نوابزادہ نصراللہ خان کی ٹوپی حقہ اور سگار

بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ اُن کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا.

بابائے جمہوریت کی موت خواجہ ناظم الدین کی موت کی طرح اپوزیشن کے لیے ایک دھچکا اور حکومت کے لیے ریلیف کا پیغام تھی۔ فوٹو : فائل

NEW DELHI/ISLAMABAD:
بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ اُن کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا اور اسلام آباد ہسپتال کے جس کمرے میں وہ زیرِ علاج تھے وہاں اُن کی زندگی کے آخری سیاسی اتحاد کے رسمی اور غیر رسمی اجلاس جاری تھے۔

ڈاکٹروں کی ہدایت اور اہلِ خانہ کی مرضی کے خلاف وہ یہ اجلاس کروا رہے تھے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی زندگی پاکستان اور جمہوریت سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ اُن کی موت خواجہ ناظم الدین کی موت کی طرح اپوزیشن کے لیے ایک دھچکا اور حکومت کے لیے ریلیف کا پیغام تھی۔ جو 1965ء کے بعد صدارتی انتخاب کے ذرا قبل جب اپوزیشن محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں اپنی شیرازہ بندی کر رہی تھی اچانک انتقال کر گئے تھے۔


نواب زادہ نصراللہ خان کو اُن کے والد گرامی نواب امان اللہ خان کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا تو اُن کی میت کے ساتھ پاکستان کی سیاست، جمہوریت، جمہوری جدوجہد اور سیاسی اتحادوں کی ایک تاریخ بھی تہہ خاک ہو گئی۔ وہ سیاست میں شرافت اور وضعداری کا اعلیٰ نمونہ اور پاکستان میں خلافتِ عثمانیہ کی آخری یادگار تھے۔ اُن کی کالے پھندنے والی سرخ ٹوپی لاکھوں کے مجمع میں بھی انہیں منفرد اور ممتاز بنا دیتی تھی۔ یہ ٹوپی ترکوں اور خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ اُن کے دلی اور دائمی تعلق کا اظہار تھی۔

سلیقے اور اہتمام سے سلی ہوئی اُن کی اچکن اور ہر چیز کی وضعدار اور روایت پسند اشرافیہ کی نشانی تھی۔ جس کے نیچے کلف لگا شلوار کرتا پنجاب کے زمینداروں کی یاد دلاتا تھا۔ سخت گرمی میں جب اچکن پہننا ممکن نہ ہوتا وہ جنوبی پنجاب کا مخصوص کنٹھی دار اور پف شولڈر والا سفید کُرتا استعمال کرتے۔ انہیں رنگین شلوار قمیص کے ساتھ شاید کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو۔ اُن کا مخصوص حقہ گھر اور دفتر کے علاوہ گاڑی اور بہت سی تقریبات میں بھی اُن کے ساتھ ہوتا۔

اس حقے کو 1969ء میں اُس وقت شہرت ملی تھی جب نواب زادہ نصراللہ تحریک جمہوریت (پی ڈی ایم) اور جمہوری مجلسِ عمل (ڈی اے سی) کے لیڈر کی حیثیت سے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چلا رہے تھے اور اس حیثیت میں ایوب خان کی طلب کردہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئے تو جہاز میں اپنا حقہ اور اوپلے بھی ساتھ لے لیے۔ ایک صحافی کے پوچھنے پر اُن کا جواب تھا کہ وہ آمر کے اوپلے بھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ اجلاسوں کے دوران وہ سگار کا استعمال کرتے تھے۔ پیر پگاڑا اُن کے لیے اعلیٰ قسم کے سلگار لے کر آتے یا بھجواتے تھے۔
Load Next Story