ایچ آئی وی متاثرہ بچوں کے والدین پرالگ گاؤں بسانے کیلیے دباؤ

متاثرہ خاندانوں کورتوڈیرو نہ چھوڑنے پرخاموش سماجی بائیکاٹ کا سامنا


سمیر مندھرو December 14, 2019
لاڑکانہ میں ایڈز کی وبا پر عالمی ماہرین کی ڈبلیو ایچ او کو بھیجی گئی پہلی رپورٹ سامنے آگئی۔ فوٹو:فائل

ایچ آئی وی ایڈز کے باعث قبل از وقت موت کے خطرے سے زیادہ مہلک ایچ آئی وی سے ہونے والی رسوائی ہے جولوگوں کو مار رہی ہے۔

ایچ آئی وی کے بدنما داغ کے ساتھ زندگی گزارنا سب سے زیادہ تکلیف دہ شے ہے۔ رتوڈیرو میں جہاں سیکڑوں بچے اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کے بغیر اس لاعلاج بیماری کا شکار ہوئے ہیں وہاں کے لوگوں نے متاثرہ خاندان سے متنفر اور خاموش سماجی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے والدین کے عزیز و اقارب بھی ان کے خلاف گروہ بندی کررہے ہیں۔

لوگوں کا مطالبہ ہے کہ وہ یا تو اپنے آبائی علاقوں میں چلے جائیں یا پھر سماجی بائیکاٹ کا سامنا کریں۔ رتو ڈیرو سے 6 کلومیٹر دور واقع سبحانی خان شیر کے 30 متاثرہ خاندانوں سے 6 ماہ سے اچھوتوں جیسا طرزعمل اختیار کیا جا رہا ہے کیونکہ حالیہ وبا کے دوران ان خاندانوں کے 32 بچوں میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

متاثرہ بچوں کے والدین پرگاؤں چھوڑنے کے لیے مسلسل دباؤ ہے تاکہ علاقہ کے دوسرے بچے 'صحت مند' رہ سکیں۔ سبحانی خان شیر کے ایک 32 سالہ پولیس اہلکار نے ایکسپریس ٹریبون سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایچ آئی وی وائرس کے شکاربچوں کے والدین کو گاؤں چھوڑنے اور اپنا الگ گاؤں بسانے کے لیے مسلسل دباؤہے جب کہ کچھ خاندان ہجرت بھی کرگئے ہیں۔

ایک اورمتاثرہ والد دل مراد گھنگرو کا کہنا ہے کہ ہمارے بچے معصوم اور اس سماجی خلا سے انجان ہیں۔ ان بچوں کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹر عمران اکبر اربانی نے بتایا کہ رویئے پر متاثرہ خاندانوں نے آپسی میل جول بنا لیا ہے۔

دوسری جانب سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر سکندر میمن نے کہا کہ ایچ آئی وی متاثرین سے نفرت کی روک تھام کے لئے ہم علما کی خدمات لے رہے ہیں۔ تاہم سماجی روایات ہماری مہم سے زیادہ مضبوط ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں