جہاں گشت
سمجھایا گیا ہے کہ بس رب کی رضا میں راضی رہو، بس تیری رضا میری تسلیم جپو۔
قسط نمبر 71
بابا حضور کی جائے آرام کو رب تعالٰی نعمتوں، راحتوں اور نُور سے بھر رکھے، فقیر کو یقین نہیں کامل یقین ہے کہ ایسا ہی ہے، کے آنکھوں سے اوجھل ہونے کے بعد فقیر کی بے کلی تو ضرور بڑھ گئی تھی اور بے چینی بھی، اور کوئی ایسی ویسی بھلا، لیکن سکھایا گیا ہے، بتایا گیا ہے۔
سمجھایا گیا ہے کہ بس رب کی رضا میں راضی رہو، بس تیری رضا میری تسلیم جپو۔ فقیر اس کا اعتراف کرتا ہے کہ اب تک بھی بس کورا ہی ہے، بس ٹنڈ منڈ شجر کی موافق، لیکن نہیں یہ مثال بھی عبث اور اپنے لیے رعایت کے مترادف ہے، وہ ٹنڈ منڈ شجر بھی کام کا ہوتا ہے جی، اس کی لکڑی تو کام کی ہوتی اور کسی کا چولہا چلانے کے کام تو آسکتی ہے ناں، لیکن فقیر! بس رہنے دیجیے، بے کار و بے مصرف، مجسم شر و فساد، نرا ڈھول، چرب زباں و ناقص بیاں، پناہ۔ رب تعالٰی فقیر کے کرتوتوں، شر اور حماقتوں سے آپ سب کو محفوظ و مامون فرمائے رکھے اور فقیر کے عیوب بے شمار کی ستّاری فرمائے رکھے اور بس درگزر فرماتا رہے۔ آمین
ایک درویش کی جمع پونجی ہوتی ہی کیا! بس مسافر کہ جس کا سامان زیست انتہائی مختصر جسے وہ بہ آسانی اپنے کاندھے پر پوٹلی بنائے اٹھائے رب کی زمین پر گھومتا پھرتا ہے، چوری کا ڈر نہ راہ زنی کا، اﷲ دے اور بندہ لے، مولائی مست، اندیشہ ہائے سُود و زیاں سے یک سر مامون، وہ لمحۂ موجود میں جیتا ہے جی، کل کس نے دیکھی ہے جی! اگلے لمحے، اگلے دَم کا کیا بھروسا اور کیسا اعتبار، آئے، نہ آئے، اس کا ہاتھ تو رب کا ہوتا ہے جی! کار کُشا و کارساز، وہ اپنی ظاہری نظر سے دیکھتا ہی کب ہے جی، وہ تو خدا کے نُور سے دیکھتا ہے جناب! اسی لیے کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ خدا کے نُور سے دیکھتا ہے۔ بابا جی حضور خُلد مکانی ایسے ہی تھے۔
خاص بندۂ خدائے کریم و رحیم و ستّار و لطیف و خبیر۔ نہ جانے کیا کہے جارہا ہے فقیر! لیکن ذرا سا دم لیجیے ناں، آپ درویش خُدا مست کو قلاش سمجھ بیٹھے ہیں کیا! اس کے پاس ظاہری مال و اسباب جو نہیں ہوتا، اس لیے؟ دانش ور تو آپ ہیں ہی، اس میں کیا کلام جی! لیکن پیشگی معذرت جی، طبع نازک پر گراں بار اور سماعت کو ناگوار گزریں گے فقیر کے لفظ، لیکن بہ صد احترام عرض ہے کہ گم راہ ہو چلے ہیں آپ، نہیں نہیں بالکل بھی نہیں ایسا جناب! درویش خدا مست جیسا دھنی اور کون ہوگا جی، وہ تو رب تعالٰی کی دی ہوئی نعمتوں پر شُکر گزار ہوتا ہے۔
جی اپنی ذات کے لیے تو وہ قانع ہوتا ہے، لیکن مخلوق خدا کے لیے اس جیسا کشادہ دل سخی اور کون ہوگا، مانگتا رب سے ہے وہ اور وہ بھی اپنے لیے نہیں جی، خلق خدا میں تقسیم کرنے کے لیے، ہر پل ہر لمحہ دست بہ دعا، جس کی آنکھیں مخلوق خدا کے دُکھوں پر آزردہ اور قلب بے چین رہتا ہے، وہ ان کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے، خود تو وہ چادر صبر میں لپٹا ہوا ہوتا ہے اور بس رب کی مرضی میں مُجسّم تسلیم۔
فقیر لوہار بابا کے ساتھ رہنے لگا کہ یہی بابا جی حضور کا حکم تھا۔ وہ کسانوں اور مزدوروں کی چھوٹی سی بستی تھی، تن افلاس و خستہ پر لباس کی تہمت لیے مدقوق ڈھانچے، بے خواب اور ویران آنکھیں، جیون کو ترستے ہوئے، کسی مسیحا کی راہ تکتے ہوئے، ایام عذاب کو جھیلتے ہوئے کسان اور مزدور، ٹھیک ہے ان میں چند جوانوں کی جسمانی حالت کچھ بہتر تھی لیکن وہ بھی اسی راہ کے مسافر تھے جنہیں آخر اپنے بوڑھوں کی جگہ سنبھال لینا تھی۔
