سیاسی وفاداریوں کی تبدیلیاں
سیاسی پارٹیاں اپنے منشور بھلا چکی ہیں اور سیاسی ضرورت اب ہر سیاسی پارٹی کی ترجیح ہے
SIALKOT:
ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں نے مہر خاندان کی پیپلز پارٹی میں مجوزہ شمولیت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔
جس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے ضلعی عہدیداروں نے کہا کہ اگر مہر خاندان کو دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل کیا گیا تو کارکن بڑی تعداد میں احتجاج کے طور پر خودکشیاں کرلیں گے۔ پارٹی چھوڑ جائینگے جس سے ضلع میں پارٹی کو سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوگا۔ احتجاج اور سیاسی بیان بازی کے طور پر یہ خیالات پارٹی سے دیرینہ وابستگی رکھنے والوں کے حقیقی جذبات ہیں مگر سیاست کی ضروریات سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ بے رحم سیاست ہمارے یہاں اب اس مقام پرآگئی ہے جہاں سیاسی اصول ختم ہوچکے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں اپنے منشور بھلا چکی ہیں اور سیاسی ضرورت اب ہر سیاسی پارٹی کی ترجیح ہے۔ سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنا ہماری سیاست میں شروع سے ہی جاری ہے اور بہت کم سیاسی رہنما ایسے ہیں جو اب تک اپنی اس پارٹی میں موجود ہیں جہاں سے انھوں نے اپنی سیاست کی ابتدا کی تھی۔
اہم سیاسی رہنمائوں میں ایسے بے شمار جاگیردار شامل ہیں جو ملک کی دو بڑی پارٹیوں میں شامل رہے ہیں۔ ملک میں موجود سابق وزرائے اعظم میں یوسف رضا گیلانی اور ظفر اﷲ جمالی اور موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کبھی اپنی پارٹیوں کے سربراہ نہیں تھے اور ان کے پاس اپنی پارٹیوں کے عہدے ضرور تھے اور وہ اپنی پارٹی کے سربراہوں کے تابع تھے اور اہم فیصلے کرنے کے لیے خودمختار اور آزاد نہیں تھے جب کہ ان سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ تھے اوراہم فیصلے کرنے میں خودمختار تھے۔
ایک اور سابق مرحوم وزیراعظم محمد خان جونیجو 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں فنکشنل مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہوئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور انھیں بااختیار فوجی صدر جنرل ضیاء کی سربراہی میں حکومت بنانے کا موقع ملا تھا اور انھوں نے مسلم لیگ کے نام سے کئی گروپوں کو ملا کر مسلم لیگ قائم کی تھی جس کے وہ صدر بھی منتخب ہوئے تھے ۔
مگر یہ مسلم لیگی حکومت فوجی سربراہی میں قائم رہی اور جیسے ہی محمد خان جونیجو نے من مانی کی، فوجی صدر نے انھیں برطرف کردیا جس کے بعد ان کی مسلم لیگ بھی تقسیم ہوگئی تھی۔ سابق فوجی صدر جنرل پرویز نے بھی مسلم لیگ (ق) بنوا کر اپنے دور میں 3 وزیراعظم منتخب کرائے تھے اور اپنے ہی وزیراعظم ظفر اﷲ جمالی کو من مانی کرنے پر مستعفی کرا دیا تھا۔
1985 سے 2008 تک 23 برسوں میں 9 سال فوجی جنرل کا اقتدار رہا، جس کے دور میں دو سابق حکمران جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے متعدد اہم رہنمائوں سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کراکر مسلم لیگ (ق) کی حکومت کو مضبوط بنایا گیا تھا اور دونوں جماعتوں کے بعض ایسے رہنما بھی (ق) لیگ میں شامل ہوگئے تھے جن کی سیاسی وابستگی تبدیل ہونے کا تصور بھی نہیں تھا۔
مگر جنرل پرویز نے وزارتیں اور مفادات دے کر انھیں اپنی پارٹیوں سے بے وفائی پر مجبور کردیا تھا اور وہ جنرل پرویز کے ساتھ وفادار رہے اور بعض نے (ق) لیگ کی حکومت ختم ہونے سے قبل پیپلز پارٹی کا اقتدار آتا دیکھ کر پھر اپنی وفاداری تبدیل کی اور (ق) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ سیاسی وفاداری تبدیل کرنیوالے (ق) لیگیوں کو یقین تھا کہ جنرل پرویز اور بینظیر بھٹو کی باہمی مفاہمت میں بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں گی اس لیے انھوں نے اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کی اور وہ جنرل پرویز کی کابینہ میں وزیر رہنے کے بعد آج پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی وزیر ہیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی جونیجو حکومت میں مسلم لیگی وزیر تھے جب کہ ظفر اﷲ جمالی اپنی (ق) لیگی حکومت ختم ہونے کے بعد اب بھی مسلم لیگی ہیں۔ ملک میں اب بھی سیکڑوں ایسے سیاستدان موجود ہیں جنھوں نے دونوں بڑی پارٹیوں کے پرچم اپنے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں اور ان کی ذاتی رہائشگاہوں پر پی پی اور مسلم لیگ کے پرچم لہراتے دیکھے گئے ہیں وہ کبھی پی پی کبھی مسلم لیگ میں آتے جاتے رہے ہیں۔
