مٹی کی بے معنی اچھل کود
وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ شان وشوکت ، یہ عظمت رعب و جلال ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح قائم ودائم رہے گا۔
اٹھارویں صدی کی امریکی شاعرہ ایملی ڈکنسن لکھتی ہے '' اپنے ہاتھ کی مٹھی میں خاموش مٹی تھی میں اور اپنے آپ سے سوال کریں کہ یہ گزرے کل اور پچھلے سال کیا تھی ،کیا وہ کسی ہاتھی کی سونڈ ہے؟ جراسک کاکوئی جانور ؟ مائیکل اینجلو کا آئی بال ؟'' ہر مادی ذرہ مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے۔ زندگی کا گہرا مشاہدہ کرنے والے سائنس دان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم تمام کل کی خوراک ہیں ہماری طبعی کائنات کی تمام چیزوں کو بالاخر اس خاموش مٹی میں تبدیل ہو جانا ہے۔
آج سکندر اعظم ، نپولین، فرعون ، قارون ، ہٹلر ، چنگیز خان ، مسولینی ، شاہ ایران سمیت دنیا کے گذرے تمام عظیم الشان بادشاہ ، جاگیردار ، بڑے بڑے رئیس اور نواب ، ظالم پادری ، حکمران سب مٹی بن چکے ہیں ہوسکتا ہے وہ مٹی آپ کے جوتوں میں لگی ہوئی ہو، آپ کے برتنوں اور کپڑوں سے چمٹی ہوئی ہو۔ وہ ماضی کی عظمت ، شان و شوکت ، رعب وجلال ، عیش وعشرت سب مٹی میں تبدیل ہوچکے ہیں ، سب خاک ہوچکے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی کی خوراک بن چکے ہیں، حقیرکیڑے ان کے جسموں سے خوب لطف اندوزہوئے ہوں گے ۔ وہ محلات ، جاگیریں سب کھنڈر بن چکی ہیں اپنی زندگی میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے اپنے جیسے انسانوں کی زندگیاں انھوں نے جہنم بنا رکھی تھیں۔
وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ شان وشوکت ، یہ عظمت رعب و جلال ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح قائم ودائم رہے گا پھر ایک دن جب وہ دن آیا جس کے متعلق زندگی بھر نہ و ہ سننا چاہتے تھے اور نہ ہی کبھی اسے دیکھنے کے خواہش مند تھے اس دن وہ ترستی آنکھوں، رحم مانگتے ہاتھوں سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہے۔ اس زندگی کے بدلے میں وہ اپنی تمام شان و شوکت ، محلات ، جاگیریں، تاج وتخت غرض سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ان کی آہ بکا، فریادیں ، پکاریں ، التجائیں کچھ کام نہ آئیں۔
انسان مٹی سے بنا ہے اور ایک دن مٹی بن جاتا ہے لیکن یہ مٹی زندگی بھر بے معنی ، بے مقصد اچھل کود میں مصروف رہتی ہے۔ ساری زندگی اکڑی اکڑی پھرتی رہتی ہے اپنی جیسی دوسری مٹیوں کی زندگیاں جنہم بناتی رہتی ہے۔ اس مٹی کو کوئی اختیار ، طاقت یا اقتدار مل جائے تو اس کا تکبر وغرور دیکھنے کے قابل ہوتا ہے جب یہ مٹی تخت پر جا بیٹھتی ہے تو اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ جاتی ہے اورکچھ ہی عرصے بعد یہ ہی مٹی دوسروں کے جوتے کی خاک بن جاتی ہے اور اس وقت تو ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا ہے جب ہمارے ملک کے حکمران ، جاگیردار ، سر مایہ دار جو قارون ، فرعون ، سکندر اعظم ، ہٹلر، مسولینی کے خاک کے برابر بھی نہیں ہیں ا ن سب کی حقیقت تو ان کے آگے بھکاریوں سے زیادہ اورکچھ نہیں ہے ان کے خزانے ، ان کی جاگیریں تو ان کے نوکروں کے برابر بھی نہیں ہیں لیکن جب ہم ان کا غرور و تکبر دیکھتے ہیں جب ان کی اکٹر ، ان کا پروٹوکول دیکھتے ہیں تو گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔
بے اختیار ہنسی آجاتی ہے ابھی کچھ ہی عرصے بعد ان سب کو بھی مٹی ہی بن جاناہے خاک میں تبدیل ہوجانا ہے، کیڑوں کی خوراک بن جانا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود آج وہ اپنے ہی لوگوں کو ذلیل و خوار کرتے پھر رہے ہیں انھیں گالیاں دے رہے ہیں انھیں دھتکار رہے ہیں انھیں ایک ایک چیز کے لیے تڑپا اور تر سا رہے ہیں، چونکہ ان سب کے پاس ابھی وقت ہے۔
ان سب کو زندگی کی اصل حقیقت جاننے اور سمجھنے کے لیے حضرت سلیمان کا اعتراف ضرور پڑھ لینا چاہیے تاکہ انھیں بھی سکون نصیب ہوسکے اوریہ دوسروں کو بھی سکون سے جینے دیں سکیں وہ کہتے ہیں ''میں نہ صرف مبلغ دین تھا بلکہ اسرائیل کا بادشاہ تھا ، میرا قیام یروشلم میں تھا میں نے اپنی تمام زندگی علم و حکمت اور دانش میں گذاری اورکائنا ت کی ہر شے کا علم حاصل کیا۔ یہ کڑی راہ خدا نے صرف بنی آدم کے لیے بنائی ہے میں نے روئے ارض کی ہر شے کی حقیقت دیکھی اورجانی ہے یقین کرو سب مایا ، نظر کا فریب اور روح کا کرب ہے۔ یروشلم میں میرے پاس سب سے زیادہ دولت اور جائیداد ہے میرے پاس لاتعداد خادم اور کنیزیں تھیں بلکہ نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوا کرتے تھے۔ سونے اور چاندی کے انبار اس کے علاوہ تھے، ہوس کی لذت میرے گھرکی لونڈی تھی مرد اورعورتیں میرے ارد گر د دلکش گیت گاتے پھرتے تھے کیف پرور ساز، ہر وقت سر بکھیرتے رہتے تھے بنی آدم کو زندگی میں جو جو آسائشیں فراہم ہوسکتی ہیں یا جن کی و ہ تمنا کرسکتا ہے میرے پاس مو جود تھیں۔ میرے دل کی کوئی آرزوکوئی حسرت تشنہ تکمیل نہیں تھی لیکن یقین کرو سب کچھ مایا ہے۔ سب کچھ روح کا کرب اور دل کا بوجھ ہے ۔''
ارسطو نے کہا تھا ''آئو اس طرح جئیں جیسے ہم کبھی نہیں مریں گے'' ہمارے شان و شو کت ، رعب و جلال ، تخت و تاج کے دلدادہ ،کرپشن ، لوٹ مار ، دولت ، سونے اور چاندی کے شوقین زندگی کی حقیقت اور اصل معنی کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک کام اور بھی کرسکتے ہیں کہ گذرے تمام بادشاہوں ، حکمرانوں جاگیر داروں کی باقیات کو اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھ لیں ان باقیات پر کچھ وقت خاموشی سے اکیلے بیٹھ کر ان باقیات میں سے نکلنے والی چیختی خاموشی کو غور سے سنیں ، ان کو التجائیں ، ان کی بے بسی و بے کسی کو دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو انھیں ان سب پر جو اپنے اپنے وقت میں ان سے بے پناہ زیادہ طاقتور بااختیار اور دولت مند تھے ، ترس آجائے گا ان کا اجڑا پن اور ان کی بربادی دیکھ کر دل پھٹ جائے گا اور وہ تھوڑی ہی دیر بعد میں وہاں سے بھاگ کھڑے ہونگے، یہ الگ بات ہے کہ وہ پھر واپس آکر اپنی اپنی زندگیوں میں پھر وہ ہی بے معنیٰ ، بے مقصد اچھل کو د میں مصروف ہوجائیں گے ۔ یہ سمجھے اور جاننے بغیر کہ سب کچھ مایا ہے اور ایک دن سب کو ہی مٹی بن جانا ہے اور دوسروں کی خوراک بن جاتا ہے ۔
آج سکندر اعظم ، نپولین، فرعون ، قارون ، ہٹلر ، چنگیز خان ، مسولینی ، شاہ ایران سمیت دنیا کے گذرے تمام عظیم الشان بادشاہ ، جاگیردار ، بڑے بڑے رئیس اور نواب ، ظالم پادری ، حکمران سب مٹی بن چکے ہیں ہوسکتا ہے وہ مٹی آپ کے جوتوں میں لگی ہوئی ہو، آپ کے برتنوں اور کپڑوں سے چمٹی ہوئی ہو۔ وہ ماضی کی عظمت ، شان و شوکت ، رعب وجلال ، عیش وعشرت سب مٹی میں تبدیل ہوچکے ہیں ، سب خاک ہوچکے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی کی خوراک بن چکے ہیں، حقیرکیڑے ان کے جسموں سے خوب لطف اندوزہوئے ہوں گے ۔ وہ محلات ، جاگیریں سب کھنڈر بن چکی ہیں اپنی زندگی میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے اپنے جیسے انسانوں کی زندگیاں انھوں نے جہنم بنا رکھی تھیں۔
وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ شان وشوکت ، یہ عظمت رعب و جلال ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح قائم ودائم رہے گا پھر ایک دن جب وہ دن آیا جس کے متعلق زندگی بھر نہ و ہ سننا چاہتے تھے اور نہ ہی کبھی اسے دیکھنے کے خواہش مند تھے اس دن وہ ترستی آنکھوں، رحم مانگتے ہاتھوں سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہے۔ اس زندگی کے بدلے میں وہ اپنی تمام شان و شوکت ، محلات ، جاگیریں، تاج وتخت غرض سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ان کی آہ بکا، فریادیں ، پکاریں ، التجائیں کچھ کام نہ آئیں۔
انسان مٹی سے بنا ہے اور ایک دن مٹی بن جاتا ہے لیکن یہ مٹی زندگی بھر بے معنی ، بے مقصد اچھل کود میں مصروف رہتی ہے۔ ساری زندگی اکڑی اکڑی پھرتی رہتی ہے اپنی جیسی دوسری مٹیوں کی زندگیاں جنہم بناتی رہتی ہے۔ اس مٹی کو کوئی اختیار ، طاقت یا اقتدار مل جائے تو اس کا تکبر وغرور دیکھنے کے قابل ہوتا ہے جب یہ مٹی تخت پر جا بیٹھتی ہے تو اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ جاتی ہے اورکچھ ہی عرصے بعد یہ ہی مٹی دوسروں کے جوتے کی خاک بن جاتی ہے اور اس وقت تو ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا ہے جب ہمارے ملک کے حکمران ، جاگیردار ، سر مایہ دار جو قارون ، فرعون ، سکندر اعظم ، ہٹلر، مسولینی کے خاک کے برابر بھی نہیں ہیں ا ن سب کی حقیقت تو ان کے آگے بھکاریوں سے زیادہ اورکچھ نہیں ہے ان کے خزانے ، ان کی جاگیریں تو ان کے نوکروں کے برابر بھی نہیں ہیں لیکن جب ہم ان کا غرور و تکبر دیکھتے ہیں جب ان کی اکٹر ، ان کا پروٹوکول دیکھتے ہیں تو گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔
بے اختیار ہنسی آجاتی ہے ابھی کچھ ہی عرصے بعد ان سب کو بھی مٹی ہی بن جاناہے خاک میں تبدیل ہوجانا ہے، کیڑوں کی خوراک بن جانا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود آج وہ اپنے ہی لوگوں کو ذلیل و خوار کرتے پھر رہے ہیں انھیں گالیاں دے رہے ہیں انھیں دھتکار رہے ہیں انھیں ایک ایک چیز کے لیے تڑپا اور تر سا رہے ہیں، چونکہ ان سب کے پاس ابھی وقت ہے۔
ان سب کو زندگی کی اصل حقیقت جاننے اور سمجھنے کے لیے حضرت سلیمان کا اعتراف ضرور پڑھ لینا چاہیے تاکہ انھیں بھی سکون نصیب ہوسکے اوریہ دوسروں کو بھی سکون سے جینے دیں سکیں وہ کہتے ہیں ''میں نہ صرف مبلغ دین تھا بلکہ اسرائیل کا بادشاہ تھا ، میرا قیام یروشلم میں تھا میں نے اپنی تمام زندگی علم و حکمت اور دانش میں گذاری اورکائنا ت کی ہر شے کا علم حاصل کیا۔ یہ کڑی راہ خدا نے صرف بنی آدم کے لیے بنائی ہے میں نے روئے ارض کی ہر شے کی حقیقت دیکھی اورجانی ہے یقین کرو سب مایا ، نظر کا فریب اور روح کا کرب ہے۔ یروشلم میں میرے پاس سب سے زیادہ دولت اور جائیداد ہے میرے پاس لاتعداد خادم اور کنیزیں تھیں بلکہ نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوا کرتے تھے۔ سونے اور چاندی کے انبار اس کے علاوہ تھے، ہوس کی لذت میرے گھرکی لونڈی تھی مرد اورعورتیں میرے ارد گر د دلکش گیت گاتے پھرتے تھے کیف پرور ساز، ہر وقت سر بکھیرتے رہتے تھے بنی آدم کو زندگی میں جو جو آسائشیں فراہم ہوسکتی ہیں یا جن کی و ہ تمنا کرسکتا ہے میرے پاس مو جود تھیں۔ میرے دل کی کوئی آرزوکوئی حسرت تشنہ تکمیل نہیں تھی لیکن یقین کرو سب کچھ مایا ہے۔ سب کچھ روح کا کرب اور دل کا بوجھ ہے ۔''
ارسطو نے کہا تھا ''آئو اس طرح جئیں جیسے ہم کبھی نہیں مریں گے'' ہمارے شان و شو کت ، رعب و جلال ، تخت و تاج کے دلدادہ ،کرپشن ، لوٹ مار ، دولت ، سونے اور چاندی کے شوقین زندگی کی حقیقت اور اصل معنی کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک کام اور بھی کرسکتے ہیں کہ گذرے تمام بادشاہوں ، حکمرانوں جاگیر داروں کی باقیات کو اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھ لیں ان باقیات پر کچھ وقت خاموشی سے اکیلے بیٹھ کر ان باقیات میں سے نکلنے والی چیختی خاموشی کو غور سے سنیں ، ان کو التجائیں ، ان کی بے بسی و بے کسی کو دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو انھیں ان سب پر جو اپنے اپنے وقت میں ان سے بے پناہ زیادہ طاقتور بااختیار اور دولت مند تھے ، ترس آجائے گا ان کا اجڑا پن اور ان کی بربادی دیکھ کر دل پھٹ جائے گا اور وہ تھوڑی ہی دیر بعد میں وہاں سے بھاگ کھڑے ہونگے، یہ الگ بات ہے کہ وہ پھر واپس آکر اپنی اپنی زندگیوں میں پھر وہ ہی بے معنیٰ ، بے مقصد اچھل کو د میں مصروف ہوجائیں گے ۔ یہ سمجھے اور جاننے بغیر کہ سب کچھ مایا ہے اور ایک دن سب کو ہی مٹی بن جانا ہے اور دوسروں کی خوراک بن جاتا ہے ۔