یہ وہ کسان اور مزدور تھے جو کسی بڑے جاگیردار جو ان پر فرعون کی طرح مسلط تھے، کی کُلّی ملکیت تھے اور ان سے منسوب ہر چیز، جی انسان بھی، ان کی جوان بچیاں اور ازواج بھی کہ جاگیردار کے سامنے وہ سر جھکائے رہتے اور بس اس کی خوش نُودی کے لیے ہر وقت اور کچھ بھی کرنے کو تیار، اغواء سے قتل تک بھی، اس لیے کہ وہ نادان و مجبور و بے بس و مقہور اسی کو اپنا پالن ہار سمجھتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی ایسا نہیں بھی سمجھتا تھا تب بھی وہ بس کڑھتا رہتا خاک ہوجاتا یا پھر دوسروں جیسا۔ کچے بے ترتیب مکانات کی بستی جس کی گلیوں سے گندا پانی بہتا ہوا کھیتوں کی راہ لیتا تھا، کبھی سوچیے ان کے گھروں کا غلیظ پانی جس سے ہم سب بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھی ان جاگیرداروں کے کھیت سیراب کرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ ننگ دھڑنک بالک جو عجیب سے کھیل کھیلنے میں مگن رہتے۔ سورج کسی اور طرٖف جا نکلتا تو تاریکی چھا جاتی اور بستی کے مکانات لالٹین کی روشنی میں یرقان ذرہ ہوجاتے، نوجوانوں اور بوڑھوں کی ٹولیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی ایک دوجے کی غیبت اور ناگفتنی حرکات کی تشہیر کرتیں اور پھر آہستہ آہستہ سب اپنے مکانات میں قید ہوجاتے، صبح سویرے منہ اندھیرے پھر سے وہی معمولات شروع ہوتے۔ ہاں فصل کٹنے پر ضرور جشن کا سماں ہوتا جس میں سے ان کی محنت سے بارآور فصل کا بڑا حصہ تو زمین دار لے اڑتا اور حصے میں ان کے آتے چند دانے۔ عجب زندگی ہے ان کی، نہ جانے کب بدلیں گے ان کے حالات، نہ جانے کب۔ چھوڑیے! فقیر پھر کسی اور جانب نکل رہا ہے ان کا جیون نزع کی اذیّت جیسا تھا، نہ جانے کب وہ سُکھ اور اپنی محنت کا جائز اجر پائیں گے اور انسان سمجھے جائیں گے۔
ایسی بستی میں لوہار بابا ان کے اوزار بناتے تھے۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا کمرا اور اس کے آگے سرکنڈوں اور گھاس پھوس کے چھپّر کے نیچے ایک بھٹّی جسے دھونکنے کے لیے چرمی مشک اور سان ہتھوڑے اور ان سے کھیلتے ہوئے ہمارے لوہار بابا اور میں۔ ان کے ہاتھ میں جادُو تھا کسی بھی آہنی پٹّی یا سلاخ کو بھٹی میں سرخ کرتے اور پھر ان کے ہتھوڑے کی چند ضربوں سے وہ خام کندن بن کر کسی اوزار کا روپ دھار لیتی اور کسی مزدور یا کسان کو روزی کمانے میں اس کا ساتھ نبھاتی اور جب ناکارہ ہوجاتی تو پھر سے بابا کے دست شفا سے کارآمد بن جاتی۔
واہ جی! کیا نظام قدرت ہے ناں گر ہم سوچیں تب ہم پر کُھلے بھی۔ یہ جو اصل بابا لوگ ہیں ناں کسی بھی انسان کو کندن بناتے ہیں، بس بتاتے نہیں ہیں، کوئی دعویٰ نہیں کرتے، اسے جیون بھٹی میں سرخ کرتے ہیں اور پھر اسے چند ضربوں سے تقسیم کار بنا دیتے ہیں، پھر وہ خلق خدا کو اس کا کنبہ سمجھتے ہوئے ان میں آسانیاں، سُکھ، امید، حوصلہ اور عزم تقسیم کرتے ہیں اور ان سے دُکھ، ناامیدی، کم ہمتی اور مایوسی کو جھاڑتے رہتے ہیں، ہاتھ ہے اﷲ کا بندۂ مومن کا ہاتھ۔ دن بھر کسان اور مزدور آتے رہتے، کسی کا ہل مرمت کرنا ہے، کسی کا پھاوڑا، کسی کا کُھرپا اور کسی کا کھدال اور ایسے ہی نہ جانے کتنے ہی اوزار۔ بابا کبھی کسی سے معاوضہ طے نہیں کرتے تھے، کسی نے دیا لے لیا، نہیں دیا تو بس خیر ہے۔
کسی سے زیادہ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ لوگ بھی ان سے زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے، بس خاموشی۔ فقیر کو ان کے پاس آئے ہوئے تھوڑے دن ہی ہوئے تھے، میں سارا دن ان کا ہاتھ بٹاتا اور بس۔ وہ عصر تک کام کرتے اور پھر مجھے وہیں چھوڑ کر کہیں چلے جاتے اور غروب آفتاب کے کچھ دیر بعد واپس آتے تو کھانا ساتھ لاتے تھے اور فرماتے تھے: تمہاری مہمان نوازی کر رہا ہوں پھر خود بنائیں گے کھانا، اس کے لیے تیار رہنا۔ فقیر کہتا: بابا میں تو ہر پل تیار ہوں آپ حکم کیجیے تو مسکراتے بس۔ چھوٹا سا کمرا تھا جس میں ایک موٹی دری بجھی ہوئی تھی بس وہی ہمارا بستر تھی۔ بابا بھی شب بیدار تھے، نصف شب کو جاگ جاتے اور پھر وہی مناجات۔ واہ جی واہ! بابا عصر میں کہیں چلے جاتے تو فقیر بستی میں جا نکلتا اور کھیت کھلیان دیکھتا۔ کسی نے فقیر سے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی، ہاں ایک مرتبہ گزرتے ہوئے نوجوانوں کی ٹولی میں سے ایک نے پابرہنہ، پابند زنجیر فقیر کو دراز گیسو اور سیاہ لباس میں دیکھ کر آوازہ کسا ہی تھا اور فقیر نے اسے دیکھا ہی تھا کہ ان میں ایک نے غضب ناک ہوکر اسے کہا: کیا کر رہے ہو! جانتے نہیں یہ بابا کا بچہ ہے۔ اتنا سن کر وہ نوجوان فقیر کے پاس دوڑتا ہوا آیا تھا اور پھر اس نے فقط اتنا کہا: جی مجھ سے بے دھیانی میں غلطی ہوگئی مجھے معاف کریں۔
تب فقیر نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے فقط اتنا کہا تھا: کوئی بات نہیں، ہم انسان ہیں خطا تو ہم سے ہوتی ہی ہے۔ اب اس سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ فقیر بہت اعلٰی ظرف ہے، نہیں جناب ایسا ہوتا تو کیا بات تھی، فقیر اس قبیلے سے ہے جہاں بلا سوچے سمجھے مارنا یا مِٹ جانا تو غیرت کہلاتا ہے، فقیر نے تو اپنے بابا کی تقلید میں ایسا کہا تھا۔ فقیر نے بابا کو اس واقعے کا کچھ نہیں بتایا تھا، ہاں خورشید ڈھلے جب وہ آئے تھے تو انہوں نے بس اتنا کہا تھا: اچھا کیا تم نے بیٹا انسان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جی اس دن کے بعد بستی میں کسی نے فقیر سے کوئی نازیبا کلام نہیں کیا تھا۔
لیکن فقیر اس وقت یہ راز نہیں جان پایا تھا کہ وہ بابا سے بے تکلّف کیوں نہیں ہیں، جب کہ ہمارے گاؤں دیہات میں تو بابا ایسے ہنرمندوں کو لوگ بس سرسری سا لیتے ہیں بل کہ ان کے پیشے کو بھی حقارت سے دیکھتے اور انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ پھر ایک دن راز کھل گیا تھا کہ کیوں وہ بابا سے بے تکلّف نہیں تھے۔ وہ دن فقیر کو یاد ہے جب کوئی جاگیردار بستی میں داخل ہوا تھا اور ہمارے سامنے والے کھیت میں آکر کھڑا ہوگیا تھا، اس کے بندوق بردار اس کے آس پاس چوکس تھے اور کسان دوڑتے ہوئے وہاں پہنچ رہے تھے، پھر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائی تھیں اور چلتا ہوا ہمارے سامنے آکھڑا ہوا تھا، بابا بہ دستور اپنے کام میں منہمک تھے لیکن فقیر اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کی آواز سنائی دی: میں آیا ہوں دیکھا نہیں کیا مجھے۔ وہ بابا سے مخاطب تھا لیکن بابا نے ان سنی کردی تو اس کا غضب بڑھا تھا: تم سُن نہیں رہے؟ اس کا بس اتنا کہنا تھا کہ بابا حضور نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا: میں دیکھ بھی رہا ہوں اور سُن بھی رہا ہوں اور اگر میں کھڑا ہوگیا تو تم کھڑے نہیں رہ سکو گے۔
