خوش آمدید سری لنکا
کراچی کے شائقین کا انتظار ختم ہونے کے قریب
کراچی کے شائقین کرکٹ کا انتظار ختم ہونے میں اب محض چار دن باقی رہ گئے ہیں، 19 دسمبر سے نیشنل اسٹیڈیم 10 سال بعد کسی ٹیسٹ میچ کی میزبانی کرے گا، راولپنڈی میں میچ تو بارش سے خاصا متاثر ہوا امید ہے کراچی میں موسم کی زیادہ دخل اندازی نہیں ہو گی۔
ملک میں کرکٹ کی رونقیں تو کچھ عرصے قبل ہی بحال ہو چکی تھیں مگر ٹیسٹ نہ ہونے سے دل میں ایک خلش سی تھی جو اب دور ہو گئی،اس کا کریڈٹ حکومت، سیکیورٹی ایجنسیز اور پی سی بی سب کو ہی جاتا ہے، کرکٹ کا اصل حسن ٹیسٹ ہی ہے، مصروف دور میں لوگوں کے پاس زیادہ وقت نہیں اس لیے وہ ٹی 20 اور ون ڈے کو ترجیح دیتے ہیں مگر کسی کھلاڑی کی صلاحیت کا اصل امتحان پانچ روزہ کرکٹ میں ہی ہوتا ہے۔
اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی کہ راولپنڈی ٹیسٹ کھیلنے والے ہمارے 11 کھلاڑی پہلی بار ہوم گراؤنڈ پر اس طرز کے میچ میں شریک تھے، بدقسمتی سے ملکی حالات اس کی وجہ بنے لیکن شکر ہے اب سیکیورٹی کے مسائل ختم ہو چکے اور غیرملکی ٹیموں کا اعتماد بھی بڑھنے لگا، اسی لیے میدان دوبارہ آباد ہوئے ہیں، اس میں ہم سری لنکا کے کردار کو فراموش نہیں کر سکتے۔
10 سال قبل لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے نے ہی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم کرا دی تھی، اب انہی کے دورے سے ٹیسٹ کا دوبارہ آغاز ہوا، ہم نے کرکٹ میں سری لنکا کے ساتھ بنگلہ دیش اور افغانستان پر بھی بڑے احسانات کیے مگر سری لنکنز کو کریڈٹ دینا چاہیے جو مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، دیگر دونوں نے تو نگاہیں پھیری ہوئی ہیں، سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں بارش اور سخت سردی کی وجہ سے بہت زیادہ کراؤڈ نہیں آ سکا مگر کراچی میں زیادہ تر اسٹینڈز بھرے رہنے کی توقع ہے۔
پی سی بی نے گوکہ ٹکٹ کی قیمت صرف 50 روپے رکھی لیکن میرا خیال ہے کہ مفت داخلہ زیادہ مناسب ہوتا،اگر کوئی فیملی کے ساتھ میچ دیکھنے کا خواہشمند ہے تو ٹکٹ، ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے پر اس کے 1000 سے زائد روپے خرچ ہو جائیں گے، مفت انٹری سے کم از کم ٹکٹ کے پیسے تو بچ جاتے، میں نے ایک اور بات نوٹ کی کہ سیریز کی تشہیر پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، ایک دہائی بعد ملک میں ٹیسٹ کرکٹ واپس آئی،اس وقت تو جشن کا سا ماحول ہونا چاہیے۔
عوام کو زیادہ سے زیادہ راغب کرنے کے لیے جو اقدامات ہونے چاہیے تھے وہ اب تک نہیں ہوئے، البتہ طالبعلموں کی مفت انٹری، جاوید میانداد اور ورناپورا کو پہلے ٹیسٹ میں مہمان خصوصی بلانے جیسے اقدامات قابل تعریف ہیں، میں نے ٹی وی پر ماجد خان کو بھی کھیل سے لطف اندوز ہوتے دیکھا جس کی بڑی خوشی ہوئی، سابق اسٹارز کی ملک کے لیے بڑی خدمات ہیں۔
انھیں یاد رکھنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو بھی پتا چلے کہ یہ کون لوگ تھے اور کرکٹ میں کیا کیا کارنامے انجام دے چکے۔ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے بعد چونکہ یہ راولپنڈی میں پہلا میچ تھا اس لیے ہر لحاظ سے ماحول میں احتیاط زیادہ دکھائی دی، سکیورٹی انتظامات بھی بہت زیادہ سخت تھے جو وقت کی ضرورت بھی ہے، ہمیں اب کبھی سہل پسندی کا شکار نہیں ہونا، شائقین بھی اس بات کو سمجھتے ہیں اس لیے تلاشی وغیرہ کا برا نہیں مانتے، کراچی میں چونکہ کافی میچز ہو چکے اس لیے مقامی منتظمین کو ہر بات کا اندازہ ہوگیا۔
پہلے میچ کے مقابلے میں سری لنکا سے محدود اوورز کی سیریز میں چیزیں بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہی تھیں، اسٹیڈیم تزئین و آرائش کے بعد بہت اچھا منظر پیش کرتا ہے،کراچی کے میچ میں شائقین کو متوجہ کرنے کے لیے پی سی بی کو اقدامات کرنے ہوں گے، اسکول کے بچوں کا داخلہ یہاں بھی مفت رکھتے ہوئے عام لوگوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کرنا چاہیے، شہر میں ہورڈنگز وغیرہ لگائیں جس سے میچ کے حوالے سے شائقین کے جوش وخروش میں اضافہ ہو۔
اسٹیڈیم آنے والوں کو صاف ستھرے واش رومز، کھانے پینے کے لیے مناسب قیمت پر معیاری اشیا وغیرہ کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی۔ میں نو عمری سے ہی نیشنل اسٹیڈیم میں انٹرنیشنل میچز دیکھنے کے لیے آتا رہا ہوں، کرکٹ سے محبت کرنے والے ایک فرد کی حیثیت سے بخوبی جانتا ہوں کہ یہاں ٹیسٹ میچز نہ ہونے کا کتنا دکھ تھا،اب یہ محرومی ختم ہونے پر سب بیحد خوش ہیں۔
امید ہے جلد آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں بھی تواتر سے یہاں آئیں گی، جب ایسا ہوا تو پھر سکیورٹی سے زیادہ کرکٹ پر ہی بات ہوا کرے گی، کرکٹرز بھی اپنے شائقین کے سامنے کھیلنے کے لیے بے قرار تھے اب انھیں بھی محرومی دور کرنے کا سنہری موقع مل گیا، بس اب یہی دعا ہے کہ ہمارے میدان ہمیشہ آباد رہیں۔
پروفیسر اعجاز فاروقی
سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ
ملک میں کرکٹ کی رونقیں تو کچھ عرصے قبل ہی بحال ہو چکی تھیں مگر ٹیسٹ نہ ہونے سے دل میں ایک خلش سی تھی جو اب دور ہو گئی،اس کا کریڈٹ حکومت، سیکیورٹی ایجنسیز اور پی سی بی سب کو ہی جاتا ہے، کرکٹ کا اصل حسن ٹیسٹ ہی ہے، مصروف دور میں لوگوں کے پاس زیادہ وقت نہیں اس لیے وہ ٹی 20 اور ون ڈے کو ترجیح دیتے ہیں مگر کسی کھلاڑی کی صلاحیت کا اصل امتحان پانچ روزہ کرکٹ میں ہی ہوتا ہے۔
اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی کہ راولپنڈی ٹیسٹ کھیلنے والے ہمارے 11 کھلاڑی پہلی بار ہوم گراؤنڈ پر اس طرز کے میچ میں شریک تھے، بدقسمتی سے ملکی حالات اس کی وجہ بنے لیکن شکر ہے اب سیکیورٹی کے مسائل ختم ہو چکے اور غیرملکی ٹیموں کا اعتماد بھی بڑھنے لگا، اسی لیے میدان دوبارہ آباد ہوئے ہیں، اس میں ہم سری لنکا کے کردار کو فراموش نہیں کر سکتے۔
10 سال قبل لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے نے ہی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم کرا دی تھی، اب انہی کے دورے سے ٹیسٹ کا دوبارہ آغاز ہوا، ہم نے کرکٹ میں سری لنکا کے ساتھ بنگلہ دیش اور افغانستان پر بھی بڑے احسانات کیے مگر سری لنکنز کو کریڈٹ دینا چاہیے جو مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، دیگر دونوں نے تو نگاہیں پھیری ہوئی ہیں، سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں بارش اور سخت سردی کی وجہ سے بہت زیادہ کراؤڈ نہیں آ سکا مگر کراچی میں زیادہ تر اسٹینڈز بھرے رہنے کی توقع ہے۔
پی سی بی نے گوکہ ٹکٹ کی قیمت صرف 50 روپے رکھی لیکن میرا خیال ہے کہ مفت داخلہ زیادہ مناسب ہوتا،اگر کوئی فیملی کے ساتھ میچ دیکھنے کا خواہشمند ہے تو ٹکٹ، ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے پر اس کے 1000 سے زائد روپے خرچ ہو جائیں گے، مفت انٹری سے کم از کم ٹکٹ کے پیسے تو بچ جاتے، میں نے ایک اور بات نوٹ کی کہ سیریز کی تشہیر پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، ایک دہائی بعد ملک میں ٹیسٹ کرکٹ واپس آئی،اس وقت تو جشن کا سا ماحول ہونا چاہیے۔
عوام کو زیادہ سے زیادہ راغب کرنے کے لیے جو اقدامات ہونے چاہیے تھے وہ اب تک نہیں ہوئے، البتہ طالبعلموں کی مفت انٹری، جاوید میانداد اور ورناپورا کو پہلے ٹیسٹ میں مہمان خصوصی بلانے جیسے اقدامات قابل تعریف ہیں، میں نے ٹی وی پر ماجد خان کو بھی کھیل سے لطف اندوز ہوتے دیکھا جس کی بڑی خوشی ہوئی، سابق اسٹارز کی ملک کے لیے بڑی خدمات ہیں۔
انھیں یاد رکھنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو بھی پتا چلے کہ یہ کون لوگ تھے اور کرکٹ میں کیا کیا کارنامے انجام دے چکے۔ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے بعد چونکہ یہ راولپنڈی میں پہلا میچ تھا اس لیے ہر لحاظ سے ماحول میں احتیاط زیادہ دکھائی دی، سکیورٹی انتظامات بھی بہت زیادہ سخت تھے جو وقت کی ضرورت بھی ہے، ہمیں اب کبھی سہل پسندی کا شکار نہیں ہونا، شائقین بھی اس بات کو سمجھتے ہیں اس لیے تلاشی وغیرہ کا برا نہیں مانتے، کراچی میں چونکہ کافی میچز ہو چکے اس لیے مقامی منتظمین کو ہر بات کا اندازہ ہوگیا۔
پہلے میچ کے مقابلے میں سری لنکا سے محدود اوورز کی سیریز میں چیزیں بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہی تھیں، اسٹیڈیم تزئین و آرائش کے بعد بہت اچھا منظر پیش کرتا ہے،کراچی کے میچ میں شائقین کو متوجہ کرنے کے لیے پی سی بی کو اقدامات کرنے ہوں گے، اسکول کے بچوں کا داخلہ یہاں بھی مفت رکھتے ہوئے عام لوگوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کرنا چاہیے، شہر میں ہورڈنگز وغیرہ لگائیں جس سے میچ کے حوالے سے شائقین کے جوش وخروش میں اضافہ ہو۔
اسٹیڈیم آنے والوں کو صاف ستھرے واش رومز، کھانے پینے کے لیے مناسب قیمت پر معیاری اشیا وغیرہ کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی۔ میں نو عمری سے ہی نیشنل اسٹیڈیم میں انٹرنیشنل میچز دیکھنے کے لیے آتا رہا ہوں، کرکٹ سے محبت کرنے والے ایک فرد کی حیثیت سے بخوبی جانتا ہوں کہ یہاں ٹیسٹ میچز نہ ہونے کا کتنا دکھ تھا،اب یہ محرومی ختم ہونے پر سب بیحد خوش ہیں۔
امید ہے جلد آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں بھی تواتر سے یہاں آئیں گی، جب ایسا ہوا تو پھر سکیورٹی سے زیادہ کرکٹ پر ہی بات ہوا کرے گی، کرکٹرز بھی اپنے شائقین کے سامنے کھیلنے کے لیے بے قرار تھے اب انھیں بھی محرومی دور کرنے کا سنہری موقع مل گیا، بس اب یہی دعا ہے کہ ہمارے میدان ہمیشہ آباد رہیں۔
پروفیسر اعجاز فاروقی
سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