عسکریت پسندوں کے کئی گروپ مذاکرات کس سے ہونگے

جنوبی وزیرستان کلیئر نہیں ہوسکا، جنگجوؤں کیخلاف ڈرون اور بائیو میٹرک سسٹم چاہیے، حکام


عمیر محمد زئی November 01, 2013
جنوبی وزیرستان کلیئر نہیں ہوسکا، جنگجوؤں کیخلاف ڈرون اور بائیو میٹرک سسٹم چاہیے، حکام. فوٹو فائل

دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں شامل جنوبی وزیرستان جوکہ ایک وقت میں تحریک طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا کو کئی سال کے فوجی آپریشن کے بعد بھی کلئیر نہیں کرایا جا سکا۔

مقامی عمائدین،سیاستدان اور طالبان کیخلاف برسرپیکار سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے مطابق آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں تاہم فورسز کے مطابق حالات کا مقابلہ کرنے کیلیے انھیں ڈرون ٹیکنالوجی کی سخت ضرورت ہے،6620 مربع کلومیٹر پر مشتمل جنوبی وزیرستان قبائلی علاقوں میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی ایجنسی ہے جس کا قیام 1895ء میں عمل میں لایا گیا، اس کے مغرب میں افغان صوبے پکتیکا اور خوست، جنوب میں صوبہ بلوچستان اور مشرق میںڈیرہ اسماعیل خان آباد ہے جبکہ احمدزئی وزیر اور محسود یہاں پر بسنے والے بڑے قبائل ہیں، دسمبر2009ء میں جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور اس وقت علاقے میں آرمی کے 2 ڈویژن فوج موجود ہے تاہم تقریبا 4سال گزرنے کے باجود ایجنسی کو طالبان سے خالی نہیں کیا جاسکا ہے۔

پولیٹیکل ایجنٹ اسلام زیب کے مطابق ایجنسی کے 30سے 35 فیصد علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کردیاگیا ، علاقے میں عسکریت پسندوں سے برسرپیکار سیکیورٹی فورسز کے کئی اعلیٰ حکام سے طالبان کے تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو اکثریت کی رائے تھی کہ ان کی تعداد15سے 20ہزار کے درمیان ہے، پوری ایجنسی میں ایسا کوئی علاقہ نہیں ہے جہاں طالبان کاکنٹرول ہو تاہم وہ رات کے وقت حملہ کرتے ہیں یا سڑک کے کنارے بم نصب کرکے بھاگ جاتے ہیں، وار زون میں تعینات متعدد آرمی افسران نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایاکہ انھیں ڈرون ٹیکنالوجی اور بائیو میٹرک سسٹم کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ عسکریت پسندوں کی نقل وحرکت کو مانیٹر کریں اور بارڈر کو محفوظ بنائیں۔



سیکیورٹی فورسزکی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ فوجی آپریشن سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تاہم انھوں نے حکومت کی جانب سے طالبان سے مذکرات کے عمل اور ان کی مکمل کامیابی کو ناممکن قرار دیا، انھوں نے بتایاکہ وزیرستان میں دو درجن کے قریب عسکریت پسند گروہ ہیں جن میں سے بعض گروہ تحریک طالبان پاکستان کے کنٹرول میں بھی نہیں،اس ضمن میں اگر تحریک طالبان پاکستان مذاکرات کیلئے تیار ہوجاتی ہے تو اس بات کی گارنٹی کون دیگاکہ باقی شدت پسند بھی ان مذکرات کاحصہ بنیںگے۔

ذرائع کے مطابق یہ بات بھی مشاہدے میں آئی اور مقامی افراد نے بھی اس کی تصدیق کی کہ 15سے 20 افراد پر مشتمل عسکریت پسند گروہ بنے ہوئے ہیں جو کسی کی نہیں سنتے اور خود سے کارروائی کرتے ہیں، ایک مقامی صحافی نے بتایاکہ اگر تحریک طالبان مذاکرات کیلئے تیار ہو جاتی ہے تو باقی گروہ ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ٹی ٹی پی کے رہنمائوں کی ہدایات کے مطابق کرتے ہیں، جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کے منتخب رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین محسود جن کا تعلق جمعیت علماء اسلام (ف) سے ہے نے بتایاکہ اب تک مذکرات کے سلسلے میں کسی نے بھی ان کے ساتھ رابطہ نہیں کیا ہے تاہم انھوں نے امید ظاہر کی مذکرات بہت جلد شروع ہونگے اور کامیاب بھی ہونگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |