طالبان سے مذاکرات کا ایجنڈا واضح ہونا چاہیے

وہ مذاکرات کا عمل پھر سے بحال کرنے کی کوشش کرے گی یا آخری آپشن کے طور پر آپریشن کا راستہ اپنائے گی۔

طالبان سے مذاکرات کا مقصد دہشت گردی کے مسئلے کو خون خرابہ کے بجائے بات چیت سے حل کرنا ہے۔ فوٹو: فائل

لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے جمعرات کو لندن میں برطانیہ کے نائب وزیراعظم نک کلیگ سے ملاقات میں طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امید کرتے اور دعا گو ہیں کہ یہ مذاکرات آئین پاکستان کے دائرہ کار کے اندر ہوں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے پہلی بار ایسا بیان آیا ہے جس میں طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی تصدیق کی گئی ہے جس کے بعد طالبان سے مذاکرات ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے گو مگو کی کیفیت ختم ہو گئی ہے۔

طالبان سے مذاکرات کا مقصد دہشت گردی کے مسئلے کو خون خرابہ کے بجائے بات چیت سے حل کرنا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ کون حکومتی ارکان طالبان کے کس گروپ سے مذاکرات کر رہے ہیں اور یہ مذاکرات کب شروع ہوئے' اس کا ایجنڈا کیا ہے اور اب تک مذاکرات میں کیا پیشرفت ہوئی ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کی شرائط کس حد تک تسلیم یا مسترد کر رہے ہیں۔ یہ تو حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ اس نے مذاکرات کے معاملے کو عیاں کرنے کے بجائے خفیہ کیوں رکھا اور وہ کیا مقاصد یا مجبوریاں تھیں کہ مذاکراتی عمل کو آغاز میں طشت ازبام نہیں کیا گیا۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کون لوگ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو کامیاب اور رابطہ مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ابھی وزیراعظم نے صرف اس امرکی تصدیق کی ہے کہ مذاکرات جاری ہیں اس کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ نہیں کیا۔ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور طالبان حکومتی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو پھر حکومت کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ کیا

وہ مذاکرات کا عمل پھر سے بحال کرنے کی کوشش کرے گی یا آخری آپشن کے طور پر آپریشن کا راستہ اپنائے گی۔ تحریک انصاف' جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کا گروپ اس بات کا حامی ہے کہ حکومت طالبان کے خلاف آپریشن کرنے کے بجائے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔ عمران خان نے جمعرات کو لاہور میں تحریک انصاف کی صوبائی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ ہوا تو خیبر پختون خوا میں نیٹو سپلائی بند کردیں گے اور اس پر کے پی کے اسمبلی میں قرار داد بھی لائی جا رہی ہے، جب ڈرون حملے ہو رہے ہوں تو طالبان جنگ بندی کیسے کریں گے۔ عمران خان ایک عرصے سے حکومت سے یہ مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے عمران خان کے اس مطالبے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر عمران خان مسلسل اپنے اسی موقف کا اعادہ کرتے رہے۔ طالبان نے بھی حکومت سے مذاکرات کے لیے یہ شرط عائدکی تھی کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کروایا جائے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزامات بھی سامنے آئے کہ ڈرون حملے حکومت پاکستان کی مرضی سے ہو رہے ہیں' شاید یہی وہ نقطہ نظر تھا کہ طالبان نے مذاکرات سے قبل ڈرون حملے رکوانے کا مطالبہ کر ڈالا۔


موجودہ حکومت ملک میں ہر صورت امن و امان قائم کرنے کی خواہاں ہے' اسے اس امر کا ادراک ہے کہ ڈرون حملوں سے ملک میں دہشت گردی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو دہشت گردی پر قابو پانے کی تمام کوششیں رائیگاں جانے کا خدشہ رہے گا اسی لیے وزیراعظم نواز شریف نے امریکا میں صدر اوباما سے ملاقات میں ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکا یہ مطالبہ مانتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر ابھی تک امریکا کی جانب سے ایسا کوئی عندیہ نہیں آیا کہ وہ ڈرون حملے بند کر دے گا۔ اخباری خبروں کے مطابق امریکی حکام کا یہ کہنا ہے کہ انھوں نے ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور القاعدہ کے متعدد رہنما مارے گئے۔ پاکستانی حکومت خلوص نیت سے ڈرون حملے رکوانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ چین نے بھی ڈرون حملوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

لندن میں وزیراعظم نواز شریف نے برطانوی نائب وزیراعظم سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے انسداد دہشت گردی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کی استعداد کار بڑھائی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ملک کی گلیوں میں معصوم شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو مارا جاتا رہے اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے۔ نئی حکومت کے لیے دہشت گردی ایک بہت بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک جانب طالبان سے مذاکرات کر رہی تو دوسری جانب انسداد دہشت گردی فورسز کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ حال ہی میں جاری ہونے والے تحفظ پاکستان آرڈیننس کا مقصد بھی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث دہشت گردوں کو سزا دینا ہے۔

علاوہ ازیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے بھی جمعرات کو پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں اپوزیشن رہنمائوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے' مذاکرات کا ایجنڈا' طریقہ کار اور مقام طے کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میجر جنرل ثناء اللہ کی شہادت اور چرچ پر حملے کے واقعات طالبان سے مذاکرات میں تاخیر کا سبب بنے۔ حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کرنے کی تصدیق تو ہو گئی ہے اب اس کا ایجنڈا بھی جلد از جلد منظر عام پر لایا جائے تاکہ پوری قوم میں پھیلی بے یقینی کی فضا ختم ہو سکے۔ پشاور میں چرچ حملے اور میجر جنرل ثناء اللہ کی شہادت کے بعد پورے ملک میں فضا طالبان کے خلاف ہو چکی تھی، اس لیے حکومت کے لیے فی الفور طالبان سے مذاکرات شروع کرنا قابل عمل نہ تھا' ایسی صورت میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ لہٰذا حکومت نے ایک عرصہ انتظار کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔
Load Next Story