اپنی راہ لو، ہم فقیروں کا تم جیسوں سے کیا کام، جاؤ۔ بابا کی آوازِ بلند سب نے سنی تھی لیکن وہ تو غصّے سے کانپ رہا تھا اور اس کے بندوق بردار اس کے حکم کا انتظار کر رہے تھے کہ بابا کھڑے ہوئے، اس کا ہاتھ پکڑا اور کچھ دور لے گئے، جی میں بابا کے ساتھ تھا جب انہوں نے اسے کہا: جا اپنی راہ لگ کیوں اپنا مذاق بنا رہا ہے تُو، حرام سے پلا ہوا انسان کسی فقیر کو زیر کرلے گا، نہیں تیری بُھول ہے یہ، ہاں اگر حلال کا لقمہ تُو کھاتا تو فقیر کو اپنے سامنے بچھا ہوا پاتا، تیرے پاس زیادہ وقت نہیں، اس لیے جا اپنی راہ لگ جا، اور اگر اجازت دے تو ساری بستی کے سامنے تیرے کرتوت بیان کروں۔ اتنا کہہ کر بابا اسے وہیں چھوڑ کر واپس آکر اپنے کام میں مشغول ہوگئے تھے۔ جی فقیر نے اسے دیکھا تھا بل کہ ساری بستی نے کہ وہ واپس آیا اور کسی سے کوئی بات کیے واپس چلا گیا تھا۔ فقیر نے تو یہ واقعہ ہی دیکھا تھا، بستی والوں نے نہ جانے اور کیا کچھ واقعات دیکھے ہوں گے کہ وہ بابا سے بے تکلّف نہیں تھے۔
بعد میں تو فقیر نے بھی بابا کے عجیب اور انوکھے رنگ و روپ دیکھے۔ چلیے ایک بتائے دیتا ہے فقیر! ایک دن بابا نے جاتے ہوئے اسے کہا کہ وہ رات کو نہیں آئیں گے تو فقیر نے جی اچھا کہا۔ پہلے تو میں بستی میں گھوما پھرا کھیت کھلیان دیکھے، چرند پرند سے گپ شپ کی اور پھر فقیر سونے کی تیاری کرنے لگا لیکن پھر بے کلی ہونے لگی تو کمرے سے باہر نکل آیا، کچھ دیر اِدھر اُدھر گھوم پھر کر واپس پہنچا اور کمرے میں داخل ہوا اور سونے کی کوشش کرنے لگا، ابھی فقیر نے چادر اوڑھی ہی تھی کہ سرسراہٹ سنائی دی میں نے نظر انداز کیا لیکن وہ بڑھتی ہی جارہی تھی، جب میں نے چادر منہ سے ہٹائی تو بابا جی جہاں سوتے تھے وہاں سانپ لیٹے ہوئے تھے، جی ایک دو نہیں کئی سانپ، سچ پوچھیے تو مجھے اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا، میں ابھی انہیں خوف زدہ ہوکر دیکھ ہی رہا تھا کہ مجھے بابا کی آواز سنائی دی: بیٹا! تم آرام سے سو جاؤ، یہ بھی رب تعالٰی کی مخلوق ہے، اپنے ہی بچے ہیں، مہمان ہیں۔
میں سمجھا بابا جی آگئے ہیں لیکن وہاں تو کوئی نہیں تھا، میں نے پوری ہمت جمع کی اور اسلام علیکم کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، سانپوں کی سرسراہٹ ختم ہوگئی تھی اور وہ اک دوجے سے لپٹے ہوئے خوابیدہ تھے، میں باہر نکلا کہ کہیں بابا جی باہر کھڑے ہوں گے لیکن نہیں جناب وہ کہیں مجھے دکھائی نہیں دیے، میں واپس آکر اپنی جگہ سو گیا تھا۔ رات کا آخری پہر تھا کہ میں جاگ اٹھا تو سانپ غائب تھے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا میں نے خواب دیکھا ہے یا حقیقت میں ایسا تھا، اسی کش مکش میں باہر نکلا اور وضو کرکے جب واپس آیا تو وہ وہاں موجود تھے۔ یہ تو ایک واقعہ سنایا ہے جی! رب تعالٰی نے چاہا تو اور بھی بیان کرے گا فقیر۔ پھر وہ سورج بھی طلوع ہوا جب فقیر کی مہمان داری ختم ہوگئی تھی، کھانا بنانے کی ذمے داری اسے سونپ دی گئی اور پھر تو چل سو چل۔ فقیر پر بابا جی کُھلتے چلے جارہے تھے، مسکراتے، بات کرتے تو راز ہائے کائنات کھولتے، خوش بُو پھیلی رہتی ان کی، فقیر ان سے بلا تکلّفہر بات کرسکتا تھا، ہم رات کو اکثر باہر گھومتے اور نہ جانے کہاں کہاں نکل جاتے، فقیر حیران ہوتا تو وہ اور حیران کرتے، پہلے کسی الجھن میں خود ڈالتے اور پھر اس کی سلجھن بتاتے، عجب رنگ و روپ تھا بابا جی کا۔ وہ رب تعالٰی کی کائنات کے اسرار کو جانتے تھے اور خدا کے عطا کیے ہوئے نُور سے دیکھتے تھے۔ فقیر کبھی کوئی فرمائش کرتا تو فرماتے: ابھی اسی وقت چاہیے یا تم مجھے کچھ وقت دے سکتے ہو، اور میں ناہنجار اکثر انہیں امتحان میں ڈال دیتا تھا اور پھر جب وہ پوری ہوجاتی تو حیرانی میرے سامنے ناچتی کہ اس وقت یہ کیسے ممکن ہوا، لیکن جی ہوا ایسا اور کئی بار۔
ایک دن ہمارے سامنے ایک کار آکر رک گئی اور اس میں سے حنیف بھائی اور وہ ماہ وش نکلے۔ حنیف بھائی ماتم کرتے ہوئے فقیر سے لپٹ گئے، بس یہ کہتے جاتے تھے، چھوڑ گئے ناں وہ بھی مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔ !
بابا حضور کی جائے آرام کو رب تعالٰی نعمتوں، راحتوں اور نُور سے بھر رکھے، فقیر کو یقین نہیں کامل یقین ہے کہ ایسا ہی ہے، کے آنکھوں سے اوجھل ہونے کے بعد فقیر کی بے کلی تو ضرور بڑھ گئی تھی اور بے چینی بھی، اور کوئی ایسی ویسی بھلا، لیکن سکھایا گیا ہے، بتایا گیا ہے۔
سمجھایا گیا ہے کہ بس رب کی رضا میں راضی رہو، بس تیری رضا میری تسلیم جپو۔ فقیر اس کا اعتراف کرتا ہے کہ اب تک بھی بس کورا ہی ہے، بس ٹنڈ منڈ شجر کی موافق، لیکن نہیں یہ مثال بھی عبث اور اپنے لیے رعایت کے مترادف ہے، وہ ٹنڈ منڈ شجر بھی کام کا ہوتا ہے جی، اس کی لکڑی تو کام کی ہوتی اور کسی کا چولہا چلانے کے کام تو آسکتی ہے ناں، لیکن فقیر! بس رہنے دیجیے، بے کار و بے مصرف، مجسم شر و فساد، نرا ڈھول، چرب زباں و ناقص بیاں، پناہ۔ رب تعالٰی فقیر کے کرتوتوں، شر اور حماقتوں سے آپ سب کو محفوظ و مامون فرمائے رکھے اور فقیر کے عیوب بے شمار کی ستّاری فرمائے رکھے اور بس درگزر فرماتا رہے۔ آمین
ایک درویش کی جمع پونجی ہوتی ہی کیا! بس مسافر کہ جس کا سامان زیست انتہائی مختصر جسے وہ بہ آسانی اپنے کاندھے پر پوٹلی بنائے اٹھائے رب کی زمین پر گھومتا پھرتا ہے، چوری کا ڈر نہ راہ زنی کا، اﷲ دے اور بندہ لے، مولائی مست، اندیشہ ہائے سُود و زیاں سے یک سر مامون، وہ لمحۂ موجود میں جیتا ہے جی، کل کس نے دیکھی ہے جی! اگلے لمحے، اگلے دَم کا کیا بھروسا اور کیسا اعتبار، آئے، نہ آئے، اس کا ہاتھ تو رب کا ہوتا ہے جی! کار کُشا و کارساز، وہ اپنی ظاہری نظر سے دیکھتا ہی کب ہے جی، وہ تو خدا کے نُور سے دیکھتا ہے جناب! اسی لیے کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ خدا کے نُور سے دیکھتا ہے۔ بابا جی حضور خُلد مکانی ایسے ہی تھے۔
خاص بندۂ خدائے کریم و رحیم و ستّار و لطیف و خبیر۔ نہ جانے کیا کہے جارہا ہے فقیر! لیکن ذرا سا دم لیجیے ناں، آپ درویش خُدا مست کو قلاش سمجھ بیٹھے ہیں کیا! اس کے پاس ظاہری مال و اسباب جو نہیں ہوتا، اس لیے؟ دانش ور تو آپ ہیں ہی، اس میں کیا کلام جی! لیکن پیشگی معذرت جی، طبع نازک پر گراں بار اور سماعت کو ناگوار گزریں گے فقیر کے لفظ، لیکن بہ صد احترام عرض ہے کہ گم راہ ہو چلے ہیں آپ، نہیں نہیں بالکل بھی نہیں ایسا جناب! درویش خدا مست جیسا دھنی اور کون ہوگا جی، وہ تو رب تعالٰی کی دی ہوئی نعمتوں پر شُکر گزار ہوتا ہے۔
جی اپنی ذات کے لیے تو وہ قانع ہوتا ہے، لیکن مخلوق خدا کے لیے اس جیسا کشادہ دل سخی اور کون ہوگا، مانگتا رب سے ہے وہ اور وہ بھی اپنے لیے نہیں جی، خلق خدا میں تقسیم کرنے کے لیے، ہر پل ہر لمحہ دست بہ دعا، جس کی آنکھیں مخلوق خدا کے دُکھوں پر آزردہ اور قلب بے چین رہتا ہے، وہ ان کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے، خود تو وہ چادر صبر میں لپٹا ہوا ہوتا ہے اور بس رب کی مرضی میں مُجسّم تسلیم۔
فقیر لوہار بابا کے ساتھ رہنے لگا کہ یہی بابا جی حضور کا حکم تھا۔ وہ کسانوں اور مزدوروں کی چھوٹی سی بستی تھی، تن افلاس و خستہ پر لباس کی تہمت لیے مدقوق ڈھانچے، بے خواب اور ویران آنکھیں، جیون کو ترستے ہوئے، کسی مسیحا کی راہ تکتے ہوئے، ایام عذاب کو جھیلتے ہوئے کسان اور مزدور، ٹھیک ہے ان میں چند جوانوں کی جسمانی حالت کچھ بہتر تھی لیکن وہ بھی اسی راہ کے مسافر تھے جنہیں آخر اپنے بوڑھوں کی جگہ سنبھال لینا تھی۔
یہ وہ کسان اور مزدور تھے جو کسی بڑے جاگیردار جو ان پر فرعون کی طرح مسلط تھے، کی کُلّی ملکیت تھے اور ان سے منسوب ہر چیز، جی انسان بھی، ان کی جوان بچیاں اور ازواج بھی کہ جاگیردار کے سامنے وہ سر جھکائے رہتے اور بس اس کی خوش نُودی کے لیے ہر وقت اور کچھ بھی کرنے کو تیار، اغواء سے قتل تک بھی، اس لیے کہ وہ نادان و مجبور و بے بس و مقہور اسی کو اپنا پالن ہار سمجھتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی ایسا نہیں بھی سمجھتا تھا تب بھی وہ بس کڑھتا رہتا خاک ہوجاتا یا پھر دوسروں جیسا۔ کچے بے ترتیب مکانات کی بستی جس کی گلیوں سے گندا پانی بہتا ہوا کھیتوں کی راہ لیتا تھا، کبھی سوچیے ان کے گھروں کا غلیظ پانی جس سے ہم سب بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھی ان جاگیرداروں کے کھیت سیراب کرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ ننگ دھڑنک بالک جو عجیب سے کھیل کھیلنے میں مگن رہتے۔ سورج کسی اور طرٖف جا نکلتا تو تاریکی چھا جاتی اور بستی کے مکانات لالٹین کی روشنی میں یرقان ذرہ ہوجاتے، نوجوانوں اور بوڑھوں کی ٹولیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی ایک دوجے کی غیبت اور ناگفتنی حرکات کی تشہیر کرتیں اور پھر آہستہ آہستہ سب اپنے مکانات میں قید ہوجاتے، صبح سویرے منہ اندھیرے پھر سے وہی معمولات شروع ہوتے۔ ہاں فصل کٹنے پر ضرور جشن کا سماں ہوتا جس میں سے ان کی محنت سے بارآور فصل کا بڑا حصہ تو زمین دار لے اڑتا اور حصے میں ان کے آتے چند دانے۔ عجب زندگی ہے ان کی، نہ جانے کب بدلیں گے ان کے حالات، نہ جانے کب۔ چھوڑیے! فقیر پھر کسی اور جانب نکل رہا ہے ان کا جیون نزع کی اذیّت جیسا تھا، نہ جانے کب وہ سُکھ اور اپنی محنت کا جائز اجر پائیں گے اور انسان سمجھے جائیں گے۔
ایسی بستی میں لوہار بابا ان کے اوزار بناتے تھے۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا کمرا اور اس کے آگے سرکنڈوں اور گھاس پھوس کے چھپّر کے نیچے ایک بھٹّی جسے دھونکنے کے لیے چرمی مشک اور سان ہتھوڑے اور ان سے کھیلتے ہوئے ہمارے لوہار بابا اور میں۔ ان کے ہاتھ میں جادُو تھا کسی بھی آہنی پٹّی یا سلاخ کو بھٹی میں سرخ کرتے اور پھر ان کے ہتھوڑے کی چند ضربوں سے وہ خام کندن بن کر کسی اوزار کا روپ دھار لیتی اور کسی مزدور یا کسان کو روزی کمانے میں اس کا ساتھ نبھاتی اور جب ناکارہ ہوجاتی تو پھر سے بابا کے دست شفا سے کارآمد بن جاتی۔
واہ جی! کیا نظام قدرت ہے ناں گر ہم سوچیں تب ہم پر کُھلے بھی۔ یہ جو اصل بابا لوگ ہیں ناں کسی بھی انسان کو کندن بناتے ہیں، بس بتاتے نہیں ہیں، کوئی دعویٰ نہیں کرتے، اسے جیون بھٹی میں سرخ کرتے ہیں اور پھر اسے چند ضربوں سے تقسیم کار بنا دیتے ہیں، پھر وہ خلق خدا کو اس کا کنبہ سمجھتے ہوئے ان میں آسانیاں، سُکھ، امید، حوصلہ اور عزم تقسیم کرتے ہیں اور ان سے دُکھ، ناامیدی، کم ہمتی اور مایوسی کو جھاڑتے رہتے ہیں، ہاتھ ہے اﷲ کا بندۂ مومن کا ہاتھ۔ دن بھر کسان اور مزدور آتے رہتے، کسی کا ہل مرمت کرنا ہے، کسی کا پھاوڑا، کسی کا کُھرپا اور کسی کا کھدال اور ایسے ہی نہ جانے کتنے ہی اوزار۔ بابا کبھی کسی سے معاوضہ طے نہیں کرتے تھے، کسی نے دیا لے لیا، نہیں دیا تو بس خیر ہے۔
کسی سے زیادہ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ لوگ بھی ان سے زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے، بس خاموشی۔ فقیر کو ان کے پاس آئے ہوئے تھوڑے دن ہی ہوئے تھے، میں سارا دن ان کا ہاتھ بٹاتا اور بس۔ وہ عصر تک کام کرتے اور پھر مجھے وہیں چھوڑ کر کہیں چلے جاتے اور غروب آفتاب کے کچھ دیر بعد واپس آتے تو کھانا ساتھ لاتے تھے اور فرماتے تھے: تمہاری مہمان نوازی کر رہا ہوں پھر خود بنائیں گے کھانا، اس کے لیے تیار رہنا۔ فقیر کہتا: بابا میں تو ہر پل تیار ہوں آپ حکم کیجیے تو مسکراتے بس۔ چھوٹا سا کمرا تھا جس میں ایک موٹی دری بجھی ہوئی تھی بس وہی ہمارا بستر تھی۔ بابا بھی شب بیدار تھے، نصف شب کو جاگ جاتے اور پھر وہی مناجات۔ واہ جی واہ! بابا عصر میں کہیں چلے جاتے تو فقیر بستی میں جا نکلتا اور کھیت کھلیان دیکھتا۔ کسی نے فقیر سے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی، ہاں ایک مرتبہ گزرتے ہوئے نوجوانوں کی ٹولی میں سے ایک نے پابرہنہ، پابند زنجیر فقیر کو دراز گیسو اور سیاہ لباس میں دیکھ کر آوازہ کسا ہی تھا اور فقیر نے اسے دیکھا ہی تھا کہ ان میں ایک نے غضب ناک ہوکر اسے کہا: کیا کر رہے ہو! جانتے نہیں یہ بابا کا بچہ ہے۔ اتنا سن کر وہ نوجوان فقیر کے پاس دوڑتا ہوا آیا تھا اور پھر اس نے فقط اتنا کہا: جی مجھ سے بے دھیانی میں غلطی ہوگئی مجھے معاف کریں۔
تب فقیر نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے فقط اتنا کہا تھا: کوئی بات نہیں، ہم انسان ہیں خطا تو ہم سے ہوتی ہی ہے۔ اب اس سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ فقیر بہت اعلٰی ظرف ہے، نہیں جناب ایسا ہوتا تو کیا بات تھی، فقیر اس قبیلے سے ہے جہاں بلا سوچے سمجھے مارنا یا مِٹ جانا تو غیرت کہلاتا ہے، فقیر نے تو اپنے بابا کی تقلید میں ایسا کہا تھا۔ فقیر نے بابا کو اس واقعے کا کچھ نہیں بتایا تھا، ہاں خورشید ڈھلے جب وہ آئے تھے تو انہوں نے بس اتنا کہا تھا: اچھا کیا تم نے بیٹا انسان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جی اس دن کے بعد بستی میں کسی نے فقیر سے کوئی نازیبا کلام نہیں کیا تھا۔
لیکن فقیر اس وقت یہ راز نہیں جان پایا تھا کہ وہ بابا سے بے تکلّف کیوں نہیں ہیں، جب کہ ہمارے گاؤں دیہات میں تو بابا ایسے ہنرمندوں کو لوگ بس سرسری سا لیتے ہیں بل کہ ان کے پیشے کو بھی حقارت سے دیکھتے اور انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ پھر ایک دن راز کھل گیا تھا کہ کیوں وہ بابا سے بے تکلّف نہیں تھے۔ وہ دن فقیر کو یاد ہے جب کوئی جاگیردار بستی میں داخل ہوا تھا اور ہمارے سامنے والے کھیت میں آکر کھڑا ہوگیا تھا، اس کے بندوق بردار اس کے آس پاس چوکس تھے اور کسان دوڑتے ہوئے وہاں پہنچ رہے تھے، پھر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائی تھیں اور چلتا ہوا ہمارے سامنے آکھڑا ہوا تھا، بابا بہ دستور اپنے کام میں منہمک تھے لیکن فقیر اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کی آواز سنائی دی: میں آیا ہوں دیکھا نہیں کیا مجھے۔ وہ بابا سے مخاطب تھا لیکن بابا نے ان سنی کردی تو اس کا غضب بڑھا تھا: تم سُن نہیں رہے؟ اس کا بس اتنا کہنا تھا کہ بابا حضور نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا: میں دیکھ بھی رہا ہوں اور سُن بھی رہا ہوں اور اگر میں کھڑا ہوگیا تو تم کھڑے نہیں رہ سکو گے۔
اپنی راہ لو، ہم فقیروں کا تم جیسوں سے کیا کام، جاؤ۔ بابا کی آوازِ بلند سب نے سنی تھی لیکن وہ تو غصّے سے کانپ رہا تھا اور اس کے بندوق بردار اس کے حکم کا انتظار کر رہے تھے کہ بابا کھڑے ہوئے، اس کا ہاتھ پکڑا اور کچھ دور لے گئے، جی میں بابا کے ساتھ تھا جب انہوں نے اسے کہا: جا اپنی راہ لگ کیوں اپنا مذاق بنا رہا ہے تُو، حرام سے پلا ہوا انسان کسی فقیر کو زیر کرلے گا، نہیں تیری بُھول ہے یہ، ہاں اگر حلال کا لقمہ تُو کھاتا تو فقیر کو اپنے سامنے بچھا ہوا پاتا، تیرے پاس زیادہ وقت نہیں، اس لیے جا اپنی راہ لگ جا، اور اگر اجازت دے تو ساری بستی کے سامنے تیرے کرتوت بیان کروں۔ اتنا کہہ کر بابا اسے وہیں چھوڑ کر واپس آکر اپنے کام میں مشغول ہوگئے تھے۔ جی فقیر نے اسے دیکھا تھا بل کہ ساری بستی نے کہ وہ واپس آیا اور کسی سے کوئی بات کیے واپس چلا گیا تھا۔ فقیر نے تو یہ واقعہ ہی دیکھا تھا، بستی والوں نے نہ جانے اور کیا کچھ واقعات دیکھے ہوں گے کہ وہ بابا سے بے تکلّف نہیں تھے۔
بعد میں تو فقیر نے بھی بابا کے عجیب اور انوکھے رنگ و روپ دیکھے۔ چلیے ایک بتائے دیتا ہے فقیر! ایک دن بابا نے جاتے ہوئے اسے کہا کہ وہ رات کو نہیں آئیں گے تو فقیر نے جی اچھا کہا۔ پہلے تو میں بستی میں گھوما پھرا کھیت کھلیان دیکھے، چرند پرند سے گپ شپ کی اور پھر فقیر سونے کی تیاری کرنے لگا لیکن پھر بے کلی ہونے لگی تو کمرے سے باہر نکل آیا، کچھ دیر اِدھر اُدھر گھوم پھر کر واپس پہنچا اور کمرے میں داخل ہوا اور سونے کی کوشش کرنے لگا، ابھی فقیر نے چادر اوڑھی ہی تھی کہ سرسراہٹ سنائی دی میں نے نظر انداز کیا لیکن وہ بڑھتی ہی جارہی تھی، جب میں نے چادر منہ سے ہٹائی تو بابا جی جہاں سوتے تھے وہاں سانپ لیٹے ہوئے تھے، جی ایک دو نہیں کئی سانپ، سچ پوچھیے تو مجھے اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا، میں ابھی انہیں خوف زدہ ہوکر دیکھ ہی رہا تھا کہ مجھے بابا کی آواز سنائی دی: بیٹا! تم آرام سے سو جاؤ، یہ بھی رب تعالٰی کی مخلوق ہے، اپنے ہی بچے ہیں، مہمان ہیں۔
میں سمجھا بابا جی آگئے ہیں لیکن وہاں تو کوئی نہیں تھا، میں نے پوری ہمت جمع کی اور اسلام علیکم کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، سانپوں کی سرسراہٹ ختم ہوگئی تھی اور وہ اک دوجے سے لپٹے ہوئے خوابیدہ تھے، میں باہر نکلا کہ کہیں بابا جی باہر کھڑے ہوں گے لیکن نہیں جناب وہ کہیں مجھے دکھائی نہیں دیے، میں واپس آکر اپنی جگہ سو گیا تھا۔ رات کا آخری پہر تھا کہ میں جاگ اٹھا تو سانپ غائب تھے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا میں نے خواب دیکھا ہے یا حقیقت میں ایسا تھا، اسی کش مکش میں باہر نکلا اور وضو کرکے جب واپس آیا تو وہ وہاں موجود تھے۔ یہ تو ایک واقعہ سنایا ہے جی! رب تعالٰی نے چاہا تو اور بھی بیان کرے گا فقیر۔ پھر وہ سورج بھی طلوع ہوا جب فقیر کی مہمان داری ختم ہوگئی تھی، کھانا بنانے کی ذمے داری اسے سونپ دی گئی اور پھر تو چل سو چل۔ فقیر پر بابا جی کُھلتے چلے جارہے تھے، مسکراتے، بات کرتے تو راز ہائے کائنات کھولتے، خوش بُو پھیلی رہتی ان کی، فقیر ان سے بلا تکلّفہر بات کرسکتا تھا، ہم رات کو اکثر باہر گھومتے اور نہ جانے کہاں کہاں نکل جاتے، فقیر حیران ہوتا تو وہ اور حیران کرتے، پہلے کسی الجھن میں خود ڈالتے اور پھر اس کی سلجھن بتاتے، عجب رنگ و روپ تھا بابا جی کا۔ وہ رب تعالٰی کی کائنات کے اسرار کو جانتے تھے اور خدا کے عطا کیے ہوئے نُور سے دیکھتے تھے۔ فقیر کبھی کوئی فرمائش کرتا تو فرماتے: ابھی اسی وقت چاہیے یا تم مجھے کچھ وقت دے سکتے ہو، اور میں ناہنجار اکثر انہیں امتحان میں ڈال دیتا تھا اور پھر جب وہ پوری ہوجاتی تو حیرانی میرے سامنے ناچتی کہ اس وقت یہ کیسے ممکن ہوا، لیکن جی ہوا ایسا اور کئی بار۔
ایک دن ہمارے سامنے ایک کار آکر رک گئی اور اس میں سے حنیف بھائی اور وہ ماہ وش نکلے۔ حنیف بھائی ماتم کرتے ہوئے فقیر سے لپٹ گئے، بس یہ کہتے جاتے تھے، چھوڑ گئے ناں وہ بھی مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔ !