میں عثمانی ترک حکومت نے ایک نیا قانون، لینڈ کوڈ متعارف کرایا۔ مقصد یہ تھا کہ سلطنت میں جو زمینیں نجی ملکیت میں ہیں، ان کے مالکان کا ایک رجسٹر بنایا جاسکے۔
جاگیرداروں نے فائدہ اٹھایا
فلسطین میں امیر کبیر جاگیردار اور زمین دار خاندان بیشتر زمینوں کے مالک تھے۔ ان خاندانوں کی اکثریت شہروں مثلاً دمشق، بیروت، بیت المقدس، یافہ وغیرہ میں آباد تھی۔ ان کی زمینوں پر مسلمان کسان کاشتکاری کرتے تھے۔ کئی کسان خاندان صدیوں سے زمینوں پر آباد تھے۔
عملی طور پر وہی ان زمینوں کے مالک بن چکے تھے لیکن اپنی ناخواندگی کے سبب وہ زمینوں کی ملکیت کے حق سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہوا یہ کہ مسلم کاشتکار لینڈ کوڈ کی اہمیت سے ناواقف تھے۔ ان کی ناواقفیت سے شہروں میں آباد جاگیردار گھرانوں نے فائدہ اٹھایا اور فلسطین میں بیشتر زمین اپنے نام کروالی۔یوں زیادہ فلسطینی زمینیں مٹھی بھر جاگیردارخاندانوں کی ملکیت ہوگئیں۔ اس تبدیلی سے صہیونی لیڈروں کو بہت فائدہ پہنچا کیونکہ وہ چند جاگیرداروں کو اپنے جال میں پھانس کر ان سے ہزارہا ایکڑ زمین حاصل کرسکتے تھے۔ عام مسلمان کسان انہیں کبھی اپنی زمینیں فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔
پتاح تکفا سے قبل وہاں مسلمانوں کا ایک گاؤں، ملبس واقع تھا۔ گاؤں اور قرب و جوار میں کھیتوں کی زمین یافہ کے دو عیسائی جاگیرداروں، انطون بشاراتیان اور سلیم قصار کی ملکیت تھی۔ صہیونی لیڈروں نے انہی سے زمینیں خریدیں اور مسلم کاشکاروں کو نکال کر اپنی بستی تعمیر کرلی۔ یہ عین ممکن ہے کہ عثمانی ترک حکومت کے متعلقہ اہل کاروں نے صہیونی لیڈروں سے بھاری رشوت لے کر انہیں ملبس میں بارہ ہزار ایکڑ خریدنے کی اجازت دی ہو۔ فلسطین میں یہود کو اتنی بڑی زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زمین کا بیشتر رقبہ دلدلی تھا۔ اسی لیے حکومت نے یہود کے خریدنے پر اعتراض نہیں کیا۔
تنظیموں کا قیام
ایک یہودی بستی کامیابی سے تعمیر کرنے پر صہیونی لیڈروں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ انہوں نے امیر کبیر یہودی حکمرانوں سے بھاری چندہ لیا اور اسی پیسے سے دو تنظیمیں ''جیوش نیشنل فنڈ'' (Jewish National Fund) اور ''فلسطین جیوش کولوئزیشن ایسوسی ایشن'' (Palestine Jewish Colonization Association) قائم کرلیں۔ ان تنظیموں کی واحد ذمے داری فلسطین میں زیادہ سے زیادہ زمینیں خریدنا تھا۔1918ء میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ تب تک برطانوی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا منصوبہ منظور کرچکی تھی۔
اسی لیے صہیونیوں کو فلسطین میں زمینیں خریدنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔صیہونی لیڈر جب بھی کوئی یہودی بستی بساتے تو وہاں یورپ، افریقا اور ایشیا سے یہودی خاندان بلوا کر آباد کردیتے۔ اس باعث فلسطین میں یہود کی آبادی بھی بڑھتی چلی گئی۔ ترک عثمانی حکومت کے اعددو شمار بتاتے ہیں کہ 1900ء میں فلسطین میں چھ لاکھ افراد بستے تھے۔ ان میں 94 فیصد مسلمان، 5 فیصد عیسائی اور صرف1 فیصد یہودی تھے۔ گویا ان کی تعداد تقریباً چھ سے دس ہزار کے مابین تھی۔ لیکن اگلے پچاس برس میں یہودی بستیوں کی مسلسل تعمیر کے باعث چھ لاکھ سے زائد یہودی فلسطین میں آباد ہوگئے۔
کئی علاقوں میں صیہونیوں نے مسلمان کاشت کاروں کو بے دخل کردیا۔ انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ جب یورپ میں یہود مصائب و مشکلات کا مقابلہ کررہے تھے، تو اسلامی حکومتوں ہی نے انہیں پناہ دی۔ یہود نے مگر احسان کا بدلہ یہ چکایا کہ بڑی مکاری سے مسلمان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔
مسلمانوں کو بہت دیر بعد احساس ہوا کہ صہیونی لیڈر ان کے ساتھ کیسی چال چل گئے۔ انہوں نے پھر صیہونی تنظیموں کو زمین فروخت کرنا بند کردیں مگر تب تک دیر ہوچکی تھی۔ صہیونی لیڈر ان علاقوں میں وسیع زمینیں خرید چکے تھے جہاں آج اسرائیل قائم ہے۔ زیادہ زمینوں کا مالک ہونے کی وجہ سے ہی1947ء میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کا علاقہ تقسیم کیا تو اس کا 56 فیصد حصہ صہیونیوں کو دے دیا۔ مسلمانوں نے اسی بنیادی وجہ سے اقوام متحدہ کا پارٹیشن پلان تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
قانون کا دن دیہاڑے مذاق
1967ء میں اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کے علاقوں، مغربی کنارے بشمول مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر قبضہ کرلیا۔ صہیونی لیڈروں نے ان علاقوں پر قبضہ جمانے کی خاطر وہی پرانا حربہ اختیار کیا اور وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے لگے۔ اب تو انھوں نے مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کی زحمت بھی نہ کی ۔ہزارہا مسلم خاندان زبردستی ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کردیئے گئے جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے۔ زمینوں کے ساتھ مسلمانوں کی سہانی یادیں اور دلکش خواب وابستہ تھے۔
ظالم صہیونیوں نے ان کے سارے لطیف جذبات ملیامیٹ کردیئے جبکہ عالمی قوتیں تماشائی بنی رہیں۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کا ظلم روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔نتیجہ یہ ہے کہ آج اسرائیلی حکومت مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں ڈیڑھ سو یہودی بستیاں تعمیر کرچکی۔ ان میں چھ لاکھ یہودی ناجائز اور غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف سمیت دنیا کی تمام عدالتیں ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دے چکیں مگر اسرائیلی حکومت مسلسل ان کے فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہے۔ یہی نہیں وہ آئے دن مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے اعلان کرتی ہے۔ عالمی طاقتوں کا انصاف اسرائیل کے سامنے غلام بن جاتا ہے۔
بین الاقوامی ضمیر کو اسرائیل کی طاقت کے سامنے سرنگوں دیکھ کر بھارت کی مودی حکومت کا حوصلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی اسرائیل کی دیکھا دیکھی اب مغربی کشمیر میں ہندو بستیاں تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وادی کشمیر میں زیادہ سے زیادہ ہندو بسا کر وہاں مسلم آبادی کا تناسب کم کیا جاسکے۔
اس طرح مستقبل میں جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی اضلاع پر مشتمل آزاد کشمیری ریاست کا قیام بھی کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ امریکا اب یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیرقانونی نہیں سمجھتا۔اس طرح اسرائیل اور بھارت،دونوں کو سپرپاور کی شہ مل گئی کہ وہ اپنی لاقانونیت دھڑلے سے جاری رکھ سکتے ہیں۔عالمی سطح پر بھارت ایسا ملک بن چکا جہاں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں۔عوام کو اس آفت سے بچانے کے بجائے بھارتی حکمران وادی کشمیر پر قبضے کے خواب دیکھتے ہیں۔دلیر کشمیری مگر کبھی ان کا یہ گھناؤنا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔
دنیا بھر کے مسلمان پہلے بیت خدا' مسجد الاقصی کی وجہ سے فلسطین کو مقدس سرزمین سمجھتے ہیں۔ مگر اہل کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں میں ایک اور قدر مشترک ہے... دونوں پچھلے کئی عشروں سے غاصب قوتوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ جمو ں و کشمیر کے مسلمان بے جگری سے اسرائیلی اور بھارتی سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن دشمن کی عسکری طاقت اور عیارانہ سازشوں کے باعث ان کی جدوجہد آزادی اب تک کامیاب نہیں ہو سکی۔پچھلے ماہ نیویارک کے بھارتی قونصل جنرل نے بیان دیا کہ بھارت بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندو بستیاں بسا سکتا ہے۔ اس بیان پر حکومت پاکستان اور اہل کشمیر نے سخت احتجاج کیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم رکن نے یہ بیان کیوں دیا؟ وجہ یہ کہ صہیونیوں نے ارض فلسطین میں یہودی بستیاں بسا کر ہی اس پر قبضہ جمایا۔ یہ وہ بنیادی ہتھیار ہے جسے اپنا کر انھوں نے فلسطین ہڑپ کیا اور لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔
صہیونی آج بھی اسی شاطرانہ چال کے ذریعے مغربی کنارے کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں جہاں مستقبل میں آزاد ریاست فلسطین کے قیام کی نوید سنائی جاتی ہے۔فلسطین پر صہیونی قبضے کی داستان حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔ یہ عیا ں کرتی ہے کہ مسلم اشرافیہ کے بعض ارکان نے بھی انجانے میں یا جانتے بوجھتے صہیونیوں کو فلسطین ہڑپ کرنے میںمدد دی۔ پیسے کی کشش نے انہیں اندھا کر دیا اور وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ صہیونی اپنی دولت کے بل بوتے پر فلسطینی زمینوں پہ قبضہ جما مسلمانوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے' صہیونی وہ یہودی ہیں جنہوںنے انیسویں صدی میں قیام اسرائیل کی خاطر ایک مذہبی ' سیاسی و عسکری تحریک کا آغاز کیا۔
اسلامی ممالک میں پناہ ملی
یہود عظیم پیغمبروں کے پیروکار ہیں جن پر مسلمان بھی ایمان رکھتے ہیں۔ مگر یہود وقتاً فوقتاً خدائی احکامات ماننے سے انکار کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے ان پر عذاب بھی نازل ہوئے۔ کبھی بابلی لشکر نے یہود کا قتل عام کیا تو کبھی فارسی فوج نے انہیں غلام بنا لیا۔ رومیوںنے فلسطین پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس ہی سے نکال باہر کیا۔
یہود ہی حضرت عیسیٰؑ کے قاتل تھے۔ اسی لیے فلسطین پر عیسائیوں کی حکومت آئی تو انہوںنے بھی ان سے برا سلوک کیا۔پانچ سو سال بعد جب حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مسلم لشکر نے فلسطین فتح کیا'تب یہود کو بیت المقدس آنے کی اجازت ملی۔خلیفہ دوم نے انہیں ارض فلسطین پر آباد ہونے کی بھی اجازت دے دی۔مغرب میں یہود سے نفرت کی جاتی تھی۔ ان کے ساتھ عیسائی عوام کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ اس لیے بہت سے یہود نے اسلامی ممالک میں پناہ لی جہاں وہ جزیہ دے کر امن ' شہری حقوق اور آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔
یہودی امرا کا ظہور
