ایلس بنام فیض
ہماری اپنی خواہش کے مطابق کسی کواس بات سے کیا لینادینا کہ ہماری آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں نے کہاں کہاں گھاؤ ڈالے ہیں۔
'' ایلس بنام فیض '' ان منتخب خطوط کا مجموعہ ہے، جو ایلس فیض نے فیض صاحب کو مارچ 1951ء میں ان کی گرفتاری کے بعد مقدمے، اس کے بعد سزا پانے اور پھر جیل سے رہا ہونے تک کے عرصے میں لکھے۔ یہ خط انگریزی میں لکھے گئے تھے۔ سید مظہر جمیل نے ان کا اردو میں ایسا ترجمہ کیا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ انگریزی میں لکھے گئے تھے، یہ کتاب اکادمی بازیافت نے شایع کی۔
فیض صاحب کی اسیری کا زمانہ بیگم ایلس فیض کے لیے جیسا کہ وہ خود کہتی ہیں، شدید تنہائی، آزمائش ، سختیوں اور المناکیوں کا دور تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کے لیے ان کی بچیوں کے حوصلے اور قوت برداشت کا زمانہ بھی تھا ، ایلس کا یہ زمانہ جیسا گزر رہا تھا۔
اس کا سب احوال وہ فیض صاحب کو لکھ دیتی تھیں، خانگی مسائل ، مالی مشکلات ، ان سے نبردآزما ہونے کی اپنی کوشش، بچیوں کی معصومانہ باتیں، دوستوں کی ہمدردی اور محبت ، سب کا ذکر کرتیں ، حقیقت پسندانہ انداز میں لیکن جب اپنی تنہائی اور دوری کا شدت سے احساس ہوتا تو اس کے اظہار میں وفود جذبات پر قابو نہ رہتا۔ فیض صاحب9 مارچ 1951ء کو گرفتار ہوئے تھے۔ جولائی 1951ء کو ایک خط میں لکھتی ہیں '' آج اتوار ہے اور بارش ہوئی ہے۔ تمہیں یاد ہوگا اتوار والے دن تمہارے سست پڑے رہنے پر میں کتنا جھنجلایا کرتی تھی لیکن اب اتوار کے دن وہی سب کام میں خود بھی کرنے لگی ہوں کہ اس دن کچھ اورکرنے کی جسم میں سکت نہیں رہ جاتی۔''
10ستمبر1951ء کے خط میں لکھتی ہیں ''راتیں ٹھنڈی ہونے لگی ہیں ، اور اس وقت سوئی ہوئی بچیوں کے چہرے پر پڑتی چاندنی میں وہ اور بھی خوبصورت اور معصوم لگ رہی ہیں۔ آج دونوں میرے پاس ہی سوگئی ہیں، پرسکون اور شانت۔
اگلے خط میں لکھتی ہیں۔ '' میں اب تک دل میں جدائی کے درد کو سہنے کی ہمت پیدا نہیں کرسکی ہوں اور جب ستمبر کی صبح ہوا آہستہ آہستہ درختوں میں سرسراتی ہے تو میری آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا جاتی ہیں اور مجھے اس بات پر پہلی جیسی ندامت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ غرض دل کی درد پسندی اسی طرح جاری ہے۔''
حیدرآباد جیل میں فیض سے ملاقات کے بعد لاہور واپس پہنچ کر اپنے خط میں ایلس لکھتی ہیں ''ہماری ملاقات کا وقت کتنا مختصر تھا کہ اس ملاقات کی باتیں خواب لگتی ہیں۔ اب تنہائی اور مفارقت کی اداسی نے ایک مرتبہ پھر دل کے آس پاس پڑاؤ ڈال دیا ہے۔''
1951ء رخصت ہو رہا تھا۔ اپنے اس سال کے آخری خط میں لکھتی ہیں۔ '' اب میں سونے جا رہی ہوں۔ امید ہے ہماری ملاقات نیند میں ہوجائے گی۔ جیسا کہ تم کہتے ہونا ، خواب دیکھنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔''
30فروری1952ء کے خط میں لکھتی ہیں ''وہ خوفناک کیفیت جس میں میرا پورا بدن سن ہوکر رہ جاتا تھا اب تقریباً ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ طبیعت میں ٹھہراؤ، چٹان جیسا عزم اور استقلال پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ خواہ کچھ ہو ہمیں ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور تمہیں ہر صورت میں گھر واپس لانا ہے تاکہ زندگی پھر وہیں سے شروع کی جاسکے جہاں سے تم چھوڑ کرگئے تھے۔''
9 مارچ کو لکھتی ہیں '' لو ایک سال بیت گیا اور ہم اب تک یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں دن گزار رہے ہیں۔ آج صبح کا تمام وقت غمناک یادوں سے لڑتے بھڑتے نکل گیا۔''
دس دن بعد ایک خط میں لکھتی ہیں '' آج کل میں نے دنوں کی گنتی رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ بس اتنا یاد رہ جاتا ہے کہ طلوع آفتاب کے ساتھ مجھے دفتر جانا ہے اور غروب آفتاب کے وقت واپس گھر آنا ہے جہاں مجھے کچھ آرام کرنے کی مہلت مل جاتی ہے، سمجھو میں تھکن سے چور چور ہوچکی ہوں۔ ایسے میں گزرے دنوں کا حساب رکھنا بے معنی سا لگتا ہے۔
15 مئی کے خط میں لکھتی ہیں'' کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کاش میں نے ایسے گرم ، مفلس اور غلام ملک کے فرد سے شادی کرنے کی بجائے کسی اسکیمو سے شادی رچائی ہوتی توکیا خوب ہوتا کم از کم اس جھلستی گرمی میں پیڈل مارتے ہوئے دفتر جانے اور صبح سے شام تک کاموں کے انبار ڈھونے اور دماغ پچّی کرنے سے تو بچی رہتی۔
جون کے مہینے میں ایک خط میں ایلس لکھتی ہیں'' اگر شام کو ٹھنڈی ہوا چلے تو پھر خوشگوار رات کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن خوشگوار راتوں کے اپنے عذاب ہوتے ہیں۔ ایسی راتوں میں آدمی کھلی آنکھوں خواب دیکھنے لگتا ہے اورگئی گزری باتوں کو یاد کرنے لگتا ہے اور یاد کرکے اداس ہو جاتا ہے جیسے سب کچھ لٹ جانے کے بعد صرف صدمے ہی قسمت میں باقی بچے ہوں۔''
عید کے دن فیض کے نام اپنے خط میں لکھتی ہیں'' کل طاہرہ پوچھ رہی تھی، ایلس! کیا تمہیں کبھی جنسی خواہش تو پریشان نہیں کرتی ہے؟ میں نے جواب دیا، خیر جنسی خواہش تو پریشان نہیں کرتی لیکن اس کی عدم موجودگی کے سبب تنہائی کا کرب بہت غضب ناک ہو جاتا ہے۔''
سال ختم ہو رہا تھا۔ ایک خط میں لکھتی ہیں'' معلوم نہیں اس دور ابتلا کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا۔ حالات جیسے بھی ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس میں جو کچھ بھی در پیش آئے گا ہم اسے پورے استقلال اور ثابت قدمی سے جھیل لیں گے۔''
2جنوری 1953ء کے خط میں ایلس پر امید نظر آتی ہیں۔ لکھتی ہیں '' خدا کرے نیا سال خوشی اور مسرت کی سوغات لائے۔ مجھے یقین ہے ایسا ہی ہوگا۔''
فروری کے آخری دنوں میں ایک خط میں لکھتی ہیں'' تمہارے خطوط میں آج کل کچھ منتشر مزاجی کا احساس ہونے لگا ہے جس کی وجہ غالباً وہ حالات ہیں جن پر تمہیں کوئی اختیار نہیں یہاں دھنک کی آمد آمد کے ساتھ ہر طرف رنگ برنگے پھولوں کی بہار اور مہکار پھیلتی رہتی ہے۔ ایسے میں امید افزا خیالات کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ تم سے جلد ہی ملنے کی آرزو شدید تو ہے لیکن دریں حالات اس کے امکان کم دکھائی دیتے ہیں۔ ہم منتظر ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ تمہیں قریب ہی کسی جیل میں بھیجا جائے تاکہ ملنے کی سہولت ہو جائے۔''
1953ء کے آواخر میں ایلس جیل میں فیض سے مل کر لاہور واپس آئیں۔ ایک خط میں لکھتی ہیں '' مجھے بہت افسوس ہے کہ میں تمہارے باغ کے پھول جو تم نے مجھے تحفے میں دیے تھے، وہیں چھوڑ آئی ہوں۔ اس کا خیال مجھے ریلوے اسٹیشن پہنچنے کے بعد ہوا۔ میں روہانسی ہوگئی لیکن تم ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے تکدر میں نہ پڑا کرو۔ بس یہ سمجھ لو کہ میں تمہیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ چاہتی ہوں۔ زندگی سے بھی ماورا۔''
یکم مارچ 1954ء کو اپنے خط میں لکھتی ہیں ''آج کی تاریخ سے یہ بات یاد آئی کہ تمہیں یہاں سے گئے پورے تین برس گزرچکے ہیں اس کے باوجود یہ ساری سرگزشت غیر حقیقی لگتی ہے جسے کسی اور پر بیتی ہو۔ اس تمام افتاد کے باوجود ہم اب یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بس اب ایک برس کا اور معاملہ رہ گیا ہے دیکھ لو پیارے، وقت اپنی تمام تمام تلخیوں کے باوجود تیزی سے گزرتا چلا جا رہا ہے۔''
پھر 22 جولائی 1954 کو اپنے خط میں لکھتی ہیں'' آج کل لاہورکا موسم بہت عمدہ ہوگیا ہے۔ بیچ میں تکلیف دہ وقفے بھی آئے، گردوغبارکا طوفان بھی تھا لیکن جلد ہی ختم بھی ہوگیا اور جیسا کہ تم کہا کرتے ہو ہم اپنے سفر کے آخری مراحل میں ہیں اور میری جان یہ دن بھی جلد گزر جائیں گے۔
ہماری اپنی خواہش کے مطابق۔ کسی کو اس بات سے کیا لینا دینا کہ ہماری آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں نے کہاں کہاں گھاؤ ڈالے ہیں۔ دل کے زخم بھی کسی نہ کسی طرح بھر ہی جائیں گے اور پھر میں اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ چلو ہم نے اگر نا آسودگی کے ساتھ گزارا کیا ہے تو کیا ہوا ہم نے اپنی بچیوں کو تو زندگی کی سب راحتوں سے سرفراز کیا ہے نا۔ خوشیاں ، راحتیں ، تفریح اور ان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورتیں جن کی وہ حقدار تھیں۔ اسی طرح جس طرح ان کی دوسری ہم عمر لڑکیاں حقدار ہوتی ہیں، ہم نے اپنی حد تک اپنی بچیوں کو فراہم کی ہے۔
کیا یہ احساس ہی ہمارے لیے سب سے گراں مایہ نہیں ہے؟ جیل کے چار برس اور چار برسوں کے گزرنے کا شدید انتظار ایک طرف ہے اور دوسری طرف وہ لاکھوں لوگ ہیں جو نامعلوم کتنی مدت سے جیل کی تاریک کوٹھریوں میں بند پڑے ہوئے ہیں اور لاکھوں وہ لوگ ہیں جو عمر تا عمر انتظارکی گھڑیاں گزار کر ختم ہوچکے ہیں اورکتنے ہی ہوں گے جو آخری مسکراہٹ سے محظوظ ہوئے بغیر ہی گزرجائیں گے۔ لہٰذا ہم دونوں ان لاکھوں محرومین کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔''