جنگل اور انسانی معاشرے کا فرق
ایمر جنسی کے حالات ہوں یا کوئی خطرہ، جانور اپنی شکاری خصلت بھول جاتے ہیں اور سب میں برادرانہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔
دو ایک روز پہلے ایک نجی چینل پر ملک کے چند نامور اور معروف دانش وور محو گفتگو تھے... موضوع گفتگو تھا لاہور میں ایک اسپتال میں وکلاء کی طرف سے کی جانے والی ہنگامہ آرائی، جس کے نتیجے میں نہ صرف اسپتال کا مالی نقصان ہوا، بلکہ چند انسانی جانوں کا بھی زیاں ہوا۔
اس سارے معاملے میں کون قصور وار ہے اور کون نہیں... وکلاء کے جذبات کو کتنی جلدی بھڑکایا جا سکتا ہے اور انھیں کس قانون کے تحت اختیارحاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کی برہمی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس حد تک جائیں کہ انھیں اچھائی اور برائی کی تمیز نہ رہے۔ وکلاء ہیں، کوئی نہ کوئی قانونی شق نکال کر اس سارے معاملے میں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح دودھ میں سے مکھی نکلتی ہے۔ نہ ہی مجھے اس موضوع پر بحث کرنا ہے کہ کسی ڈاکٹر کے رویے یا غلطی کی سزا کے طور پر وہ اس اسپتال میں دراندازی کر کے توڑ پھوڑ اور تشدد کریں جو کہ کسی بھی ڈاکٹر کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔
اسی پروگرام کے دوران ٹیلی وژن پر اسلامی یونیورسٹی میں ، دو طلباء تنظیموں کے درمیان ہونے والے ہنگاموں کی خبر کی پٹی چل رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ چند دن قبل ہی وزیر اعظم صاحب نے طلباء تنظیموں پر سے پابندی ہٹانے کا عندیہ دے کر ایک نیا کٹا کھولنے کی ابتدا کر دی ہے... ذ را سی بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کریں تو اپنی یا کسی اور کی پیش کردہ اس تجویز پر اب بھی نظر ثانی کر لیں۔
ہاں تو میں بات کر رہی تھی ان چند دانش وروں کی جو کہ اس پروگرام میں موجود اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار، اس واقعے کی مذمت، ذمے داران پر ملامت اور اس معاملے پر حکومت اور اعلی عدالتوں کی طرف سے فوری ردعمل کی توقع کا اظہار کر رہے تھے۔ اس پروگرام میں، ملک کے ایک نامور صحافی، تجزیہ نگار اور قلمکار کے منہ سے بولا گیا ایک فقرہ، ''جنگل اور انسانی معاشرے میں ایک فرق ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے قانون کا!'' میرے اس کالم کی کنجی بن گیا۔ (شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں گے کہ جنگل میں قانون ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں ہے۔)
جناب، آپ نے شاید محترمہ زہرا نگاہ کی ایک معروف نظم نہیں پڑھی، جس کا ایک ایک لفظ حقیقت ہے۔ آپ کی یاد دہانی کے لیے اسے پیش کرتی ہوں۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ جب گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوند! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہرمیں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کرو!
......