ایسے سیاسی رہنمائوں کا کبھی کوئی سیاسی اصول نہیں رہا بلکہ انھوں نے ہمیشہ اپنا سیاسی مفاد پیشِ نظر رکھا اور جس سیاسی پارٹی سے انھیں سیاسی اور ذاتی مفاد حاصل ہوا وہ وہیں چلے گئے۔ بعض سیاسی شخصیات جن کے اپنے آبائی حلقے مضبوط ہوتے ہیں اور وہ ذاتی حیثیت میں بھی انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہر سیاسی پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں اور ہر پارٹی انھیں قبول کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان کا ذوالفقار کھوسہ خاندان اپنی آبائی مسلم لیگ سے ناراض ہوا تو پیپلز پارٹی نے فوراً ان سے رابطہ کرلیا مگر ناکام رہی۔
ملک میں پہلی بار یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک تیسری سیاسی قوت تحریکِ انصاف میں اہم سیاست دانوں نے اپنی وزارتیں اور اسمبلی نشستیں چھوڑ کر شمولیت اختیار کی۔ یہ رہنما طویل عرصے سے اپنی اپنی پارٹیوں میں شامل رہے۔ یہ رہنما یقینی طور پر اپنے قائدین سے اختلاف تو رکھتے تھے، انھیں اپنی حکمران پارٹیوں میں وہ اہمیت نہیں ملی جو وہ چاہتے تھے۔ وہ دونوں پارٹیوں میں رہ کر اندر کے حالات سے بھی واقف تھے۔ مگر پارٹی میں رہنے پر مجبور تھے اور اب انھیں تحریکِ انصاف کا سیاسی عروج نظر آیا تو انھوں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی سیاسی وفاداری تیسری سیاسی قوت کے لیے تبدیل کرلی۔
صدر آصف علی زرداری سندھ میں مہر خاندان کی شمولیت پیپلز پارٹی کے لیے مفید سمجھتے ہیں۔ اس لیے اگر مہر خاندان راضی ہے تو گھوٹکی کے ہزاروں پارٹی کارکن ان کی شمولیت نہیں روک سکیں گے اور یہ سلسلہ ہماری سیاست میں جاری ہے اور عام کارکن لاکھ سیاسی وفاداری کی تبدیلی پر احتجاج کریں، کچھ نہیں ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں نے مہر خاندان کی پیپلز پارٹی میں مجوزہ شمولیت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔
جس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے ضلعی عہدیداروں نے کہا کہ اگر مہر خاندان کو دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل کیا گیا تو کارکن بڑی تعداد میں احتجاج کے طور پر خودکشیاں کرلیں گے۔ پارٹی چھوڑ جائینگے جس سے ضلع میں پارٹی کو سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوگا۔ احتجاج اور سیاسی بیان بازی کے طور پر یہ خیالات پارٹی سے دیرینہ وابستگی رکھنے والوں کے حقیقی جذبات ہیں مگر سیاست کی ضروریات سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ بے رحم سیاست ہمارے یہاں اب اس مقام پرآگئی ہے جہاں سیاسی اصول ختم ہوچکے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں اپنے منشور بھلا چکی ہیں اور سیاسی ضرورت اب ہر سیاسی پارٹی کی ترجیح ہے۔ سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنا ہماری سیاست میں شروع سے ہی جاری ہے اور بہت کم سیاسی رہنما ایسے ہیں جو اب تک اپنی اس پارٹی میں موجود ہیں جہاں سے انھوں نے اپنی سیاست کی ابتدا کی تھی۔
اہم سیاسی رہنمائوں میں ایسے بے شمار جاگیردار شامل ہیں جو ملک کی دو بڑی پارٹیوں میں شامل رہے ہیں۔ ملک میں موجود سابق وزرائے اعظم میں یوسف رضا گیلانی اور ظفر اﷲ جمالی اور موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کبھی اپنی پارٹیوں کے سربراہ نہیں تھے اور ان کے پاس اپنی پارٹیوں کے عہدے ضرور تھے اور وہ اپنی پارٹی کے سربراہوں کے تابع تھے اور اہم فیصلے کرنے کے لیے خودمختار اور آزاد نہیں تھے جب کہ ان سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ تھے اوراہم فیصلے کرنے میں خودمختار تھے۔
