برما منزل سے دوریوں کی طرف پہلا حصہ

انقلاب کی اسٹالنزم کی شکل میں زوال پذیری کے سب سے بھیانک اثرات چینی انقلاب پر رونما ہوئے

قمرالزماں خاں

برما پر اس وقت سرمایہ دارانہ گدھیں منڈلا رہی ہیں جن کی نگاہیں برما کے بیش بہا قیمتی قدرتی وسائل اور دولت پر ہیں۔

یہ سب کچھ اس 'جمہوریت' کے نام پر ہورہا ہے جس کے حصول کے لیے برما کی اپوزیشن لیڈر آنگ سوچی لی پچھلے بیس برس تک نظربند رہی اور اسی جمہوریت کی جدوجہد کے عوض امن کا نوبل انعام بھی حاصل کیا۔ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی زیرنگرانی تیار کی گئی مفاہمت کی پالیسی کے تحت برما کی حکمران تھین شین حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قابل قبول معاہد ہ ہونے کے بعد آنگ سوچی پچھلے نومبر سے اس نظر بندی سے نکل آئی ہیں جس کے دوران بھی وہ 1991 میں ناروے کا دورہ کرچکی تھیں اور متعدد لیکچر دے چکی تھیں۔

اس نظر بندی کے دوران ان کا سرمایہ دار آقائوں کے ساتھ کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا تھا۔ ان دنوں آنگ سو چی لی پھر یورپ کے طویل دورے پر ہے جہاں اس کی تقاریر کا محور ایسی تجاویز اور تدابیر ہیں جن کی روشنی میںبیرونی سرمایہ کاروں کو برما میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرسکیں، حالانکہ یہ لالچی، منافع خور اور استحصالی کمپنیاں اور ممالک بہت سے برسوں سے اس موقع کی تاڑ میں تھے جب وہ برما کے تیل، گیس، قیمتی لکڑی، ربڑ، اچھی قسم کا چاول، پانی کے وسائل اور اس سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت، آبی گزرگاہوں سمیت دیگر وسائل پر قبضہ کرسکیں۔

ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو 'سرمایہ دارانہ جمہوریت' کا شکر گزار ہونا چاہیے جو سامراجی یلغار کے لیے دیگر حربوں کی طرح ''نوبل انعام'' کا چارہ بھی استعمال میں لاتے ہیں، جس کے حصول کی جستجو اور بدلے میں ان کے بطور خاص تیسری دنیا کے ''متاثرین'' اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

آنگ سو چی لی اور فوجی جنتا کی باقیات سے مفاہمت کے پچھلے کئی برسوں کے دوران برما میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز، ایشیئن ڈیولپمنٹ بینک سمیت دیگر 'آزاد معیشت' کے لیے راہیں ہموار کرنے والے ادارے برمی حکام کو اپنے بیش بہا قیمتی مشوروں سے نواز رہے ہیں تاکہ ان کی سرپرستی میں چلنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں برما سے بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے یہاں سے وسائل اور دولت کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرسکیں۔

برصغیر کی تقسیم کا المیہ جو بنیادی طور پر اسٹالنزم کی مجرمانہ ''مرحلہ وار انقلاب کی پالیسی'' کے جرم اور کمیونسٹ پارٹی آٓف انڈیا کی متذبذب پالیسیوںکا نتیجہ تھا' نے اپنے پیچھے تقسیم ہونے اور ''آزاد'' ہونے والے ممالک میں بھی نظریاتی کمزوریوں اور گروہوں میں تقسیم ہونے والے انقلابییوں کاترکہ چھوڑا ۔

بالشویک انقلاب کی اسٹالنزم کی شکل میں زوال پذیری کے سب سے بھیانک اثرات چینی انقلاب پر رونما ہوئے جو اپنے آغاز سے ہی مارکسی کلاسیکل بنیادوں کے بجائے روسی افسر شاہی کے انحراف شدہ نظریے کے تحت برپا ہوا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں میلوں پر متصل دو عظیم سوشلسٹ ریاستیں باہمی مدغم ہوکر یونین آف سویت سوشلسٹ ریپبلکس بننے کے بجائے آخری نتائج کے طور پرایک دوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما اور متحارب ریاستوںکی شکل میں سامنے آئیں۔


یہ ہی وہ المیہ تھا جس کے اثرات برصغیر اور اس کے گردونواح کے انقلابی کام اور کمیونسٹ پارٹیوں پر مرتب ہوئے، جہاں نہ صرف انقلاب، نظریہ مسلسل انقلاب کے بجائے ہر ملک میں الگ الگ انقلاب کی تھیوری پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی، جس سے ایک دوسرے سے متصل ممالک کے محنت کش طبقے کو یکجا کرکے ایک ناقابل شکست طاقت بنانے کے بجائے قومی، نسلی اور مذہبی تقسیم کا شکار ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا، بلکہ قومی آزادی کی تحریکوں کو براہ راست سوشلسٹ انقلاب کے بجائے مرحلہ وار انقلاب کے غدارانہ نظریات کی بھینٹ چڑھا کر عظیم قربانیوں اور تحریکوں کو زائل کردیا گیا۔

اسی المیے کے تناظر میں 1948 میں برما، برطانوی سامراج کی غلامی سے نکل کر راہ گم گشتہ کا شکار ہوگیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف برما 1936 میں ہی معرض وجود میں آگئی تھی مگر اپنے بننے سے لے کر اس کی تمام دھڑے بندیوں، فاشزم کے ساتھ اتحاد اور فاشزم کے خلاف لڑائی سمیت گوریلا وار اور انڈر گرائونڈ ورک، آزادی سے پہلے حکومتوں میں آنے اور بعد میں بننے والی حکومت کے دوران طبقاتی جدوجہد کے بجائے زیر زمین پناہ لے لینے جیسے معاملات کے تمام مراحل میں مارکس ازم کی نظریاتی بنیادوں کے بجائے، تذبذب، روسی اورچینی بیوروکریسی کی اندھادھند پیروکارانہ روش دیکھنے کو ملتی ہے۔

1948 سے 1962 تک نظریاتی کشمکش اور واضح لائحہ عمل نہ ہونے کے بعد چینی بیوروکریسی کے زیر اثر فوجی آمریت کے تحت برما کے محنت کش طبقے سے نہ صرف ان کی منزل چھین لی گئی بلکہ جبر اور غدارانہ نظریات کی غلاظت نے برمی محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں کی سوچ اور ثقافت پر طبقاتی جدوجہد، انقلابی بھائی چارہ، وحدت اور یکجہتی کے بجائے مذہب، فرقوں، لسانی اور قومی تعصبات کے زہر کی تہہ چڑھا دی۔

جس کی وجہ سے کثیرالقومی، نسلی اور مذہبی گروہوں کے پاس کوئی مشترکہ لائحہ عمل اور نقطہ نگاہ نہیں بچا اور جب آگے جانے کی راہ نہ ہوتو پیچھے مڑکر ماضی کے اندھیروں میں جھانکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ نظریات سے انحراف کی بنا پر ذہنی پستی اور گراوٹ کی ایک شکل موجودہ فوجی حکمران تھین شین کے اس بیان سے بھی نظر آتی ہے جس میں اس نے ''ارکان '' صوبے میں رہنے والے آٹھ لاکھ روہنگیہ مسلمانوں کو 'غیر برمی' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس دو راستے ہیں یا تو کسی اور ملک میں چلے جائیں یا پھر ''پناہ گزین'' کیمپوں میں زندگی گزاریں۔

رد انقلاب اور پستی کے اسی تناظر میں 28 مئی 2012 کو برما کے جنوبی صوبے اراکان کے رانمبری ٹائون شپ کے قصبے میں تھائیدار ہٹوے نامی بدھ لڑکی کی لاش ملی، جس کے قتل اور اجتماعی زیادتی کا الزم تین روہنگیہ مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔ اس واقعے کے اگلے روز ایک ہزار کے قریب بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایک تھانے کا گھیرائو کیا اور احتجاج کیا۔ اسی شام متذکرہ تین افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

ایک گرفتار شخص نے جیل میں خودکشی کی کوشش کی اس پر مسلمان کمیونٹی میں اشتعال پھیل گیا۔ 3 جون کو بدھ مذہب کے ایک مشتعل جلوس نے ایک بس سے 10 مسلمان تبلیغیوں کو اتار کر قتل کردیا گیا اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ اس کے بعد فسادات بری طرح بھڑک گئے۔ ابتدائی بلووں میں 80 کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ سیکڑوں گھر جلادیے گئے۔ مبینہ طور پر بہت سی مسلمان روہنگیہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔

چھوٹے بچوں کے گلے کاٹنے کی بھی متعدد اطلاعات ملی۔ اس دوران فوجی جنتا اور اس کی پولیس پہلے پہل محض تماشائی بنی رہی پھر علاقے میںکرفیو لگا کرگرفتاریاں شروع کردی گئیں۔ چونکہ مسلم روہنگیہ کو خود فوجی حکمران ''نان برمی'' قراردے چکے ہیں حالانکہ وہ مغربی برما کے صوبے اراکان میں کئی صدیوں سے بستے چلے آرہے تھے، اس لیے زیادہ تر گرفتاریاں بھی ان کی گئیں جس سے خوف و ہراس بڑھ گیا اور ہزاروں روہنگیہ مسلمانوں نے کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش بھاگنے کی کوشش کی جسے بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز نے زبردست تشدد اور خونریزی سے ناکام بنا دیا کیوں کہ بنگلہ سیکیورٹی فورسز کے مطابق پہلے ہی چار لاکھ روہنگیہ برمی مسلمان بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں ہیں اور زیادہ لوگوں کے آنے سے معاشی مسائل بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیہ مسلمانوں کے کیمپوں میں برے حالات ہیں، نہ پانی ہے نہ راشن اور نہ بجلی، فاقہ اور موت کا سا سماں ہے۔ دوسری طرف وہ سیکڑوں سال سے برما میں رہنے کے باوجود ابھی تک برمی شناخت سے محروم ہیں، حتیٰ کہ امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سوچی لی سے جب ان کے دورہ یورپ کے دوران پوچھا گیا کہ روہنگیہ مسلمان کے بارے ''تھین شین'' کہہ رہا ہے کہ وہ برمی نہیں ہیں تو آپ کیا کہتی ہیں کہ وہ برمی ہیں یا نہیں؟ تو اس پر 'مظلوموں اور ستم رسیدہ' لوگوں کی ترجمان نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتیں!
(جاری ہے)
Load Next Story