کرپشن کرپشن کرپشن
وزیر اعظم عمران خان کی تقریروں کی سُوئی ایک ہی موضوع پر اٹکی رہتی ہے۔
دسمبر کی9 تاریخ کو ساری دنیا میں انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا گیا۔ اسلام آباد میں بھی اس اہم ایشو پر اظہار ِ خیال ہوا خاص طور پر نیشنل اکائونٹیبلیٹی بیورو کے چیئرمین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس جاوید اقبال نے اس پر مدُلل اور سیر حاصل گفتگو کی۔ وہ خود طویل عرصہ تک عدلیہ کے اعلیٰ عہدے پر متمکن رہنے کی وجہ سے انصاف، فیصلوں کی زبان کے ہیر پھیر ، کرپشن اور امانت و دیانت کے اسرار و رموز سے خوب واقف ہونے کی وجہ سے موجودہ نیب ( NAB) کو بے عیب بنانے پر محنت کر رہے ہیں۔
دراصل دو گزشتہ حکومتیں اس پالیسی پر عمل پیرا رہیں کہ ایک دوسرے کو بچائے رکھیں۔ مخالفوں کو دبائے رکھیں یہی وجہ ہے گزشتہ ادوار کے حکمرانوں کو اس وقت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک اس وقت سزا یافتہ ہے جب کہ دوسرے کو سخت تفتیشی مراحل کا سامنا ہے۔
چیئرمین نیب کا تقرر حزبِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف کے لیڈر مشترکہ طور پر کرتے ہیں تا کہ چیئرمین کسی ایک فریق کا نمایندہ یا اس کے زیر ِ اثر نہ سمجھا جائے اور وہ اپنے فرائض Independently انجام دینے میں آزاد ہو لیکن ماضی میں ایسا نہ ہوا اور چیئرمین تنقید کا نشانہ بنتے رہے لیکن موجودہ چیئرمین آزادانہ اور منصفانہ فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن اس طریق کار پر تنقید ضرور ہو رہی ہے کہ تفتیشی عمل غیر ضروری طوالت پکڑتا دیکھا جا رہا ہے اور مدت ِ Remand زیر تنقید آنے لگی ہے، اگر تفتیشی عملہ یا افسر ریمانڈ در ریمانڈ لیتا چلا جائے تو اس کی اہلیت اور نیت پر سوال اُٹھ سکتا ہے اور اُٹھ رہا ہے۔
بد عنوانی کے موضوع اور اس کے سد ِ باب پر چیئرمین نیب کا لیکچر اپنی جگہ لیکن انھوں نے اس بدی کے لوگوں کی سرشت میں داخل ہو جانے کی وجوہ پر نسبتاً کم روشنی ڈالی، انھوں نے اپنی اکائونٹیبلٹی کورٹس کی کارکردگی پر بھی زیادہ بات نہ کی اگر وہ کبھی کبھار ان عدالتوں کی ماہانہ رپورٹس دیکھنے کی زحمت کریں تو ان پر منکشف ہو گا کہ کئی عدالتوں میں سالہا سال سے بیشمار مقدمات میں التوا در التوا ہوتے رہتے ہیں ۔
استغاثہ کے گواہوں کی سنجیدگی سے طلبی نہیں ہوتی اور ملزم حاضریاں بھرتے اور خوار ہوتے رہتے ہیں جب کہ وکیلوں کو قطعی جلدی نہیں ہوتی کہ ان کے موکل کا مقدمہ اپنے انجام کو پہنچے۔ بے شمار قصور وار اور بے قصور ملزم مقدمات میں ملوث سالہا سال تک پیشیاں بھگت بھگت کر دنوں کو سالوں میں تبدیل ہوتے دیکھتے چلے جاتے ہیں، اسی تاخیر کے پیش ِ نظر قانون کی کتب میں لکھا ہے:۔
Justice delayed is justice denied
ایک وقت تھا کہ ہماری بیورو کریسی کی دینداری اور بغیر سفارش و دبائو اپنے فرائض منصبی انجام دینے کی شہرت تھی پھر حکمرانوں نے اصول و قانون بالائے طاق رکھ کر صرف حسب الحکم کام کرنے والوں کو اہم اور فائدہ رساں عہدوں پر تعینات کرنا شروع کر دیا اور جو افسر غلط کام کرنے سے انکار کرتا اسے کھڈے لائن پوسٹوں پر لگانا شروع کر دیا۔ حکمران کے حسب ِ منشا کام عموماً ناجائز، غلط ، خلاف ِ ضابطہ اور منافع رساں ہوتے تھے ۔ انھیں انجام دینے کے لیے افسر کو Risk لینا ہوتا لیکن حکمران اس کی پشب پناہی کرتا اور افسر کو گرفت سے بچائے رکھتا ۔ اس طرح ماضی کے حکمران سرکاری افسروں کا ایک ٹولہ پیدا کر لیتے جو ضابطے، اصول، قانون کی غلط تشریح کر کے یا ضابطے کی ناک مروڑ کر غلط کام کر ڈالنے کی مہارت پیدا کر لیتے ۔ جب وہ حکمران کے چار پانچ غلط لیکن منافع رساں کام کرنے کا رسک لے لیتے تو ایک اپنا کام بھی نمٹا لیتے۔
