آج کے غیر حاضر سیاستدان

حکمران تو عموماً اس قدر خوفزدہ اور ڈرے سہمے رہتے ہیں کہ ایوان اقتدار سے باہر قدم بھی نہیں رکھتے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

جب زرعی جاگیریں اور زمینداریاں عروج پر تھیں تو ان کے مالک ان کی آمدنی پر دیہات کو چھوڑ کر شہروں میں رہنے لگے جہاں ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم میسر تھی اور بزرگوں کے علاج معالجے کے لیے بڑے ڈاکٹر اور شفاخانے موجود تھے۔ یہ لوگ سیاست میں خاص طور پر حصہ لیا کرتے تھے کیونکہ سیاست میں کوئی مرتبہ ہی انھیں زندہ رکھتا تھا اور وہ بڑے آدمیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایسے لوگوں کو غیر حاضر زمیندار کہا جاتا تھا یا آجکل کی زبان میں پارٹ ٹائم۔ ہم رپورٹر ان کی حماقتوں اور دلچسپ بے معنی سیاسی بیانوں کو پڑھ کر ہنسا کرتے تھے۔ عموماً یوں ہوتا کہ جب ان کی کسی حماقت پر ان سے بات ہوتی تو وہ ایک جواب دیتے کہ پھر آپ ہی اسے ٹھیک کر دیں۔ ان کا مبلغ علم بس یہیں ختم ہو جاتا تھا البتہ ان غیر حاضر زمینداروں میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسے لوگ بھی تھے جو ہم صحافیوں کو سیاست اور صحافت دونوں سکھایا کرتے تھے۔

دولتانہ صاحب لندن اسکول آف اکنامکس کے طالب علم اور پروفیسر لاسکی کے خاص شاگرد تھے، جوانی کے ترقی پسند تھے، ان کے ڈرائنگ روم میں مارکس کا مجسمہ رکھا رہتا تھا اور نوابزادہ صاحب برصغیر کی سیاسی درسگاہ کے ایک ذہین طالب علم تھے اور انھیں برصغیر ہندوستان کی سیاست ازبر تھی بلکہ ان کی دیکھی ہوئی تھی اور وہ اس کا ایک سرگرم حصہ تھے۔ اسی طرح کئی دوسرے لیڈر بھی تھے لیکن اکثریت جاہل غیر حاضر زمینداروں کی تھی جن کو ہمارے جیسے صحافی بھی سیاست سکھایا کرتے تھے جب کہ ہم اس طبقے کے بڑے لوگوں سے سیاست اور صحافت دونوں کے اسرار و رموز سیکھتے تھے۔ ان لوگوں سے مل کر ہم جب کسی غیر حاضر قسم کے سیاستدان سے ملتے تو وہ بڑے شوق اور تجسس کے ساتھ پوچھتے کہ میاں صاحب نے کیا کہا یا نوابزادہ صاحب کا فلاں مسئلے کے بارے میں کیا خیال تھا۔ مشرقی پاکستان کے سیاستدان میاں صاحب کے بارے میں بہت کریدتے تھے اور برملا کہتے کہ ہمیں اس سیاستدان سے ڈر لگتا ہے۔


میں یہاں ذکر تو ایک دوسری قسم کے غیر حاضر سیاستدانوں کا کرنا چاہتا تھا لیکن اس حوالے سے اس کا پس منظر بتانا پڑا کہ شاید ہمارے آج کے قارئین اس پس منظر سے واقف نہ ہوں۔ مجھے یہ باتیں میاں صاحبان سے یاد آئیں چنانچہ میں میاں صاحبان کا ذکر کرنا چاہتا تھا جن کی آج جمعہ کے اخبار میں بھی جو خبریں اور بیان چھپے ہیں وہ مع تصویر لندن سے آئے ہیں۔ میاں صاحبان یعنی میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف جب سے تازہ حکومت میں آئے ہیں وہ ملک سے زیادہ تر غائب رہنے لگے ہیں پرانے زمانے کے غیر حاضر زمینداروں کی طرح۔ اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے ان کی جاگیریں اور زمینداریاں بلاشبہ محفوظ ہیں اور آج کے زمانے میں غیر حاضر سیاستدانوں کے دیہات کے مقابلے میں شہر کراچی یا لاہور نہیں لندن اور واشنگٹن ہیں۔ ان حکمرانوں کے علاوہ بھی کئی بڑے رئیس سیاستدان بلڈ پریشر تک چیک کرانے بھی بیرونی ملک جایا کرتے ہیں مگر یہ تو عملاً حکمران بھی ہیں اور امارت کے اس مقام پر کہ جس کی بلندی آپ دیکھ نہیں سکتے اس سے صرف پگڑی ٹوپی نہیں گرتی سر بھی گر جاتا ہے۔

ہماری پرانی غیر حاضر سیاست میں غیر حاضر حکمرانی کی یہ پہلی مثال ہے ورنہ حکمران تو عموماً اس قدر خوفزدہ اور ڈرے سہمے رہتے ہیں کہ ایوان اقتدار سے باہر قدم بھی نہیں رکھتے کہ ان کی غیر حاضری میں پیچھے نہ جانے کیا ہو جائے۔ ہمارے ہاں تو ایک مستقل خطرہ فوج کا رہتا تھا لیکن فوج چوری چھپے اور دارالحکومت خالی دیکھ کر نہیں بلکہ دبڑ دبڑ کرتی آتی تھی اس کے بھاری بوٹوں اور طاقت ور قدموں کی دھمک سے ایوان لرزتا تھا۔ اور میجر صاحب وزیر اعظم کو کان سے پکڑ کر اپنے فوجی کارندوں کے سپرد کر دیتے تھے جو پیشگی ہدایات کے مطابق انھیں ان کے غیر سرکاری مقام پر لے جاتے تھے مگر اس کے علاوہ ایک سیاسی مارشل لاء کا خطرہ بھی رہتا تھا اور چالاک سیاسی ساتھی موقع پا کر ہاتھ دکھا جاتے تھے۔ انھی سے بچنے کے لیے حکمران کرسی خالی نہیں چھڑاتے تھے اور اس سے اٹھتے بھی تھے تو اس پر رومال رکھ دیتے تھے کہ رومال والا کہیں آس پاس ہی ہے۔

ہمارے آج کے حکمران بحمد اللہ لگتا ہے ہر خطرے اور فکر سے آزاد ہیں اور ایک ملک کے دورے سے فارغ نہیں ہوتے کہ دوسرے کے کامیاب دورے پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ ہاں ڈکار لینے اور آرام سے خلال کرنے کے لیے واپس گھر آتے ہیں۔ ہمارے جیسے منتظر خوشامدیوں کو ملاقات کا موقع دیتے ہیں یا ان کی خیر و عافیت معلوم کر کے انھیں خوش کر دیتے ہیں اگرچہ سوائے چند سرکاری ملازمین کے تبادلوں اور ترقیوں کے انھیں اور کوئی کام نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ شاید یہ دیکھنے آ جاتے ہیں کہ سب کچھ پہلے کی طرح موجود ہے یا نہیں جو نہ صرف پہلے کی طرح بلکہ اس سے زیادہ ہی موجود ہوتا ہے۔ میں آپ کو غیر حاضر سیاستدانوں کی اس نئی نسل سے متعارف کرانا چاہتا تھا کہ ایک زمیندار اور کارخانہ دار کی غیر حاضری میں کیا فرق ہوتا ہے جو درحقیقت نہیں ہوتا۔ ہم عوام کبھی حاضر اور کبھی غیر حاضر حکمرانوں کی رعایا ہیں جو آج دو وقت کی روٹی کے اس قدر محتاج ہو گئے ہیں کہ وہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے خدا نہ کرے یہ کچھ اور سوچ لیں۔ ان کی سوچوں کو بند رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے پاس سوائے مشورے کے اور کچھ نہیں۔
Load Next Story