اسلامی بینکوں کے کھاتوں میں کمی ہونے لگی

بے جا ضابطوں کی وجہ سے اسلامی بینک نجی شعبے کو سرمایہ فراہم نہیں کرسکتے

3ماہ کے دوران کھاتے داروں کو ایک ارب روپے واپس کیے گئے ہیں، اسٹیٹ بینک رپورٹ۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں اسلامی بینکنگ ان دنوں شدید مشکلات کا شکار ہے اور سخت نامساعد حالات میں اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے باوجود اس کے کہ اسلامی بینکوں کے پاس کافی مقدار میں سرمایہ موجود ہے تاہم وہ کسی کام میں آتا نظر نہیں آتا۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ شرعی قوانین سے مکمل مطابقت کے حوالے سے بنائے گئے بے جا اور اضافی قوانین ہیں یہی وجہ ہے کہ ان اسلامی بینکوں نے نئے کھاتے کھولنے بند کردیے ہیں بلکہ بعض اسلامی بینکوں نے تو اپنے کھاتے داروں کو اپنی رقوم واپس بھی کردی ہیں۔


بینکنگ سیکٹر سے وابستہ ایک باخبر ذریعے نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت میں بتایا کہ ہم نے اپنے نئے کھاتے کھولنے بند کردیے ہیں اور ایک اسلامی بینک نے اپنے کھاتے داروں کو تقریبا ایک ارب روپے واپس کیے ہیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جمعے کے روز اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کی اسلامی بینکوں کے کھاتوں میں گزشتہ تین ماہ کے دوران 8 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے جو 30 جون 2019 کے اختتام تک 2ہزار 415ارب روپے تھے جو 30 ستمبر کے اختتام تک کم ہو کر 2ہزار 407ارب روپے رہ گئی۔



ذرائع کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکنگ کے پاس موجود سرمایہ حد سے زیادہ ہوگیا تھا اور موجودہ ضابطے اور قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اسلامی بینک صنعتوں، زرعی شعبوں اور دیگر نجی شعبے کو قرض فراہم کرسکیں۔ اسلامی بینکوں کے پاس 600 ارب روپے اضافی ہیں تاہم اسے نجی شعبے کو فراہم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ضابطے کے تحت اسلامی بینک نجی شعبے کو دیے جانے والے قرض کی حد کو پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اسی لیے یہ اضافی رقم کسی کام نہیں آرہی۔دنیا میں دیگر ممالک بھی ہیں جن میں ترکی اور بحرہن شامل ہیں کہ جو کھاتے داروں کی رقم کو بھی بینک کے سرمایے میں شامل کرتے ہیں کیونکہ یہ کھاتے دار منافع اور نقصان کی بنیاد پر اپنے رقوم جمع کراتے ہیں جو شرعی قوانین کے عین مطابق ہیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی اس بات پر غور کررہا ہے کہ ملک میں اسی طرح کے ضابطے متعارف کرائے۔


CAR یعنی کیش ایڈیکوئسی ریشیو دراصل بینک کے سرمایہ کی رہ رقم ہوتی ہے جس سے وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں اور سرمایے کی ایک حد کے بعد بینک اسے سے زائد خرچ نہیں کرسکتے کیونکہ بقایا رقم خطرات اور دیگر معاملات سے نمٹنے کے لیے رکھی جاتی ہے اور اس وقت تمام اسلامی بینک اپنے CAR حدود کو پہنچے ہوئے ہیں۔


اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس وقت CAR کی حد 10 اعشاریہ 5 فیصد کی شرح پر رکھا گیا ہے اسے 31 دسمبر 2019 کے اختتام تک بتدریج 12 اعشاریہ 5 پر لے جایا جائے گا۔ ایک وقت تھا کہ جب اسلامی بینک اپنے سرمایے کا 50 سے 60 فیصد رقم شرعی بانڈز یعنی سکوک میں لگایا کرتے تھے تاہم حکومت نے گزشتہ دو سے تین برسوں کے دوران سکوک کا اجرا بھی بہت کم کردیا ہے۔


ذرائع نے مزید بتایا کہ ایک وقت تھا جب اسلامی بینک اپنے کل 600 سے 800 ارب روپے سرمائے میں سے 380 سے 400 ارب روپے سکوک بانڈز پر لگایا کرتے تھے، آج یہ حال ہے کہ ان کے پاس 2 ہزار ارب سے زائد سرمایہ موجود ہے جبکہ سکوک میں ان کی سرمایہ کاری محض 71 ارب روپے رہ گئی ہے۔


 
Load Next Story