یوں حکمران ناجائز دولت اکٹھی کرتا رہتا اور ادھر سرکاری افسر بھی کرپشن کے ذریعے زر اور زمین کے انبار لگائے جاتا۔ ایک وقت تھا جب سرکاری ملازم کو ہر سال صحت اور دولت کا حکومت وقت یعنی اپنے ڈیپارٹمنٹ کو حساب دینا پڑتا تھا، اب عادت پڑ گئی فرضی اور بے نامی کھاتے کھولنے، یا اپنے رشتہ داروں اور ملازموں کے نام پر ناجائز یا Unaccounted دولت دکھا کر اسے چھپانے کی۔ اس طریق کار سے بد عنوان سرکاری ملازموں کو رشتہ داروں اور خاص ملازموں کے ہاتھوں نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ چیئرمین NAB نے اپنی تقریر میں مہا کرپٹ گرفت میں آئے افسروں کا نام لے کر یہ تک کہا کہ ان سے قبضہ میں لیے گئے نوٹ گنتے گنتے اسٹیٹ بینک کی مشینیں بھی خراب ہو گئی تھیں اور ان افسروں کے گھروں کے غسل خانے تک شاہی محلوں جیسے تھے۔ بلاشبہ نیب نے گزشتہ 25 ماہ میں 153ارب روپے کی ریکوری کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کتنے بے قصور لوگوں کو کتنا عرصہ NAB کے عذاب سے گزرنا پڑا۔
وزیر اعظم عمران خان کی تقریروں کی سُوئی ایک ہی موضوع پر اٹکی رہتی ہے۔ کرپشن۔ کرپشن۔ کرپشن۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ ماضی قریب کے دو خاندان عرصہ تیس سال کے لگ بھگ وزیر ِ ، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور صدارتی عہدوں پر متمکن رہے اور تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جن جن خاندانوں کا دور ِ حکمرانی طویل رہا انھوں نے ڈٹ کر کرپشن کی لیکن ان کا انجام عبرتناک ہوا۔ ہمارے سابق حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ۔ اب دُعا ہے کہ خاندانی حکمرانی کا عذاب آیندہ ہمارے ملک پر کبھی نہ آئے۔
دراصل دو گزشتہ حکومتیں اس پالیسی پر عمل پیرا رہیں کہ ایک دوسرے کو بچائے رکھیں۔ مخالفوں کو دبائے رکھیں یہی وجہ ہے گزشتہ ادوار کے حکمرانوں کو اس وقت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک اس وقت سزا یافتہ ہے جب کہ دوسرے کو سخت تفتیشی مراحل کا سامنا ہے۔
چیئرمین نیب کا تقرر حزبِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف کے لیڈر مشترکہ طور پر کرتے ہیں تا کہ چیئرمین کسی ایک فریق کا نمایندہ یا اس کے زیر ِ اثر نہ سمجھا جائے اور وہ اپنے فرائض Independently انجام دینے میں آزاد ہو لیکن ماضی میں ایسا نہ ہوا اور چیئرمین تنقید کا نشانہ بنتے رہے لیکن موجودہ چیئرمین آزادانہ اور منصفانہ فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن اس طریق کار پر تنقید ضرور ہو رہی ہے کہ تفتیشی عمل غیر ضروری طوالت پکڑتا دیکھا جا رہا ہے اور مدت ِ Remand زیر تنقید آنے لگی ہے، اگر تفتیشی عملہ یا افسر ریمانڈ در ریمانڈ لیتا چلا جائے تو اس کی اہلیت اور نیت پر سوال اُٹھ سکتا ہے اور اُٹھ رہا ہے۔
بد عنوانی کے موضوع اور اس کے سد ِ باب پر چیئرمین نیب کا لیکچر اپنی جگہ لیکن انھوں نے اس بدی کے لوگوں کی سرشت میں داخل ہو جانے کی وجوہ پر نسبتاً کم روشنی ڈالی، انھوں نے اپنی اکائونٹیبلٹی کورٹس کی کارکردگی پر بھی زیادہ بات نہ کی اگر وہ کبھی کبھار ان عدالتوں کی ماہانہ رپورٹس دیکھنے کی زحمت کریں تو ان پر منکشف ہو گا کہ کئی عدالتوں میں سالہا سال سے بیشمار مقدمات میں التوا در التوا ہوتے رہتے ہیں ۔
استغاثہ کے گواہوں کی سنجیدگی سے طلبی نہیں ہوتی اور ملزم حاضریاں بھرتے اور خوار ہوتے رہتے ہیں جب کہ وکیلوں کو قطعی جلدی نہیں ہوتی کہ ان کے موکل کا مقدمہ اپنے انجام کو پہنچے۔ بے شمار قصور وار اور بے قصور ملزم مقدمات میں ملوث سالہا سال تک پیشیاں بھگت بھگت کر دنوں کو سالوں میں تبدیل ہوتے دیکھتے چلے جاتے ہیں، اسی تاخیر کے پیش ِ نظر قانون کی کتب میں لکھا ہے:۔
Justice delayed is justice denied
ایک وقت تھا کہ ہماری بیورو کریسی کی دینداری اور بغیر سفارش و دبائو اپنے فرائض منصبی انجام دینے کی شہرت تھی پھر حکمرانوں نے اصول و قانون بالائے طاق رکھ کر صرف حسب الحکم کام کرنے والوں کو اہم اور فائدہ رساں عہدوں پر تعینات کرنا شروع کر دیا اور جو افسر غلط کام کرنے سے انکار کرتا اسے کھڈے لائن پوسٹوں پر لگانا شروع کر دیا۔ حکمران کے حسب ِ منشا کام عموماً ناجائز، غلط ، خلاف ِ ضابطہ اور منافع رساں ہوتے تھے ۔ انھیں انجام دینے کے لیے افسر کو Risk لینا ہوتا لیکن حکمران اس کی پشب پناہی کرتا اور افسر کو گرفت سے بچائے رکھتا ۔ اس طرح ماضی کے حکمران سرکاری افسروں کا ایک ٹولہ پیدا کر لیتے جو ضابطے، اصول، قانون کی غلط تشریح کر کے یا ضابطے کی ناک مروڑ کر غلط کام کر ڈالنے کی مہارت پیدا کر لیتے ۔ جب وہ حکمران کے چار پانچ غلط لیکن منافع رساں کام کرنے کا رسک لے لیتے تو ایک اپنا کام بھی نمٹا لیتے۔
یوں حکمران ناجائز دولت اکٹھی کرتا رہتا اور ادھر سرکاری افسر بھی کرپشن کے ذریعے زر اور زمین کے انبار لگائے جاتا۔ ایک وقت تھا جب سرکاری ملازم کو ہر سال صحت اور دولت کا حکومت وقت یعنی اپنے ڈیپارٹمنٹ کو حساب دینا پڑتا تھا، اب عادت پڑ گئی فرضی اور بے نامی کھاتے کھولنے، یا اپنے رشتہ داروں اور ملازموں کے نام پر ناجائز یا Unaccounted دولت دکھا کر اسے چھپانے کی۔ اس طریق کار سے بد عنوان سرکاری ملازموں کو رشتہ داروں اور خاص ملازموں کے ہاتھوں نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ چیئرمین NAB نے اپنی تقریر میں مہا کرپٹ گرفت میں آئے افسروں کا نام لے کر یہ تک کہا کہ ان سے قبضہ میں لیے گئے نوٹ گنتے گنتے اسٹیٹ بینک کی مشینیں بھی خراب ہو گئی تھیں اور ان افسروں کے گھروں کے غسل خانے تک شاہی محلوں جیسے تھے۔ بلاشبہ نیب نے گزشتہ 25 ماہ میں 153ارب روپے کی ریکوری کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کتنے بے قصور لوگوں کو کتنا عرصہ NAB کے عذاب سے گزرنا پڑا۔
وزیر اعظم عمران خان کی تقریروں کی سُوئی ایک ہی موضوع پر اٹکی رہتی ہے۔ کرپشن۔ کرپشن۔ کرپشن۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ ماضی قریب کے دو خاندان عرصہ تیس سال کے لگ بھگ وزیر ِ ، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور صدارتی عہدوں پر متمکن رہے اور تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جن جن خاندانوں کا دور ِ حکمرانی طویل رہا انھوں نے ڈٹ کر کرپشن کی لیکن ان کا انجام عبرتناک ہوا۔ ہمارے سابق حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ۔ اب دُعا ہے کہ خاندانی حکمرانی کا عذاب آیندہ ہمارے ملک پر کبھی نہ آئے۔