یہ ایک نظم نہیں بلکہ جانوروںکی خصلتوں اور جنگل کے ان قوانین کی ایک دستاویزہے جنھیں کسی کاغذ پر لکھا جاتا ہے، نہ انھیںلاگو کرنے کے لیے وکلاء، عدالتیں، اعلی عدالتیں ، جج اور منصف اعلی ہوتے ہیں۔
یہ نہ بھولیں کہ شیر صرف تب شکار کرتا ہے جب اسے بھوک لگتی ہے، تفریح طبع کے لیے یا شغل کے لیے شکار نہیں کرتا، شیر کسی زخمی جانور پر بھی حملہ نہیں کرتا اور اپنے حصے کا گوشت ہی کھاتا ہے۔ ہم لوگوں کی طرح نہیں کہ کھا کھا کر بد ہضمی ہو جائے، ہاضمے کی گولیاں کھاکھا کر اور ڈکار مار مار کر بھی ہضم نہ ہو اور ایسے میں کہیں سے مزید کھانا مفت مل رہا ہو تو وہ بھی کھا لیتے ہیں۔
کھانے کے بعد جب وہ درختوں کی چھاؤں میں جا کر لیٹتا ہے تو اپنا پورا منہ کھول کر لیٹتاہے، ا س لیے کہ اس کے منہ کو بھی اللہ نے کتنے اور جانداروں کے لیے رزق کا ذریعہ بنایا ہے جو اس کے دانتوں میںپھنسے ہوئے گوشت کے ریشے اپنی چونچوں سے نکال نکال کر نہ صرف اس کا خلال کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ بھی بھرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی کھیت سے کوئی بچہ کسی کی اجازت کے بغیر ایک مولی بھی توڑ دے تو اس کے نتیجے میں مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا جاتا ہے، جیسے کہ وہ کوئی معصوم بچہ نہیں بلکہ کوئی عادی مجرم ہو۔ ہم لوگ اپنا بچا ہوا کھانا بھی کسی کو دینے کی بجائے کوڑے دانوں میں پھینکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کوے اپنے گھونسلوں میں نہ صرف اپنے بچے پالتے ہیں بلکہ کوئل کے بچے بھی کوے کے گھونسلے میں پلتے ہیں کیونکہ کوئل اپنا گھونسلہ نہیں بناتی۔ جب کوئی موسمی خطرہ منڈلاتا ہے تو سارے پرندے نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں پرندوں کے گھونسلوں کے بارے میں بھی متفکر ہوتے ہیں۔ کسی گھونسلے سے کسی پرندے کا نومولود بھی گر جائے تو سارے جنگل میں ایمر جنسی کا نفاذ ہو جاتا ہے اور جو جو اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہو، وہ سرگرم ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں، جرم ہوتے ہوئے بھی دیکھیں تو نظر چرا لیتے ہیں کہ عینی گواہ نہ بننا پڑ جائے۔ انسانی بچوں کی جان اور عزت کو جو خطرات لاحق ہیں، ہر روز جو کچھ ہو رہا ہے، چونکہ وہ ہمارے بچوںکے ساتھ نہیں ہوا ، اس لیے ان سب کے باوجود ہم سب اپنے گھروں میں سکون سے سوتے ہیں، خواہ وہ حکمران ہوں، عوام یا اعلی عدالتیں... کسی کے کان پر جوں تک نہیںرینگتی۔
ایمر جنسی کے حالات ہوں یا کوئی خطرہ، جانور اپنی شکاری خصلت بھول جاتے ہیں اور سب میں برادرانہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس ملک میں، بہتر سال گزار لینے والے بھی آج تک مہاجر اور کشمیری ہیں جن کی دو دو نسلیں ہجرت کے بعد پیدا ہوا کر مر بھی چکیں۔ ہم ابھی تک پنجابی، بلوچی، سندھی اور پٹھان کے گرداب سے نہیں نکلے اور ان کے اندر مزید بھنورہیں جو مذہبی فرقوں سے بنے ہوئے ہیں۔
آپ نے بات کی کہ جنگلوں میں قانون نہیں ہوتا، نباتات ، حیوانات، ستارے، سورج، چاند، زمین، موسم، پانی، ہوا، بارش، سمندر، آگ... غرض جس چیز کا بھی سوچیں، اس کائنات کی ہر چیز ایک قانون کے دائرے میں ہے اور وہ ہے قانون فطرت۔ صرف انسان ہے جو قوانین سے اول دن سے انحراف کرتو آیا ہے کہ نافرمانی اول روز سے شیطان نے اس کی فطرت میں ڈال دی تھی اور اس نے روز قیامت تک کے لیے انسان کو گمراہ کرنے کی اجازت مانگ لی۔
اس وقت ہمارے ملک میں اگر کسی چیز کی شدید قلت ہے تو وہ ہے قانون کی، ہر کوئی شتر بے مہار بنا ہوا ہے۔ قانون کی دھجیاں ہر روز وہیں سب سے زیادہ بکھیری جاتی ہیں جہاں قانون بنتے ہیں، پرداخت پاتے ہیں یا وہاں سے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ ہی حافظ ہے ہمارا اور ہمارے قانون کا، اس سے زائد ایک لفظ بھی لکھا تو میں بھی توہین عدالت کی زدمیں آ سکتی ہوں۔
اس سارے معاملے میں کون قصور وار ہے اور کون نہیں... وکلاء کے جذبات کو کتنی جلدی بھڑکایا جا سکتا ہے اور انھیں کس قانون کے تحت اختیارحاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کی برہمی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس حد تک جائیں کہ انھیں اچھائی اور برائی کی تمیز نہ رہے۔ وکلاء ہیں، کوئی نہ کوئی قانونی شق نکال کر اس سارے معاملے میں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح دودھ میں سے مکھی نکلتی ہے۔ نہ ہی مجھے اس موضوع پر بحث کرنا ہے کہ کسی ڈاکٹر کے رویے یا غلطی کی سزا کے طور پر وہ اس اسپتال میں دراندازی کر کے توڑ پھوڑ اور تشدد کریں جو کہ کسی بھی ڈاکٹر کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔
اسی پروگرام کے دوران ٹیلی وژن پر اسلامی یونیورسٹی میں ، دو طلباء تنظیموں کے درمیان ہونے والے ہنگاموں کی خبر کی پٹی چل رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ چند دن قبل ہی وزیر اعظم صاحب نے طلباء تنظیموں پر سے پابندی ہٹانے کا عندیہ دے کر ایک نیا کٹا کھولنے کی ابتدا کر دی ہے... ذ را سی بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کریں تو اپنی یا کسی اور کی پیش کردہ اس تجویز پر اب بھی نظر ثانی کر لیں۔
ہاں تو میں بات کر رہی تھی ان چند دانش وروں کی جو کہ اس پروگرام میں موجود اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار، اس واقعے کی مذمت، ذمے داران پر ملامت اور اس معاملے پر حکومت اور اعلی عدالتوں کی طرف سے فوری ردعمل کی توقع کا اظہار کر رہے تھے۔ اس پروگرام میں، ملک کے ایک نامور صحافی، تجزیہ نگار اور قلمکار کے منہ سے بولا گیا ایک فقرہ، ''جنگل اور انسانی معاشرے میں ایک فرق ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے قانون کا!'' میرے اس کالم کی کنجی بن گیا۔ (شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں گے کہ جنگل میں قانون ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں ہے۔)
جناب، آپ نے شاید محترمہ زہرا نگاہ کی ایک معروف نظم نہیں پڑھی، جس کا ایک ایک لفظ حقیقت ہے۔ آپ کی یاد دہانی کے لیے اسے پیش کرتی ہوں۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ جب گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوند! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہرمیں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کرو!
......
یہ ایک نظم نہیں بلکہ جانوروںکی خصلتوں اور جنگل کے ان قوانین کی ایک دستاویزہے جنھیں کسی کاغذ پر لکھا جاتا ہے، نہ انھیںلاگو کرنے کے لیے وکلاء، عدالتیں، اعلی عدالتیں ، جج اور منصف اعلی ہوتے ہیں۔
یہ نہ بھولیں کہ شیر صرف تب شکار کرتا ہے جب اسے بھوک لگتی ہے، تفریح طبع کے لیے یا شغل کے لیے شکار نہیں کرتا، شیر کسی زخمی جانور پر بھی حملہ نہیں کرتا اور اپنے حصے کا گوشت ہی کھاتا ہے۔ ہم لوگوں کی طرح نہیں کہ کھا کھا کر بد ہضمی ہو جائے، ہاضمے کی گولیاں کھاکھا کر اور ڈکار مار مار کر بھی ہضم نہ ہو اور ایسے میں کہیں سے مزید کھانا مفت مل رہا ہو تو وہ بھی کھا لیتے ہیں۔
کھانے کے بعد جب وہ درختوں کی چھاؤں میں جا کر لیٹتا ہے تو اپنا پورا منہ کھول کر لیٹتاہے، ا س لیے کہ اس کے منہ کو بھی اللہ نے کتنے اور جانداروں کے لیے رزق کا ذریعہ بنایا ہے جو اس کے دانتوں میںپھنسے ہوئے گوشت کے ریشے اپنی چونچوں سے نکال نکال کر نہ صرف اس کا خلال کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ بھی بھرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی کھیت سے کوئی بچہ کسی کی اجازت کے بغیر ایک مولی بھی توڑ دے تو اس کے نتیجے میں مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا جاتا ہے، جیسے کہ وہ کوئی معصوم بچہ نہیں بلکہ کوئی عادی مجرم ہو۔ ہم لوگ اپنا بچا ہوا کھانا بھی کسی کو دینے کی بجائے کوڑے دانوں میں پھینکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کوے اپنے گھونسلوں میں نہ صرف اپنے بچے پالتے ہیں بلکہ کوئل کے بچے بھی کوے کے گھونسلے میں پلتے ہیں کیونکہ کوئل اپنا گھونسلہ نہیں بناتی۔ جب کوئی موسمی خطرہ منڈلاتا ہے تو سارے پرندے نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں پرندوں کے گھونسلوں کے بارے میں بھی متفکر ہوتے ہیں۔ کسی گھونسلے سے کسی پرندے کا نومولود بھی گر جائے تو سارے جنگل میں ایمر جنسی کا نفاذ ہو جاتا ہے اور جو جو اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہو، وہ سرگرم ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں، جرم ہوتے ہوئے بھی دیکھیں تو نظر چرا لیتے ہیں کہ عینی گواہ نہ بننا پڑ جائے۔ انسانی بچوں کی جان اور عزت کو جو خطرات لاحق ہیں، ہر روز جو کچھ ہو رہا ہے، چونکہ وہ ہمارے بچوںکے ساتھ نہیں ہوا ، اس لیے ان سب کے باوجود ہم سب اپنے گھروں میں سکون سے سوتے ہیں، خواہ وہ حکمران ہوں، عوام یا اعلی عدالتیں... کسی کے کان پر جوں تک نہیںرینگتی۔
ایمر جنسی کے حالات ہوں یا کوئی خطرہ، جانور اپنی شکاری خصلت بھول جاتے ہیں اور سب میں برادرانہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس ملک میں، بہتر سال گزار لینے والے بھی آج تک مہاجر اور کشمیری ہیں جن کی دو دو نسلیں ہجرت کے بعد پیدا ہوا کر مر بھی چکیں۔ ہم ابھی تک پنجابی، بلوچی، سندھی اور پٹھان کے گرداب سے نہیں نکلے اور ان کے اندر مزید بھنورہیں جو مذہبی فرقوں سے بنے ہوئے ہیں۔
آپ نے بات کی کہ جنگلوں میں قانون نہیں ہوتا، نباتات ، حیوانات، ستارے، سورج، چاند، زمین، موسم، پانی، ہوا، بارش، سمندر، آگ... غرض جس چیز کا بھی سوچیں، اس کائنات کی ہر چیز ایک قانون کے دائرے میں ہے اور وہ ہے قانون فطرت۔ صرف انسان ہے جو قوانین سے اول دن سے انحراف کرتو آیا ہے کہ نافرمانی اول روز سے شیطان نے اس کی فطرت میں ڈال دی تھی اور اس نے روز قیامت تک کے لیے انسان کو گمراہ کرنے کی اجازت مانگ لی۔
اس وقت ہمارے ملک میں اگر کسی چیز کی شدید قلت ہے تو وہ ہے قانون کی، ہر کوئی شتر بے مہار بنا ہوا ہے۔ قانون کی دھجیاں ہر روز وہیں سب سے زیادہ بکھیری جاتی ہیں جہاں قانون بنتے ہیں، پرداخت پاتے ہیں یا وہاں سے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ ہی حافظ ہے ہمارا اور ہمارے قانون کا، اس سے زائد ایک لفظ بھی لکھا تو میں بھی توہین عدالت کی زدمیں آ سکتی ہوں۔