ایک اور سابق مرحوم وزیراعظم محمد خان جونیجو 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں فنکشنل مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہوئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور انھیں بااختیار فوجی صدر جنرل ضیاء کی سربراہی میں حکومت بنانے کا موقع ملا تھا اور انھوں نے مسلم لیگ کے نام سے کئی گروپوں کو ملا کر مسلم لیگ قائم کی تھی جس کے وہ صدر بھی منتخب ہوئے تھے ۔
مگر یہ مسلم لیگی حکومت فوجی سربراہی میں قائم رہی اور جیسے ہی محمد خان جونیجو نے من مانی کی، فوجی صدر نے انھیں برطرف کردیا جس کے بعد ان کی مسلم لیگ بھی تقسیم ہوگئی تھی۔ سابق فوجی صدر جنرل پرویز نے بھی مسلم لیگ (ق) بنوا کر اپنے دور میں 3 وزیراعظم منتخب کرائے تھے اور اپنے ہی وزیراعظم ظفر اﷲ جمالی کو من مانی کرنے پر مستعفی کرا دیا تھا۔
1985 سے 2008 تک 23 برسوں میں 9 سال فوجی جنرل کا اقتدار رہا، جس کے دور میں دو سابق حکمران جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے متعدد اہم رہنمائوں سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کراکر مسلم لیگ (ق) کی حکومت کو مضبوط بنایا گیا تھا اور دونوں جماعتوں کے بعض ایسے رہنما بھی (ق) لیگ میں شامل ہوگئے تھے جن کی سیاسی وابستگی تبدیل ہونے کا تصور بھی نہیں تھا۔
مگر جنرل پرویز نے وزارتیں اور مفادات دے کر انھیں اپنی پارٹیوں سے بے وفائی پر مجبور کردیا تھا اور وہ جنرل پرویز کے ساتھ وفادار رہے اور بعض نے (ق) لیگ کی حکومت ختم ہونے سے قبل پیپلز پارٹی کا اقتدار آتا دیکھ کر پھر اپنی وفاداری تبدیل کی اور (ق) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ سیاسی وفاداری تبدیل کرنیوالے (ق) لیگیوں کو یقین تھا کہ جنرل پرویز اور بینظیر بھٹو کی باہمی مفاہمت میں بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں گی اس لیے انھوں نے اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کی اور وہ جنرل پرویز کی کابینہ میں وزیر رہنے کے بعد آج پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی وزیر ہیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی جونیجو حکومت میں مسلم لیگی وزیر تھے جب کہ ظفر اﷲ جمالی اپنی (ق) لیگی حکومت ختم ہونے کے بعد اب بھی مسلم لیگی ہیں۔ ملک میں اب بھی سیکڑوں ایسے سیاستدان موجود ہیں جنھوں نے دونوں بڑی پارٹیوں کے پرچم اپنے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں اور ان کی ذاتی رہائشگاہوں پر پی پی اور مسلم لیگ کے پرچم لہراتے دیکھے گئے ہیں وہ کبھی پی پی کبھی مسلم لیگ میں آتے جاتے رہے ہیں۔
ایسے سیاسی رہنمائوں کا کبھی کوئی سیاسی اصول نہیں رہا بلکہ انھوں نے ہمیشہ اپنا سیاسی مفاد پیشِ نظر رکھا اور جس سیاسی پارٹی سے انھیں سیاسی اور ذاتی مفاد حاصل ہوا وہ وہیں چلے گئے۔ بعض سیاسی شخصیات جن کے اپنے آبائی حلقے مضبوط ہوتے ہیں اور وہ ذاتی حیثیت میں بھی انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہر سیاسی پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں اور ہر پارٹی انھیں قبول کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان کا ذوالفقار کھوسہ خاندان اپنی آبائی مسلم لیگ سے ناراض ہوا تو پیپلز پارٹی نے فوراً ان سے رابطہ کرلیا مگر ناکام رہی۔
ملک میں پہلی بار یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک تیسری سیاسی قوت تحریکِ انصاف میں اہم سیاست دانوں نے اپنی وزارتیں اور اسمبلی نشستیں چھوڑ کر شمولیت اختیار کی۔ یہ رہنما طویل عرصے سے اپنی اپنی پارٹیوں میں شامل رہے۔ یہ رہنما یقینی طور پر اپنے قائدین سے اختلاف تو رکھتے تھے، انھیں اپنی حکمران پارٹیوں میں وہ اہمیت نہیں ملی جو وہ چاہتے تھے۔ وہ دونوں پارٹیوں میں رہ کر اندر کے حالات سے بھی واقف تھے۔ مگر پارٹی میں رہنے پر مجبور تھے اور اب انھیں تحریکِ انصاف کا سیاسی عروج نظر آیا تو انھوں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی سیاسی وفاداری تیسری سیاسی قوت کے لیے تبدیل کرلی۔
صدر آصف علی زرداری سندھ میں مہر خاندان کی شمولیت پیپلز پارٹی کے لیے مفید سمجھتے ہیں۔ اس لیے اگر مہر خاندان راضی ہے تو گھوٹکی کے ہزاروں پارٹی کارکن ان کی شمولیت نہیں روک سکیں گے اور یہ سلسلہ ہماری سیاست میں جاری ہے اور عام کارکن لاکھ سیاسی وفاداری کی تبدیلی پر احتجاج کریں، کچھ نہیں ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