یہ بے حسی آخرکب تک

زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے لیے خطرات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

mehmoodenv@gmail.com

موسمیاتی تبدیلی کے سامنے تمام بے بس نظر آتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بے پناہ جانی ومالی نقصانات اٹھا رہے ہیں۔ بدنصیب ترین ملکوں کی جو فہرست مرتب کی گئی ہے، ان میں درجہ بندی کے اعتبار سے پاکستان پانچویں مقام پر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی (جس کے لیے اب کلائمیٹ چینج کی اصطلاح پوری دنیا میں معروف ہوچکی ہے ) کی تباہ کاریوں کے باعث پاکستان میں 9989 افراد زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور معاشی طور پر ملک کو 3.8 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

ماحولیات پر تحقیق کرنے والے دنیا کے معتبر ادارے جرمن واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2020 میں دنیا کے ایسے 10 ملکوں کے بارے میں تفصیلات شایع کی ہیں۔ پاکستان میں 1998سے 2018 تک کے عرصے میں موسمیاتی لحاظ سے 152 غیر معمولی اور شدید نوعیت کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے لیے خطرات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مذکورہ بالامدت کے دوران دنیاکے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں پیوٹو ریکو، میانمار، ہیٹی ، فلپائن ، پاکستان ، ویت نام ، بنگلہ دیش ، تھائی لینڈ ، نیپال اور ڈومنیکا شامل ہیں۔ ان تمام دس ملکوں کو طویل المدت کلائمیٹ رسک انڈیکس (CRI) میں شامل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ فہرست میڈرڈ میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس (2دسمبرتا 13 دسمبر) کے درمیان جاری کی گئی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے اب تک کرہ ارض کا درجہ حرارت 1.1 سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے اور یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس اضافے کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئی تو رواں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں 3.2 سے 3.9 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ متوقع ہے۔

یہ سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو اس کے ناقابل یقین حد تک تباہ کن تنائج بر آمد ہوں گے۔ موسم شدت اختیارکر لیں گے ، پانی کی کمیابی ہوجائے گی ،کہیں سیلاب آئیں گے اورکہیں خشک سالی حملہ آور ہوگی ، سمندروں کی سطح میں اضافے سے بحری اور زمینی ماحولیاتی نظام تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ 2020 سے 2030 کے 10 سالوں میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 7.6 فیصد سے کمی کی جائے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جاسکے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صنعتوں اور نقل وحمل کے ذرایع میں استعمال ہونے والے فوسل فیول کے جلنے سے ہر سال 40 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے موسمیاتی ماہرین کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سبب1990 سے اب تک کرہ ارض کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ میتھین اور نایٹروآکسائیڈ اور دیگرگرین ہاؤس گیس قدرتی ماحول کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں2018 میں37 کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوا ، جس میں پاکستان کا حصہ تقریبا ڈھائی لاکھ ٹن بنتا ہے۔


پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں135 ویں نمبر پر آتا ہے لیکن یہ دنیا کا واحد ملک ہے جسے موسمیاتی تبدیلی سے منسلک تمام اقسام کے خطرات لاحق ہیں۔ 21 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے ملک پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ہر قسم کے ماحولیاتی وموسمیاتی واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔

سائنس دان متعدد بار متنبہ کرچکے ہیںکہ موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں2030 تک حیران کن اور ڈرامائی تبدیلیاں وقوع پزیرہوں گی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میںکہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے غیر محفوظ ہونے کا اعتراف عالمی سطح پرکیا جا چکاہے۔ پاکستان کے معتبر ماحولیاتی ماہرین مسلسل اس بات کی نشاندہی کرتے آ رہے ہیں کہ درجہ حرارت میںمسلسل ہونے والے اضافے کے باعث پاکستان کی معیشت ، غذائی تحفظ ،سیکیورٹی ، پانی، سماجی بہبود اور ماحولیاتی نظام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد تقریبا ہر سال سیلاب آ رہے ہیں ، ملک کے بیشتر علاقے خاص طور پر بلوچستان کا غالب حصہ پورا سال خشک سالی کی زد میں رہتا ہے ، جب کہ سندھ پنجاب اور کے پی کے کے متعدد علاقے بھی خشک سالی کا شکار رہتے ہیں ،گرمی کی شدید لہر میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ہمارے شمالی علاقے میں گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے نتیجے میں جھیلیں بن رہی ہیں اور جب وہ پھٹتی ہیں تو ڈاؤن اسٹریم کو شدید نقصان سے دوچار کر دیتی ہیں ،گلیشیر کے پگھلاؤکی وجہ سے دریاؤں میں طغیانی کے خطرات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو سیلاب کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اگر دو سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگیا تو ان گلیشیر کا نصف 2100 تک باقی نہیں رہ سکے گا اور ان تبدیلیوں سے شدید متاثرہ علاقے کا رقبہ 3500 کلومیٹر پر محیط ہوگا جس میں بنگلہ دیش ، چین ، بھوٹان ، بھارت ، میانمار، نیپال اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کا علاقہ بھی شامل ہوگا۔

سائنس دانوں کے مطابق یہ صورتحال نہ صرف پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے بلکہ دریاؤں کے اردگرد رہنے والے ایک ارب 65 کروڑ لوگوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگی جن کی زندگیاں سیلاب اور فصلوں کی تباہی کے سبب غیرمحفوظ ہو جائیں گی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ 2050 تک پاکستان اور بنگلہ دیش کے لاکھوں لوگ ایسے مقامات پر رہائش پذیر ہوں گے جو موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انتہائی خطرناک تصورکیے جائیں گے۔

صاف پانی کی کمی ، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی ، زراعت کی تباہی غرض کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کا کون سا ایسا مظہر ہے جس کا شکار پاکستان نہیں۔ دنیا بھرکے معتبر تحقیقی اداروں کی رپورٹیں کھنگال لیں ، سارے اعداد و شمار اکھٹے کرلیں نتیجہ یہی نکلے گا کہ پاکستان موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی کا بد ترین شکار ہوچکا ہے۔

دوسری جانب یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ماحولیات کے مسئلے کو پاکستان میں ہر سطح پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آیندہ بھی یہی روش جاری رہے گی۔ حکومتی اشرافیہ کہ بات چھوڑیں عوامی فورموں پر بھی اس مسئلے پرکوئی بحث ومباحثہ نہیں ہوتا۔ پنج ستارہ ہوٹلوں کے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اپنے من پسند اعدادوشمار پیش کرنا اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بڑے بڑے اقدامات کا اعلان کرنا ہی ہمارا وژن بن چکا ہے۔ ماحولیات کے نام پرکاروبارکرنے والے کھلے عام اداروں کو ایوارڈ فروخت کرتے ہیں ، ماحولیات کی بہتری کے نام پرسرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نے اربوں روپے خرچ کیے اس کا فائدہ زمین پر کس کو ہوا ؟ اس حوالے سے بھی زمینی حقائق سے زیادہ دیر تک نظریں چرانا اب ممکن نہیں رہا ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا دنیا کا پانچواں ملک بن چکا ہے۔ کیا اتنی خطرناک درجہ بندی بجائے خود اس حقیقت کی غماز نہیں ہے کہ یہ صورتحال قومی ، ریاستی ، سیاسی ، سماجی سمیت ہرسطح پر موجود لوگوں کی سنگین غفلت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے؟ کیا پانی سر سے گزرنے والا نہیں ہے؟ کیا من حیث القوم ہم اب بھی اس مسئلے کو نظر اندازکرنے کا مجرمانہ عمل جاری رکھیں گے؟ یہ بے حسی کب تک ؟ یہ بے حسی آخر کب تک ؟
Load Next Story