پاکستان بار کونسل کی اپیل پر وکلا کی ملک گیر ہڑتال

پی آئی سی واقعے میں گرفتار وکلا کی رہائی کا مطالبہ، پولیس کے لاٹھی چارج کی مذمت


ویب ڈیسک December 13, 2019
پی آئی سی واقعے میں گرفتار وکلا کی رہائی کا مطالبہ، پولیس کے لاٹھی چارج کی مذمت فوٹو:فائل

‏پاکستان بار کونسل اور وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کال پر وکلا کی ملک بھر میں ہڑتال ہے جس کے نتیجے میں مقدمات کی سماعت نہیں ہوئی اور سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) حملے میں ملوث وکلا کی گرفتاری کے خلاف وکلا کی آج دوسرے روز بھی ہڑتال جاری رہی۔ وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور عدالتوں میں کیس کال ہوئے لیکن کوئی وکیل پیش نہ ہوا جس پر مقدمات بغیر سماعت آئندہ تاریخوں تک ملتوی ہوگئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن نے بھی اپنے سیکرٹری بار کے لائسنس کی منسوخی اور توہین عدالت کے نوٹس کے اجرا کے خلاف ہڑتال کی۔

یہ بھی پڑھیں: وکلا کا امراض قلب کے اسپتال پر دھاوا

عدالت عالیہ میں ایک کیس کی بھی سماعت نہ ہوسکی اور ججز کی جانب سے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا گیا۔ بارایسوسی ایشن نے نئے ججز کی حلف برداری تقریب کا بھی بائیکاٹ کردیا۔

لاہور کے وکلاء کی حمایت میں سندھ ہائیکورٹ کے مرکزی گیٹ پر وکلا نے احتجاج کرتے ہوئے گرفتار وکلا کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ پنجاب بار نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس نے پر امن وکلا پر تشدد اور لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کا استعمال کیا، وکلا پر تشدد کرنے والے ڈاکٹروں کو گرفتار کیا جائے۔ اس موقع پر عدالتوں میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی سی واقعہ،81 وکلا گرفتار، 46 جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

وکلا رہنماؤں نے لاہور کے وکلاء کو انسداددہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی سی واقعے میں ایک فریق کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا، فریقین میں کشیدگی کے وقت حکومت کہاں تھی اور معاملات پہلے کیوں حل نہیں کئے، واقعہ والے روز لگ رہا تھا انتظامیہ خود چاہتی ہے کوئی تصادم ہو ۔

واضح رہے کہ لاہور میں وکلا نے ڈاکٹرز کے ساتھ تنازع پر پی آئی سی پر دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی تھی جس کے نتیجے میں طبی امداد نہ ملنے پر کئی مریض جاں بحق ہوگئے تھے۔ پولیس نے 250 سے زائد وکلا کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرکے 86 وکلا کو گرفتار کیا ہے جنہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں