کوچۂ سخن
غزل
سَر اٹھاتی فنا کی بے چینی
اف یہ خلقِ خدا کی بے چینی
لحظہ لحظہ دہل رہی ہے بقا
بڑھ رہی ہے قضا کی بے چینی
چین پاتی نہیں کسی لمحے
اس دلِ مبتلا کی بے چینی
کوئی طوفان آنے والا ہے
کہہ رہی ہے فضا کی بے چینی
تھرتھراتی لویں چراغوں کی
اس پہ اندھی ہوا کی بے چینی
میری پوروں میں آگ بھرتی ہے
تیرے بند قبا کی بے چینی
پائے درویش سے لپٹتی ہوئی
دیکھ حیرت سرا کی بے چینی
بارہا لب سے آ کے لپٹی ہے
ایک حرف صدا کی بے چینی
ابتدائے سفر میں بھی آزر
ساتھ ہے انتہا کی بے چینی
( جنید آزر۔ اسلام آباد)
...
غزل
پیرہن وہ جو کسی طور معطر ہی نہیں
کاغذی پھول ترا حاصلِ مصدر ہی نہیں
پوچھ مت کتنی خراشیں تھیں مرے ماتھے پر
جب یہ معلوم ہوا عشق یقیں پر ہی نہیں
آپ تصویر بناتے ہوئے تھک جائیں گے
میرے چہرے کے کئی رنگ میسر ہی نہیں
دکھ مجھے گھورتے رہتے ہیں اٹھا کر آنکھیں
جس طرح میرا مقدر تو مقدر ہی نہیں
ڈگریاں باپ کو مقروض بنا دیتی ہیں
آج کے دور کی تعلیم تو زیور ہی نہیں
اتنے نقصان اٹھا رکھے میں نے ساجد
اب مجھے رنج اٹھانے کا کوئی ڈر ہی نہیں
(لطیف ساجد، حافظ آباد)
...
غزل
چبھتی ہو جو سینے میں محبت، نہیں کرتے
ہم دل پہ کوئی ایسی عنایت نہیں کرتے
یہ جنس ہمیں ملتی ہے اس وقت کہ جب ہم
محسوس محبت کی ضرورت نہیں کرتے
مقتل سے صدا دے، یا کوئی دل کے نگر سے
ہم وعدہ وفا کرتے ہیں غفلت نہیں کرتے
اس عہدِ عداوت میں بھی ہم امن کے داعی
بچوں کی امانت میں خیانت نہیں کرتے
ویسے تو طلب رہتی ہے منزل کی انہیں بھی
کچھ لوگ سفر کرنے کی زحمت نہیں کرتے
احساں نہیں لیتے کبھی ہم تازہ ہوا کا
دَم گھٹنے سے مر جاتے ہیں منت نہیں کرتے
جو لکھا گیا ہے وہ ہمیں مل کے رہے گا
ہم رزق کی خاطر کبھی عجلت نہیں کرتے
حیرت ہے کہ ہر ظلم سہے جاتے ہیں لیکن
دھرتی کے خداؤں سے بغاوت نہیں کرتے
منزل کبھی رہتی ہے فرح ہم سے گریزاں
یا ہم کبھی منزل پہ عنایت نہیں کرتے
(فرح خان۔ بورے والا)
...
غزل
ظلمتِ دہر کا احسان اتارا جائے
چاند سے کوئی فلک زاد پکارا جائے
چوم کر ماں کے قدم، اور دعائیں لے کر
گھر سے نکلوں تو مرے ساتھ ستارا جائے
فرقت و ہجر ہے کیا، دشتِ جدائی کیا ہے
تم کو معلوم ہو جب کوئی تمہارا جائے
پھر کہیں بیٹھ کے پی جائے اکٹھے چائے
پھر کوئی دن تو کہیں ساتھ گزارا جائے
تم پہ مرتا ہے کوئی شخص تمہارے جیسا
کیوں نہ اس شخص کی خاطر تمہیں ہارا جائے
کیسے تنکے کے سہارے کو سہارا سمجھوں
اس سہارے سے تو اچھا ہے سہارا جائے
یہ چراغوں کو بجھانے کی گھڑی ہے ایماں
جس نے اب چھوڑ کے جانا ہے خدارا جائے
...
غزل
اس لیے جان مری جان میں آئی ہوئی تھی
وہ پری جو مرے دالان میں آئی ہوئی تھی
جیسے اردو میں کہیں شعر سنا جا رہا ہو
ایسی شیرینی مرے کان میں آئی ہوئی تھی
راولاکوٹ کو گاڑی یونہی گھومی نہیں خود
اس سمے کوئی مرے دھیان میں آئی ہوئی تھی
کیسے ہچکولے نہ لیتی وہ بدن کی کشتی
وصل بے آب کے طوفان میں آئی ہوئی تھی
(تیمور رشید ۔راولاکوٹ ،کشمیر)
...
غزل
خواب کے ڈول کھینچتے ہوئے ہم
نیند تک آئے ڈولتے ہوئے ہم
یوں تھے خالی کہیں دھرے ہوئے ہم
لگ رہے تھے اسے بھرے ہوئے ہم
نظم ہوتے رہے کئی دن تک
اک غزل پر نظر کیے ہوئے ہم
عمر کی آخری ضرورت ہے
زندگی کو جییں مرے ہوئے ہم
آپ نے دل کی اَن سنی کر دی
دل کی آواز تھے بنے ہوئے ہم
دیکھ درویش ہوگئے آخر
ایک دیوانگی لیے ہوئے ہم
(امجد عادس۔راولاکوٹ ، آزاد کشمیر )
...
غزل
فتنۂ عشق کی تعزیر بتانے کے لیے
رو بہ رو آ، مری تقصیر بتانے کے لیے
شیشۂ چشم پہ اک عکس اتر آتا ہے
خواہشِ خواب کی تفسیر بتانے کے لیے
خون رکتا ہے رگوں میں تو چٹختی ہیں رگیں
لذتِ درد کی تاثیر بتانے کے لیے
اس نے بھیجا مجھے تحفے میں سیہ فام گلاب
جذبۂ شوق کی تقدیر بتانے کے لیے
رنگ کیسا ہے صدائے دلِ آشفتہ کا
آئینہ ہو گیا تصویر ،بتانے کے لیے
ان کہے راز کہے دیتی تھیں آنکھیں اس کی
اس کے پیمان کی تزویر بتانے کے لیے
خواب نے در جو طلسمات کے کھولے انجم
شب اتر آئی ہے تعبیر بتانے کے لیے
(انجم عثمان۔ کراچی)
...
غزل
لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے
جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبر ایسے
تیز دوڑا کے اچانک میری رسی کھینچی
اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے
آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں
کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے
زلف ایسی کہ سیاہ ریشمی جنگل کوئی
نین اس شخص کے ہیں سرمئی ،مرمر ایسے
کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا
بات تھی بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے
کس نے سوچا تھاکہ کمروں میں فقط چپ ہوگی
کس نے سوچا تھا کہ گزرے گا ستمبر ایسے
ہائے آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیر
ہمیں کہنا پڑا لکھے تھے مقدر ایسے
(ازبر سفیر ۔ پھلروان، سرگودھا)
...
غزل
یہ وقتِ انفصال سے آگے کی بات ہے
اک غم ہر اک ملال سے آگے کی بات ہے
وحشت سرائے عشق میں راتوں کو جاگنا
یہ لذتِ وصال سے آگے کی بات ہے
اس مہرِ نیم روز کی آنکھوں میں جھانکنا
ہر چشمِ ذی کمال سے آگے کی بات ہے
اس ذہنِ نا رسا سے کیا جنت کو سوچنا
وہ خواب اور خیال سے آگے کی بات ہے
(محب وفا۔ مہاراشٹر، ہندوستان)
...
غزل
توسنِ افلاکِ اِلّا رقص کر
آسماں کی خاک اڑاتا رقص کر
اے جمالِ شام، اے شامِ جمال
کائناتِ صبح میں آ، رقص کر
اے فلک لاہوت کے نغمات گا
اے زمیں مدہوش ہوجا رقص کر
سن سماعت کا تصوّر جھوم جا
دیکھ آوازِ تجلّا رقص کر
جو دھنیں لاتی ہیں خوشبوئے چمن
اُن دھنوں پر بے تحاشا رقص کر
مچھلیوں کو شاد رکھنے کے لیے
بار بار اے موجِ دریا رقص کر
لالہ و گل کی حضوری میں اسد
باغباں کا ہے تقاضا رقص کر
(سید اسد اللہ قادری۔ کراچی)
...
غزل
گرتے ہوئے مکان کے ملبے کا دکھ سمجھ
جاں سے گزرتے اپنے پرائے کا دکھ سمجھ
دھتکارنا ہے خیر ہے دھتکار لے مجھے
لیکن تو میرے ہاتھ میں کاسے کا دکھ سمجھ
کس نے کہا ہے تجھ سے کہ رو لے مرے حضور
کس نے کہا ہے تو مرے نوحے کا دکھ سمجھ
تجھ کو کسی سے پیار ہوا یا نہیں ہوا
لیکن تو میرے شعر کے مصرعے کا دکھ سمجھ
تجھ پر عیاں نہیں ہوا اچھا نہیں ہوا
لیکن گماں نہ کر تو خرابے کا دکھ سمجھ
(زاہد خان ۔ پہاڑ پور، ڈی آئی خان)
...
غزل
ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا تھا
میں جب ابھرا تھا، چمک دار نہیں ہوتا تھا
میری نظریں نہیں ہوتی تھیں بدن پر اس کے
چھو بھی لیتا تو گنہگار نہیں ہوتا تھا
ایسے شیطانی جزیرے پہ رہے ہیں ہم لوگ
سو کے اٹھتے تھے تو گھر بار نہیں ہوتا تھا
میں تو دو روز میں ہی بھول گیا ہوں تجھ کو
یہ ترے زخم کا معیار نہیں ہوتا تھا
اتنی نفرت تھی کہ پستول لیے پھرتے تھے سب
کوئی پھولوں کا خریدار نہیں ہوتا تھا
رنج ہوتا تھا اسے سامنے آ کر میرے
میں ان آنکھوں کا گرفتار نہیں ہوتا تھا
(نادر عریض۔ بہاولپور)
...
غزل
سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے
خیر! اب چپ بھی کہاں مجھ کو بھلی لگتی ہے
دوسرے رنگ نظر ہی نہیں آتے مجھ کو
زرد ایسا ہوں کہ ہر چیز ہری لگتی ہے
ایک ہی عمر ہے دونوں کی مگر دیکھنے میں
میری تنہائی ذرا مجھ سے بڑی لگتی ہے
وہ حویلی ہوں جو آباد نہیں ہو پاتی
گرچہ ہر سمت ہی سے کوئی گلی لگتی ہے
دیکھتا ہوں اُسے پھر مڑ کے کہیں دیکھتا ہوں
وہ مرے پاس ہے اوردور کھڑی لگتی ہے
جانے یہ بوجھ ہے کیسا کہ ذرا دم لوں تو
دفعتاً پیٹھ پہ نادیدہ چھڑی لگتی ہے
اب کُھلا مجھ پہ کہ خود مصرعِ بے وزن ہوں مَیں
اور مجھے دوسرے مصرع میں کمی لگتی ہے
یہ بھی کیا طرفہ اذیت ہے کہ اب آنکھوں کو
وہی مرجھائی کلی کھِلتی ہوئی لگتی ہے
مَیں اکیلا اسی زندان میں خوش رہ لیتا
تجھ کو دیکھوں تو سزا اور کڑی لگتی ہے
میرے اندر ہیں دراڑیں ہی دراڑیں شارق
پینٹ ہو جانے سے دیوار نئی لگتی ہے
(سعید شارق۔ اسلام آباد)