بلوچستان ایک خطرناک دوراہے پر

بلوچستان میں اس صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف چلنے والی یہ تحریک نئی نہیں


Zaheer Akhter Bedari November 01, 2013
[email protected]

راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس کو ڈیرہ مراد جمالی کے قریب ریموٹ کنٹرول بم سے اڑا دیا گیا۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ ٹرین کی 6 بوگیاں الٹ گئیں، 7افراد ہلاک، 15 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل بھی جعفر ایکسپریس پر حملہ کرکے کئی بے گناہ مسافروں کو قتل کردیا گیا تھا۔ ڈیرہ مراد جمالی کے حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں تین بھائی بھی شامل تھے جو غالباً عید کی چھٹیاں اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کے بعد اپنی ڈیوٹیوں پر واپس جارہے تھے۔ ان تین سگے بھائیوں سمیت جاں بحق ہونے والے تمام مسافروں کا تعلق اس غریب طبقے سے تھا جو اپنا پیٹ پالنے کے لیے اپنے شہر سے ہزاروں میل دور محنت مشقت کرتے تھے۔ اس دھماکے کی ذمے داری بلوچ ری پبلکن آرمی نے قبول کرلی ہے۔ بلوچستان میں چلنے والی اس سبوتاژ کی تحریک اس ناانصافی کے خلاف ہے جس کا الزام پنجاب پر لگایا جاتا ہے۔ اس دھماکے میں مارے جانے والے غریب لوگوں کا تعلق بھی پنجاب سے تھا، جن میں تین سگے بھائی ندیم، نعیم اور وسیم صادق آباد پنجاب کے رہنے والے تھے۔

بلوچستان میں اس صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف چلنے والی یہ تحریک نئی نہیں بلکہ یہ تحریک ایوب خان اور بھٹو کے دور سے چل رہی ہے اور ناراض بلوچ جن میں بلوچ سردار بھی شامل ہیں، بلوچستان کے پہاڑوں سے یہ تحریک چلاتے رہے ہیں جن میں خیر بخش مری جیسے رہنما بھی شامل رہے ہیں، جن کا شمار پاکستان کے سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ متحدہ پاکستان میں چلنے والی اس تحریک کے کارکن پنجاب کو بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ بھٹو صاحب ایک جمہوری حکمران تھے لیکن مرحوم نے بھی بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ اور مذاکراتی کوشش نہیں کی، اس کے برخلاف اس تحریک کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی۔ یہ تحریک عموماً سبوتاژ تک محدود تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک گوریلا جنگ میں بدل گئی اور بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ رپبلکن آرمی جیسی مسلح تنظیمیں وجود میں آئیں اور مسلح بغاوت کی شکل اختیار کر گئیں۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

بلوچستان کے عوام کو جو شکایت ہے یہ شکایت ملک کے تین چھوٹے صوبوں سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو رہی ہے۔ یہ شکایت جائز بھی ہے اور منطقی بھی ہے۔ جو قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے تینوں چھوٹے صوبوں کو رہی ہے۔ اس شکایت کے جائز ہونے کا اندازہ ان اقدامات سے ہوسکتا ہے جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کے سیاست دان چھوٹے صوبوں کو اپنی نو آبادیاں بنائے رکھنے کے حوالے سے کرتے رہے، جن میں ون یونٹ جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔ ان ناانصافیوں کے خلاف بنگالی عوام کی ناراضگی کا مشاہدہ ہم نے 1970 میں بچشم خود ڈھاکا میں دیکھا، جب ہم نیب کے ایک وفد کے ساتھ مشرقی پاکستان کے حالات کا مطالعہ کرنے ڈھاکا گئے تھے۔ یہ دور وہ پر آشوب دور تھا جب مجیب الرحمن کے چھ نکات نے سارے مغربی پاکستان میں ہلچل مچادی تھی اور شیخ مجیب الرحمن کو اگرتلہ سازش کے حوالے سے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 1970 کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے مرکز میں عوامی لیگ کو حکومت بنانے کا موقع دینے کے بجائے مشرقی پاکستان پر فوج کے ذریعے کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس حوالے سے المیہ یہ رہا کہ بھٹو صاحب محض اقتدار کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل گئے اور نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں نکلا۔

مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اور آج پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اگرچہ اس کی جڑیں 1947 کی تقسیم ہند میں گڑی ہوئی ہیں لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے 1971 کے بعد بھی اپنا رویہ نہ بدلا اور چھوٹے صوبوں کو اپنی کالونیاں بنائے رکھنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں ایک غلطی بلکہ حماقت یہ کی کہ ان کارروئیوں میں مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باقی ماندہ پاکستان بتدریج مذہبی انتہاپسندوں کا گڑھ بن گیا اور پاکستان دہشت گردوں کا یرغمالی بن گیا۔ آج ہماری سیاسی قیادت اپنی پیدا کردہ اس مذہبی انتہا پسندی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑی ہے کہ وہ از راہ کرم مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر آمادہ ہوجائے۔

تقسیم ہند سے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا یا نقصان ہوا، اس پر بحث کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا۔ کیونکہ پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آچکا ہے اور اب مزید ٹوٹ پھوٹ سے برصغیر یا پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اس ناگزیر حقیقت کو تسلیم کرلیں تو پھر چھوٹے صوبوں کی شکایات کا ازالہ مسلح جدوجہد کے بجائے جمہوری تحریکوں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اب بلوچستان کے سیاسی رہنمائوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مسلح تنظیموں کے ذریعے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ یہ راستہ اختیار کرنا اس لیے ضروری اور خود بلوچستان کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ اس مسئلے میں دو ایسے عناصر ملوث ہوگئے ہیں جنھیں بلوچ عوام کے مفادات اور ان کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ان کا اپنا ایک ایجنڈا ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔

ان دو عناصر میں سے ایک مذہبی انتہاپسند طاقتیں ہیں جو اپنی تخلیق کردہ شریعت کے نفاذ کے لیے انتہائی سفاکانہ قتل و غارت گری پر اتر آئی ہیں اور بلوچستان میں بھی پوری طرح سرگرم ہیں۔ کیا بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والی مسلح تنظیموں کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ وہ اپنے حقوق کی جو جنگ لڑرہے ہیں اسے مذہبی انتہاپسند ہائی جیک کرسکتے ہیں اور بلوچستان بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا جس کا اندیشہ ہے تو کیا بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو اس ممکنہ صورت حال سے فائدہ ہوسکتا ہے یا بلوچستان مالی اور صومالیہ بن جائے گا؟ اس حوالے سے دوم عنصر بھارتی سیاست ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ محض اپنی احمقانہ اور قوم پرستانہ سیاست کی وجہ سے 1971 میں بھی پاکستان توڑنے میں ملوث رہا ہے اور اندازہ ہے کہ ایک بار پھر وہ وہی کھیل بلوچستان میں کھیلنا چاہتا ہے جو اس نے 1971 میں مشرقی پاکستان میں کھیلا تھا۔

ایک طرف بھارت کو یہ شکایت ہے کہ پاکستان مذہبی انتہاپسندوں کا گڑھ بن چکا ہے، دوسری طرف وہ بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے ایجنڈے کا حصہ بن رہا ہے۔ بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو ان حقائق کو سمجھنا چاہیے جو ان کی کوششوں کو نہ صرف ہائی جیک کرلیں گی بلکہ خطرہ یہ ہے کہ بلوچستان کو ایک ایسی دلدل میں پہنچادیں گی جہاں بلوچ عوام نہ صرف مذہبی انتہاپسندوں کے یرغمالی بن جائیں گے بلکہ بلوچستان کے عوام کا مستقبل ایک ایسے خطرے سے دوچار ہوجائے گا جس کا کوئی ازالہ ممکن نہیں رہے گا۔ یہ مرحلہ اس قدر خطرناک ہے کہ اگر بلوچ نوجوان اس کا ادراک نہ کرسکے تو ان کی ساری کوششیں ساری جدوجہد دریا برد ہوجائے گی۔

اس حوالے سے افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ مذہبی انتہاپسندوں کا نشانہ بھی غریب عوام بن رہے ہیں اور بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا نشانہ بھی غریب عوام ہی بن رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مذہبی انتہاپسند غریب طبقات کا قتل عام فرقہ وارانہ تعصبات کے حوالے سے کررہے ہیں اور بلوچ مسلح تنظیمیں غریب عوام کو نشانہ غیر بلوچ ہونے کے جرم میں بنارہی ہیں اور اس صورت حال سے وہ اہل فکر، اہل دانش اور ترقی پسند سیاست دان اس لیے فکر مند ہیں کہ اس منفی صورت حال سے وہ طبقاتی جدوجہد سبوتاژ ہورہی ہے جو اس ملک کے عوام کی اصل جدوجہد ہے۔ بلوچستان کی ان سیاسی رہنمائوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس صورت اور اس کے منطقی نتائج کو محسوس کرکے پاکستان کے ان دانشوروں اور سیاست دانوں کو اپنے ساتھ لے کر اس صورتحال سے بلوچستان کو نکالنے کی کوشش کریں جو بلوچستان کے عوام کے سروں پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں