مہنگائی اور سیاست
مشیروں کی تعداد میں تو ضرور کمی لائی جاسکتی ہے اس لیے کہ بعض کا تو کوئی کردار نظر ہی نہیں آرہا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت عوام سخت پریشان ہیں اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں تو اپوزیشن بھی پریشان ہے اور مختلف مسائل کا شکار ہے اب رہ گئی حکومت سو وہ مسائل در مسائل کا سامنا کر رہی ہے تو گویا کہ پورا ملک ہی مسائلستان بنا ہوا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان مسائل کا حل بھی کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ ویسے ہوتا تو یہ ہے کہ ہر ملک میں حکومت ہی مسائل کا حل نکالتی ہے، اس لیے کہ اس کے پاس مسائل کے حل کے لیے وسائل اور ذرایع دونوں ہی موجود ہوتے ہیں مگر ہماری حکومت نہ جانے کیوں مسائل کے حل میں تساہل برت رہی ہے اور دن بہ دن مسائل میں مزید اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ عوام مہنگائی سے تنگ ہیں اور چیخ پکارکر رہے ہیں۔ مہنگائی سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں تک کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور تو اورکچھ علاقوں میں ماں باپ نے اپنے بچوں کو فروخت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بے روزگاری نے چوری، ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ کردیا ہے۔ ادھر حکومت مہنگائی کم کرنے کے اقدام تو کجا نئے نئے ٹیکس عائد کرکے عوام پر مہنگائی کے مزید بم برسا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ٹماٹروں کی مہنگائی کا بڑا شور برپا تھا مگر کیا صرف ٹماٹر ہی مہنگے تھے یہاں تو کھانے پینے کی تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ آٹا اب ساٹھ باسٹھ روپے پرجا پہنچا ہے۔ تندورکی روٹی پہلے دس روپے میں مل رہی تھی اب بارہ سے پندرہ روپے کی ہوگئی ہے۔ ایک مزدور جو پہلے چالیس پچاس روپے میں دوپہر کا کھانا کھا لیتا تھا اب سو روپے میں کھانے پر مجبور ہے۔
ادھر متوسط طبقہ تو پس کر ہی رہ گیا ہے وہ تو ایسا تنگ دست ہوگیا ہے کہ سردی سے بچنے کے لیے لنڈا کے گرم کپڑے بھی نہیں خرید پا رہا ہے۔ اب گوشت تو دورکی بات ہے دال اور سبزیوں کا خریدنا بھی محال ہوگیا ہے۔ عوام کی ان پریشانیوں کا ازالہ حکومت کو ہی کرنا ہے مگر وہ کہتی ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ آئی ایم ایف اس وقت واحد سہارا ہے جس کے اشاروں پر ملکی معیشت کو چلایا جا رہا ہے۔ اسی کے اپنے بندے ملک کے اہم معاشی اداروں میں بیٹھے ہیں جو آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق ہماری معیشت کو چلا رہے ہیں ، اب ایسے میں حکومت بھلا کیا کرسکتی ہے۔
اس وقت تمام ہی اپوزیشن پارٹیوں کا احتساب زوروں پر ہے۔ ملک کا احتسابی ادارہ نیب پوری طرح حرکت میں ہے۔ اس نے اپوزیشن کے تمام ہی سرکردہ رہنماؤں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ ان پر کرپشن کے کئی کئی مقدمات چل رہے ہیں مگر وہ ابھی تک ان سے کچھ نکلوا نہیں سکی ہے۔ اس وقت حکومت اپنا سارا غصہ نواز شریف، ان کے خاندان اور زرداری پر نکال رہی ہے۔ گزشتہ دنوں نواز شریف کی طبیعت سخت ناساز تھی اور اب بھی ہے۔ تمام پاکستانی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا اور انھیں بیرون ملک علاج کرانے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ باہر کیسے جاتے ان کا نام تو ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا حکومتی وزرا انھیں باہر بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھے مگر وزیر اعظم کو میاں صاحب پر ترس آگیا اور انھیں باہر جانے کی اجازت تو دے دی ساتھ ہی اپنے کسی وزیرکے مشورے پر یہ شرط لگا دی کہ وہ جانے سے پہلے واپس آنے کی انڈر ٹیکنگ دیں اور ساتھ ہی گارنٹی کے طور پر ساڑھے سات ارب روپے جمع کرائیں۔
یہ معاملہ کافی طول پکڑا اور کورٹ تک پہنچ گیا جہاں ججز نے بغیر روپیہ جمع کرائے انھیں باہر جانے کی اجازت دے دی جس پر حکومتی حلقے نے ایسا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا کہ جو عام آدمی کو بھی برا لگا۔ بہرحال اب تک نواز شریف کے باہر جانے کا حکومتی غصہ کم نہیں ہوا ہے۔ ایک جمہوری ملک میں حکومت کو برداشت کا حوصلہ رکھنا پڑتا ہے مگر وہ چیز اب تک دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ پھر جمہوریت کو اس وقت شدید دھچکا پہنچا جب حکومت کی جانب سے ایک ڈکٹیٹر کے فیصلے کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی اور پھر وہ فیصلہ رک گیا۔
پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کراچی کو سب سے زیادہ نوازا شاید اسی لیے کراچی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک وزیر نے اپنی وزارت سے باقاعدہ استعفیٰ دے کر پرویز مشرف کے کیس کی پیروی کی اور بعد میں وہ پھر سے حلف اٹھا کر حکومت کا حصہ بن گئے۔ دراصل انھوں نے اپنے سائل کا حق نمک ادا کردیا مگر یہ کہنا کہ کراچی کو پرویز مشرف نے خوب نوازا درست نہیں ہے انھوں نے ایم کیو ایم کو ضرور نوازا مگر کراچی والوں کو کچھ نہیں ملا۔ البتہ 12 مئی کا قتل عام ضرور کراچی والوں کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ جب کراچی میں بلا خوف و خطر خون کی ہولی کھیلی گئی کراچی کے لوگ اس کا ذمے دار پرویز مشرف کو ہی مانتے ہیں۔
اپوزیشن پارٹیاں اس وقت احتسابی عمل سے سخت نالاں ہیں اور اسی لیے حکومت کو گرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ شیخ رشید اس وقت اپنی وزارت سے زیادہ حکومتی ترجمانی کا حق ادا کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو گرانا آسان نہیں ہے وہ مضبوطی سے پیر جمائے کھڑی ہے اسے کوئی مائی کا لال نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال ضرور پورے کرے مگر انھیں ریلیف تو دے۔ مہنگائی بڑھاتے چلے جانا اور یہ کہنا کہ گھبرانا نہیں تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ موجودہ حکومت پچھلی حکومتوں کی عیاشی کی بات تو ضرور کرتی ہے مگر اپنے اخراجات پر نظر نہیں کرتی وہ اپنے وزیروں کی فوج ظفر موج میں کمی لاسکتی ہے۔
مشیروں کی تعداد میں تو ضرور کمی لائی جاسکتی ہے اس لیے کہ بعض کا تو کوئی کردار نظر ہی نہیں آرہا ہے حکومت بدستور غلطیاں کرتی چلی جا رہی ہے آخر مشیر کیا کر رہے ہیں؟ عمران خان نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے جو وعدے کیے تھے انھیں وہ بہرحال پورا کرنا چاہیے۔ حکومت نے جہاں عوام سے کیے وعدے پورے نہیں کیے وہاں اپنی اتحادی پارٹیوں سے بھی کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے اسی لیے کئی اتحادی پارٹیاں حکومت سے کنارہ کشی کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت دراصل اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر ہی قائم ہے اگر ایک بھی اتحادی پارٹی نے حکومت کو خیر باد کہہ دیا تو پھر حکومت کا بچنا محال ہے۔
اس صورتحال میں حکومت کو عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ اپنی اتحادی پارٹیوں سے کیے وعدوں کو بھی پورا کرنا ضروری ہے۔ اس وقت حکومت کو درپیش مسائل میں سب سے اہم آرمی چیف کی مدت ملازمت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں میں باہمی مشاورت ضروری ہے مگر حکومت نے تو اپوزیشن کے خلاف کھلم کھلا محاذ کھولا ہوا ہے۔ وزرا اپوزیشن رہنماؤں کی تذلیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں انھیں کھلم کھلا چور اور ڈاکو کہہ رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف اسمبلی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی آئینی ترمیم کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔
ایک تو قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کی تعداد اتنی کم ہے کہ اسے دوسری پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑا ہے پھر کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کا ہونا ضروری ہے جو حکومت کو حاصل نہیں ہے لہٰذا اسے اپوزیشن کے تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ پھر حالات یہ بتا رہے ہیں کہ خود حکومت کی اتحادی پارٹیاں بھی کہیں جلد ہی اس کا ساتھ نہ چھوڑ دیں۔ اختر مینگل حکومتی وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت حکومت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔
پیر کو ہونے والے پارلیمنٹ کے بائیکاٹ میں وہ اپوزیشن کا ساتھ دے چکے ہیں ادھر ایم کیو ایم بھی اکھڑی ہوئی ہے اس لیے کہ حکومت نے جس کراچی پیکیج کا وعدہ کیا تھا وہ اب تک پورا نہیں ہوا ہے چنانچہ حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنے اتحادیوں سے وعدہ خلافی کرتی رہی اور اپوزیشن کو ناراض کرتی رہی تو پھر حکومت اپنی مصیبتوں کی خود ذمے دار ہوگی اسے تحمل مزاجی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کرنے سے ہی کامیابیاں نصیب ہوسکتی ہیں اور اپنی مدت بھی پوری کرسکتی ہے۔ جہاں تک پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پر تشدد کا معاملہ ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ایسے واقعات سے اجتناب ضروری ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان مسائل کا حل بھی کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ ویسے ہوتا تو یہ ہے کہ ہر ملک میں حکومت ہی مسائل کا حل نکالتی ہے، اس لیے کہ اس کے پاس مسائل کے حل کے لیے وسائل اور ذرایع دونوں ہی موجود ہوتے ہیں مگر ہماری حکومت نہ جانے کیوں مسائل کے حل میں تساہل برت رہی ہے اور دن بہ دن مسائل میں مزید اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ عوام مہنگائی سے تنگ ہیں اور چیخ پکارکر رہے ہیں۔ مہنگائی سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں تک کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور تو اورکچھ علاقوں میں ماں باپ نے اپنے بچوں کو فروخت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بے روزگاری نے چوری، ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ کردیا ہے۔ ادھر حکومت مہنگائی کم کرنے کے اقدام تو کجا نئے نئے ٹیکس عائد کرکے عوام پر مہنگائی کے مزید بم برسا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ٹماٹروں کی مہنگائی کا بڑا شور برپا تھا مگر کیا صرف ٹماٹر ہی مہنگے تھے یہاں تو کھانے پینے کی تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ آٹا اب ساٹھ باسٹھ روپے پرجا پہنچا ہے۔ تندورکی روٹی پہلے دس روپے میں مل رہی تھی اب بارہ سے پندرہ روپے کی ہوگئی ہے۔ ایک مزدور جو پہلے چالیس پچاس روپے میں دوپہر کا کھانا کھا لیتا تھا اب سو روپے میں کھانے پر مجبور ہے۔
ادھر متوسط طبقہ تو پس کر ہی رہ گیا ہے وہ تو ایسا تنگ دست ہوگیا ہے کہ سردی سے بچنے کے لیے لنڈا کے گرم کپڑے بھی نہیں خرید پا رہا ہے۔ اب گوشت تو دورکی بات ہے دال اور سبزیوں کا خریدنا بھی محال ہوگیا ہے۔ عوام کی ان پریشانیوں کا ازالہ حکومت کو ہی کرنا ہے مگر وہ کہتی ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ آئی ایم ایف اس وقت واحد سہارا ہے جس کے اشاروں پر ملکی معیشت کو چلایا جا رہا ہے۔ اسی کے اپنے بندے ملک کے اہم معاشی اداروں میں بیٹھے ہیں جو آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق ہماری معیشت کو چلا رہے ہیں ، اب ایسے میں حکومت بھلا کیا کرسکتی ہے۔
اس وقت تمام ہی اپوزیشن پارٹیوں کا احتساب زوروں پر ہے۔ ملک کا احتسابی ادارہ نیب پوری طرح حرکت میں ہے۔ اس نے اپوزیشن کے تمام ہی سرکردہ رہنماؤں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ ان پر کرپشن کے کئی کئی مقدمات چل رہے ہیں مگر وہ ابھی تک ان سے کچھ نکلوا نہیں سکی ہے۔ اس وقت حکومت اپنا سارا غصہ نواز شریف، ان کے خاندان اور زرداری پر نکال رہی ہے۔ گزشتہ دنوں نواز شریف کی طبیعت سخت ناساز تھی اور اب بھی ہے۔ تمام پاکستانی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا اور انھیں بیرون ملک علاج کرانے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ باہر کیسے جاتے ان کا نام تو ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا حکومتی وزرا انھیں باہر بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھے مگر وزیر اعظم کو میاں صاحب پر ترس آگیا اور انھیں باہر جانے کی اجازت تو دے دی ساتھ ہی اپنے کسی وزیرکے مشورے پر یہ شرط لگا دی کہ وہ جانے سے پہلے واپس آنے کی انڈر ٹیکنگ دیں اور ساتھ ہی گارنٹی کے طور پر ساڑھے سات ارب روپے جمع کرائیں۔
یہ معاملہ کافی طول پکڑا اور کورٹ تک پہنچ گیا جہاں ججز نے بغیر روپیہ جمع کرائے انھیں باہر جانے کی اجازت دے دی جس پر حکومتی حلقے نے ایسا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا کہ جو عام آدمی کو بھی برا لگا۔ بہرحال اب تک نواز شریف کے باہر جانے کا حکومتی غصہ کم نہیں ہوا ہے۔ ایک جمہوری ملک میں حکومت کو برداشت کا حوصلہ رکھنا پڑتا ہے مگر وہ چیز اب تک دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ پھر جمہوریت کو اس وقت شدید دھچکا پہنچا جب حکومت کی جانب سے ایک ڈکٹیٹر کے فیصلے کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی اور پھر وہ فیصلہ رک گیا۔
پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کراچی کو سب سے زیادہ نوازا شاید اسی لیے کراچی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک وزیر نے اپنی وزارت سے باقاعدہ استعفیٰ دے کر پرویز مشرف کے کیس کی پیروی کی اور بعد میں وہ پھر سے حلف اٹھا کر حکومت کا حصہ بن گئے۔ دراصل انھوں نے اپنے سائل کا حق نمک ادا کردیا مگر یہ کہنا کہ کراچی کو پرویز مشرف نے خوب نوازا درست نہیں ہے انھوں نے ایم کیو ایم کو ضرور نوازا مگر کراچی والوں کو کچھ نہیں ملا۔ البتہ 12 مئی کا قتل عام ضرور کراچی والوں کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ جب کراچی میں بلا خوف و خطر خون کی ہولی کھیلی گئی کراچی کے لوگ اس کا ذمے دار پرویز مشرف کو ہی مانتے ہیں۔
اپوزیشن پارٹیاں اس وقت احتسابی عمل سے سخت نالاں ہیں اور اسی لیے حکومت کو گرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ شیخ رشید اس وقت اپنی وزارت سے زیادہ حکومتی ترجمانی کا حق ادا کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو گرانا آسان نہیں ہے وہ مضبوطی سے پیر جمائے کھڑی ہے اسے کوئی مائی کا لال نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال ضرور پورے کرے مگر انھیں ریلیف تو دے۔ مہنگائی بڑھاتے چلے جانا اور یہ کہنا کہ گھبرانا نہیں تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ موجودہ حکومت پچھلی حکومتوں کی عیاشی کی بات تو ضرور کرتی ہے مگر اپنے اخراجات پر نظر نہیں کرتی وہ اپنے وزیروں کی فوج ظفر موج میں کمی لاسکتی ہے۔
مشیروں کی تعداد میں تو ضرور کمی لائی جاسکتی ہے اس لیے کہ بعض کا تو کوئی کردار نظر ہی نہیں آرہا ہے حکومت بدستور غلطیاں کرتی چلی جا رہی ہے آخر مشیر کیا کر رہے ہیں؟ عمران خان نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے جو وعدے کیے تھے انھیں وہ بہرحال پورا کرنا چاہیے۔ حکومت نے جہاں عوام سے کیے وعدے پورے نہیں کیے وہاں اپنی اتحادی پارٹیوں سے بھی کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے اسی لیے کئی اتحادی پارٹیاں حکومت سے کنارہ کشی کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت دراصل اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر ہی قائم ہے اگر ایک بھی اتحادی پارٹی نے حکومت کو خیر باد کہہ دیا تو پھر حکومت کا بچنا محال ہے۔
اس صورتحال میں حکومت کو عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ اپنی اتحادی پارٹیوں سے کیے وعدوں کو بھی پورا کرنا ضروری ہے۔ اس وقت حکومت کو درپیش مسائل میں سب سے اہم آرمی چیف کی مدت ملازمت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں میں باہمی مشاورت ضروری ہے مگر حکومت نے تو اپوزیشن کے خلاف کھلم کھلا محاذ کھولا ہوا ہے۔ وزرا اپوزیشن رہنماؤں کی تذلیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں انھیں کھلم کھلا چور اور ڈاکو کہہ رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف اسمبلی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی آئینی ترمیم کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔
ایک تو قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کی تعداد اتنی کم ہے کہ اسے دوسری پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑا ہے پھر کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کا ہونا ضروری ہے جو حکومت کو حاصل نہیں ہے لہٰذا اسے اپوزیشن کے تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ پھر حالات یہ بتا رہے ہیں کہ خود حکومت کی اتحادی پارٹیاں بھی کہیں جلد ہی اس کا ساتھ نہ چھوڑ دیں۔ اختر مینگل حکومتی وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت حکومت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔
پیر کو ہونے والے پارلیمنٹ کے بائیکاٹ میں وہ اپوزیشن کا ساتھ دے چکے ہیں ادھر ایم کیو ایم بھی اکھڑی ہوئی ہے اس لیے کہ حکومت نے جس کراچی پیکیج کا وعدہ کیا تھا وہ اب تک پورا نہیں ہوا ہے چنانچہ حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنے اتحادیوں سے وعدہ خلافی کرتی رہی اور اپوزیشن کو ناراض کرتی رہی تو پھر حکومت اپنی مصیبتوں کی خود ذمے دار ہوگی اسے تحمل مزاجی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کرنے سے ہی کامیابیاں نصیب ہوسکتی ہیں اور اپنی مدت بھی پوری کرسکتی ہے۔ جہاں تک پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پر تشدد کا معاملہ ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ایسے واقعات سے اجتناب ضروری ہے۔