شیخ رشید کے نام
عمران خان کہتے ہیں کہ ہم وہ نہیں ہیںکہ نوازشریف کے نام پر لوگوں سے ووٹ لے کر جنرل مشر ف کی گود میں بیٹھ جائیں
مسمیٰ شیخ رشید نے کہاہے کہ ''پاکستان میںکسی بڑے آدمی کے خلاف ٹرائل نہیںہو سکتا نہ اس کو سزا مل سکتی ہے نہ کوئی فیصلہ آ سکتا ہے۔ پاک فوج خدا کے بعداس ملک کا سب سے بڑا سہارا ہے۔
میں اپنی پارٹی میں ہوں اور عمران اپنی پارٹی میں مگر ہم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں کیونکہ ہمارا مقصد ایک ہے''۔ شیخ رشید اور عمران خان کے ساتھ ساتھ چلنے کی رومانوی اور سوناموی سچویشن سے مجھے امجد اسلام امجدکا لکھا اور اپنے موسیقار دوست محسن رضا کا کمپوز کیا وہ گیت یاد آ گیا جو ملکہ ترنم نورجہاں ساڑھی کا پلو لہراتے ہوئے گایا کرتی تھیں:
میںتیرے سنگ'' ایسے'' چلوں سجناں
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
استھائی کے بعد انترے میںعمران خان اور شیخ رشیدکے مابین استوار ہونے والے مذکورہ جائز تعلقات کی نوعیت یوں بیان کی جا سکتی ہے
تو میرا ہاتھ ہاتھوں میںلے کے چلے مہربانی تیری
تیری آہٹ سے دل کا دریچہ کھلے میںدیوانی تیری
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا کہ یو۔ٹیوب پر وہ یاد گار کلپ لوڈ کر دیا گیا جس میں ہمارے ایک محترم دوست اور اینکر اپنے ٹاک شو میںعمران خان اور شیخ رشید سے انٹرویو کر رہے ہیں۔ اس یاد گار کلپ میںعمران اور شیخ رشیدکے مابین جو جگل بندی (جوڑی کی شکل میںگانا) ہورہی ہے ا س میں دونوں ہستیاں تو تکار تک جا پہنچی ہیں۔ شیخ رشید کہہ رہے ہیںکہ ان کی ایک نشست نے پاکستان میں قیامت کھڑی کی ہوئی ہے، یہ کہاںکا لیڈر ہے اور اس کی سیاسی پارٹی کی کیا بیچتی ہے۔
کیا پورے پاکستان میں ان کے پاس کونسلرز بھی ہیں۔ اس پر عمران خان کہتے ہیں کہ ہم وہ نہیں ہیںکہ نوازشریف کے نام پر لوگوں سے ووٹ لے کر جنرل مشر ف کی گود میں بیٹھ جائیں۔ شیخ رشید ٹوکتے ہوئے کہتے ہیں، اگر یہ ثابت کریں کہ میں نے نوازشریف کے نام پر ووٹ لیے ہیں، میر ے حلقے کا ایک ووٹر بھی یہ کہہ دے میں سیاست سے استعفیٰ دے دوںگا، عمران خا ن اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہتے ہیںکہ اللہ لوگوںکو سچ بولنے کی توفیق عطا کرے۔
شیخ رشید، عمران خان کا ہاتھ جھٹک کر کہتے ہیں، میںنے زندگی میںکبھی جھوٹ نہیں بولا۔ عمران اس پر توبہ کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ شیخ رشید کہتے ہیںہم تانگے کی سواریاںنہیںہیں، اس پر عمران خان، شیخ رشید سے استفسار کرتے ہیںکہ شیخ صاحب! آپ کامیاب سیاست دان ہیں، یہ دیکھیں میں ٹی وی پر کہتا ہوں اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیںکہ ۔۔۔۔ اللہ مجھے شیخ رشید جیسا کامیاب سیاست دان نہ بنائے اس سے اچھا ہے میں فیل ہو جاؤں ۔۔۔ اس کے بعد دونوں میں تلخ کلامی ہو جاتی ہے۔
ہماری مفاد پرست سیاست کے بارے میںقول زریں ہے کہ سیاست میںکچھ بھی حرِف آخر نہیں ہوتا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ 90ء کی دہائی میںایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے لیے ''گجنی'' سے کم نہیں تھیں مگر گذشتہ ساڑھے چار سال سے دونوں ''ہم تم'' بن کر حکومت چلا رہی ہیں۔ اسی طرح کل کی ''قاتل لیگ'' آج مدعیوںکے ساتھ مل کر ''مقتول حکومت'' کو سہارا دے کر اپنی دنیا سنوارے ہوئے ہے۔ نون لیگ بھی جب چاہتی ہے وہ متحدہ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اورگرینڈ الائنس بنانے کی دھمکی دیتی ہے۔
حکومت بھی جاری رہتی ہے اور کراچی میںلاشیں بھی گرتی رہتی ہیں۔ بلاول ہاوس کراچی میں ورکرز نے احتجاج کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے 450 سے زا ئد مقتولین کی فہرست جاری کی ہے جنہیں اس کولیشن حکومت میں ہی کراچی میںقتل کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی ایسی بدنصیب جماعت ہے جس کے منتخب وزیر اعظم بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر انھیں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ شاہ نواز اور مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا اور بعد ا زاں ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی سر عام قتل کر دیا گیا۔
عوام کے اصل ہیروکی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔ ہم بات کر رہے تھے شیخ رشید سکنہ لال حویلی کے اس ارشاد کی جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ عمران اور وہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی جب خیبر پختونخوا میںایک ہی وقت میںعوامی نیشنل پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی جمعیت سے کولیشن رکھے رہے۔
اسی طرح کمانڈو جنرل مشرف کی نشانیاں کشمالہ طارق اور ماروی میمن جب نون لیگ کی ازلی اصولی سیاست کی ایڈورٹائزمنٹ کرنے میںمصروف ہیں۔ اس سارے سین پارٹ کے بعد صرف عمران خان اور شیخ رشید سے قائد اعظم محمدعلی جناح اور ماؤزے تنگ جیسے سخت اصولوںکی سیاست کی ڈیمانڈ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔
عمران خان کو بھی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی تحریک انصاف میں آمر جنرل مشرف کے دور کی نشانی عائلہ ملک سمیت جہانگیر ترین، خورشید محمود قصوری اور دیگر سیاسی جماعتوںکا چور پور اکٹھا کر کے ایک کاک ٹیل ٹیسٹ کا سونامی لائیں۔ فرازؔ سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔''انقلاب بڑھتاہے، سونامی جو سونامی میںملیں''۔۔۔۔۔
لہٰذا عمران خان کے سونامی میں شیخ رشید کا شامل نہ ہونا قومی مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔ شیخ صاحب دریا ہیں تو انھیں عمران خان کے سمندر میں اتر جانا چاہیے۔ شیخ رشید نے کہا ہے کہ پاکستان میں بڑے آدمی کا ٹرائل کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے خلاف فیصلہ آتا ہے۔ شیخ صاحب بڑا آدمی نہ جانے کسے سمجھتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو ہمارے پہلے منتخب وزیراعظم تھے جنہیں عدلیہ نے پھانسی کی سزا دی تاریخ اسے عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔
سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو حکومت کا تختہ کرنے اور انتخابات میںدھاندلی کے کامیاب منصوبے بنائے۔ اور تو اور شیخ رشید کے سابق لیڈر میاں نواز شریف جو ہیوی مینڈیٹ وزیراعظم تھے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف ان کی حکومت کا تختہ الٹا بلکہ عدالتوںسے انھیںکرپٹ وزیراعظم،سیکیورٹی رسک اور طیارہ ہائی جیکر ثابت کر دکھایا۔
اس ''تاریخی فیصلہ'' پر آج کی آزاد عدلیہ کے معزز ججوںکے دستخط بھی ثبت ہوئے تھے جو ریکارڈ کا حصہ ہیں جسے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کے ایک ہیوی مینڈیٹ وزیراعظم توہین عدالت کا طوق گلے میں ڈال کر اور مبلغ 5 سال کی نا اہلی حاصل کر کے ملتا ن لوٹے ہیں، لہٰذا شیخ صاحب آڈر پر مال تیار کرنے کی مصداق 'تاریخ مطالعہ پاکستان' میں رد و بدل نہ کریں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل یحییٰ خان اور پھر جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف میں سے کسی ''باوردی بڑے'' کا ٹرائل نہ ہو سکا وگرنہ سویلین میں سے تو بھٹو سے لے کر نوازشریف اور گیلانی نے اپنی، اپنی قوت برداشت کے مطابق ٹرائل بھگتا ہے۔ آخر میں شکیب جلالی کا ایک شعر جو ہماری اور شیخ رشیدکی انقلابی سیاست کا آئینہ دار ہے:
ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں، یہ میرا ہی افسانہ تھا