سہولہویں صدی میں یورپ میں یہودی بینکار و سرمایہ کار خاندانوں کا ظہور ہوا جو یورپی حکومتوں اور تنظیموں کو سود پر قرضے دینے لگے۔ اب حکومتوں سے لے کر اداروں تک ہر کوئی مالی طور پر ان کا محتاج ہو گیا۔ اس تبدیلی نے یہودی بینکار خاندانوں کا دنیائے مغرب میں اثر و رسوخ بڑھا دیا۔ انسیویں صدی تک روتھ شیلڈ (یورپ) مونٹے فیورے' سمیوئل مونٹیگو اور ارنسٹ کاسل (برطانیہ) جیکب شیف' فلپ لیہمان اور مارکس گولڈ مین (امریکا) مغربی دنیا میں امیر کبیر یہودی خاندان بن چکے تھے۔ یہ سرمایہ کاری' بینکاری اور کاروبار سے منسلک تھے۔
انیسویں صدی میں درج بالا خاندان ہی مالی طور پر ان یہودی لیڈروں کی مدد کرنے لگے جو فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ یہود ہی ارض فلسطین کے اصل مالک ہیں لہٰذا انہیں وہاں اپنی ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان یہود ہی کو ''صہیونی '' کہا گیا۔ ان صیہونیوں کو برطانیہ و امریکا میں بعض عیسائی مذہبی لیڈر بھی بطور سرپرست مل گئے۔پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے یہ مذہبی لیڈر سمجھتے تھے کہ جب بیت المقدس میں یہود اپنا ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کر لیں گے تبھی حضرت عیسیٰؑ بھی دوبارہ زمین پر آئیں گے۔ اسی لیے لیڈر صہیونیوں کی ہر ممکن مدد کرنے لگے تاکہ وہ بیت المقدس پر قبضہ کر کے وہاں نیا ہیکل تعمیر کر سکیں۔ صیہونیوں کے حمایتی یہ لیڈر اب ''صہیونی عیسائی' کہلاتے ہیں۔
پہلی یہودی بستی کی تعمیر
صہیونی رہنما کسی ایسے طریق کار کی تلاش میں تھے جس کے ذریعے فلسطین مسلمانوں سے چھینا جا سکے۔ باہمی مشاورت سے یہ طریقہ واردات دریافت ہوا کہ فلسطین میں مسلمانوں سے زمین خرید کر وہاں یہودی بستیاں قائم کر دی جائیں۔ یوںان بستیوں کی بدولت رفتہ رفتہ فلسطین میں یہود کے قصبے اور پھر شہر وجود میں آ جاتے۔
مستقبل میں انہی قصبات اور شہروں کی بنیاد پر یہودی ریاست کا قیام عمل میں آ سکتا تھا۔ ان یہودی بستیوں میں دنیا بھر سے یہود لا کر بسائے جانے تھے۔ یورپ و شمالی امریکا کے بعض یہودی امرا کو یہ منصوبہ قابل عمل نہیں لگا تاہم اسے روتھ شیلڈ خاندان کے ایک اہم رکن' ایڈمنڈ جیمز (متوفی 1934ء) کی حمایت حاصل ہو گئی۔ وہ فرانس کا یہودی بینکار تھا۔
ایڈمنڈ جیمز نے پھر صیہونی لیڈروں کو منہ مانگا سرمایہ فراہم کیا جس سے فلسطین کے ساحلی علاقے میں''12ہزار ایکڑ'' زمین خریدی گئی۔ اسی زمین پر صہیونیوں نے 1883ء میں فلسطین میں پہلی یہودی بستی بسائی جو ''پتاح تکفا''(Petah Tikva ) کہلاتی ہے۔ آج یہ بستی ایک شہر کا روپ دھار چکی۔ یہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے دس کلو میٹر دور واقع ہے۔ عملی طور پر تل ابیب ہی کا حصہ بن چکا۔ پتاح تکفا کے قیام سے ارض فلسطین پر صہیونی قبضے کے پلان کا آغاز ہو گیا۔صہیونیوں نے 1878ء میں پتاح تکفا کی زمین خریدی تھی۔ تب فلسطین عثمانی ترک سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔
ترک عثمانی حکمران کبھی یہود پر مہربان ہوجاتے تھے اور کبھی نامہربان۔ بہرحال ان کے دور حکومت میں یہود امن و امان سے زندگی گزارتے رہے۔ ان کی اکثریت بیت المقدس میں آباد تھی۔ عثمانی ترکوں کی سرکاری پالیسی یہ تھی کہ کوئی غیر ملکی فلسطین میں زمین نہیں خرید سکتا۔ 1858ء میں عثمانی ترک حکومت نے ایک نیا قانون، لینڈ کوڈ متعارف کرایا۔ مقصد یہ تھا کہ سلطنت میں جو زمینیں نجی ملکیت میں ہیں، ان کے مالکان کا ایک رجسٹر بنایا جاسکے۔
جاگیرداروں نے فائدہ اٹھایا
فلسطین میں امیر کبیر جاگیردار اور زمین دار خاندان بیشتر زمینوں کے مالک تھے۔ ان خاندانوں کی اکثریت شہروں مثلاً دمشق، بیروت، بیت المقدس، یافہ وغیرہ میں آباد تھی۔ ان کی زمینوں پر مسلمان کسان کاشتکاری کرتے تھے۔ کئی کسان خاندان صدیوں سے زمینوں پر آباد تھے۔
عملی طور پر وہی ان زمینوں کے مالک بن چکے تھے لیکن اپنی ناخواندگی کے سبب وہ زمینوں کی ملکیت کے حق سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہوا یہ کہ مسلم کاشتکار لینڈ کوڈ کی اہمیت سے ناواقف تھے۔ ان کی ناواقفیت سے شہروں میں آباد جاگیردار گھرانوں نے فائدہ اٹھایا اور فلسطین میں بیشتر زمین اپنے نام کروالی۔یوں زیادہ فلسطینی زمینیں مٹھی بھر جاگیردارخاندانوں کی ملکیت ہوگئیں۔ اس تبدیلی سے صہیونی لیڈروں کو بہت فائدہ پہنچا کیونکہ وہ چند جاگیرداروں کو اپنے جال میں پھانس کر ان سے ہزارہا ایکڑ زمین حاصل کرسکتے تھے۔ عام مسلمان کسان انہیں کبھی اپنی زمینیں فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔
پتاح تکفا سے قبل وہاں مسلمانوں کا ایک گاؤں، ملبس واقع تھا۔ گاؤں اور قرب و جوار میں کھیتوں کی زمین یافہ کے دو عیسائی جاگیرداروں، انطون بشاراتیان اور سلیم قصار کی ملکیت تھی۔ صہیونی لیڈروں نے انہی سے زمینیں خریدیں اور مسلم کاشکاروں کو نکال کر اپنی بستی تعمیر کرلی۔ یہ عین ممکن ہے کہ عثمانی ترک حکومت کے متعلقہ اہل کاروں نے صہیونی لیڈروں سے بھاری رشوت لے کر انہیں ملبس میں بارہ ہزار ایکڑ خریدنے کی اجازت دی ہو۔ فلسطین میں یہود کو اتنی بڑی زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زمین کا بیشتر رقبہ دلدلی تھا۔ اسی لیے حکومت نے یہود کے خریدنے پر اعتراض نہیں کیا۔
تنظیموں کا قیام
ایک یہودی بستی کامیابی سے تعمیر کرنے پر صہیونی لیڈروں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ انہوں نے امیر کبیر یہودی حکمرانوں سے بھاری چندہ لیا اور اسی پیسے سے دو تنظیمیں ''جیوش نیشنل فنڈ'' (Jewish National Fund) اور ''فلسطین جیوش کولوئزیشن ایسوسی ایشن'' (Palestine Jewish Colonization Association) قائم کرلیں۔ ان تنظیموں کی واحد ذمے داری فلسطین میں زیادہ سے زیادہ زمینیں خریدنا تھا۔1918ء میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ تب تک برطانوی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا منصوبہ منظور کرچکی تھی۔
اسی لیے صہیونیوں کو فلسطین میں زمینیں خریدنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔صیہونی لیڈر جب بھی کوئی یہودی بستی بساتے تو وہاں یورپ، افریقا اور ایشیا سے یہودی خاندان بلوا کر آباد کردیتے۔ اس باعث فلسطین میں یہود کی آبادی بھی بڑھتی چلی گئی۔ ترک عثمانی حکومت کے اعددو شمار بتاتے ہیں کہ 1900ء میں فلسطین میں چھ لاکھ افراد بستے تھے۔ ان میں 94 فیصد مسلمان، 5 فیصد عیسائی اور صرف1 فیصد یہودی تھے۔ گویا ان کی تعداد تقریباً چھ سے دس ہزار کے مابین تھی۔ لیکن اگلے پچاس برس میں یہودی بستیوں کی مسلسل تعمیر کے باعث چھ لاکھ سے زائد یہودی فلسطین میں آباد ہوگئے۔
کئی علاقوں میں صیہونیوں نے مسلمان کاشت کاروں کو بے دخل کردیا۔ انہوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ جب یورپ میں یہود مصائب و مشکلات کا مقابلہ کررہے تھے، تو اسلامی حکومتوں ہی نے انہیں پناہ دی۔ یہود نے مگر احسان کا بدلہ یہ چکایا کہ بڑی مکاری سے مسلمان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔
مسلمانوں کو بہت دیر بعد احساس ہوا کہ صہیونی لیڈر ان کے ساتھ کیسی چال چل گئے۔ انہوں نے پھر صیہونی تنظیموں کو زمین فروخت کرنا بند کردیں مگر تب تک دیر ہوچکی تھی۔ صہیونی لیڈر ان علاقوں میں وسیع زمینیں خرید چکے تھے جہاں آج اسرائیل قائم ہے۔ زیادہ زمینوں کا مالک ہونے کی وجہ سے ہی1947ء میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کا علاقہ تقسیم کیا تو اس کا 56 فیصد حصہ صہیونیوں کو دے دیا۔ مسلمانوں نے اسی بنیادی وجہ سے اقوام متحدہ کا پارٹیشن پلان تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
قانون کا دن دیہاڑے مذاق
1967ء میں اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کے علاقوں، مغربی کنارے بشمول مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر قبضہ کرلیا۔ صہیونی لیڈروں نے ان علاقوں پر قبضہ جمانے کی خاطر وہی پرانا حربہ اختیار کیا اور وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے لگے۔ اب تو انھوں نے مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کی زحمت بھی نہ کی ۔ہزارہا مسلم خاندان زبردستی ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کردیئے گئے جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے۔ زمینوں کے ساتھ مسلمانوں کی سہانی یادیں اور دلکش خواب وابستہ تھے۔
ظالم صہیونیوں نے ان کے سارے لطیف جذبات ملیامیٹ کردیئے جبکہ عالمی قوتیں تماشائی بنی رہیں۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کا ظلم روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔نتیجہ یہ ہے کہ آج اسرائیلی حکومت مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں ڈیڑھ سو یہودی بستیاں تعمیر کرچکی۔ ان میں چھ لاکھ یہودی ناجائز اور غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف سمیت دنیا کی تمام عدالتیں ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دے چکیں مگر اسرائیلی حکومت مسلسل ان کے فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہے۔ یہی نہیں وہ آئے دن مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے اعلان کرتی ہے۔ عالمی طاقتوں کا انصاف اسرائیل کے سامنے غلام بن جاتا ہے۔
بین الاقوامی ضمیر کو اسرائیل کی طاقت کے سامنے سرنگوں دیکھ کر بھارت کی مودی حکومت کا حوصلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی اسرائیل کی دیکھا دیکھی اب مغربی کشمیر میں ہندو بستیاں تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وادی کشمیر میں زیادہ سے زیادہ ہندو بسا کر وہاں مسلم آبادی کا تناسب کم کیا جاسکے۔
اس طرح مستقبل میں جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی اضلاع پر مشتمل آزاد کشمیری ریاست کا قیام بھی کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ امریکا اب یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیرقانونی نہیں سمجھتا۔اس طرح اسرائیل اور بھارت،دونوں کو سپرپاور کی شہ مل گئی کہ وہ اپنی لاقانونیت دھڑلے سے جاری رکھ سکتے ہیں۔عالمی سطح پر بھارت ایسا ملک بن چکا جہاں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں۔عوام کو اس آفت سے بچانے کے بجائے بھارتی حکمران وادی کشمیر پر قبضے کے خواب دیکھتے ہیں۔دلیر کشمیری مگر کبھی ان کا یہ گھناؤنا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