وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب

دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران دوطرفہ تعاون پر اطمینان کا اظہارکیا گیا ہے


Editorial December 15, 2019
دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران دوطرفہ تعاون پر اطمینان کا اظہارکیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

LONDON: وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے ایک روزہ دورہ کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے پاک سعودی تعلقات کو خطے میں امن واستحکام اور ترقی کا ضامن قرار دیا ہے، یہ انتہائی صائب خیالات ہیں۔ پاک سعودی تعلقات میں یہ ایک نئی جہت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

مسلسل روابط اس اسٹرٹیجک شراکت داری کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں، دونوں ممالک کی قیادت پاکستان سعودی تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جانے کے لیے پر عزم ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ملک کو نئے خطوط پر عہد حاضرکے جدید تقاضوں کے مطابق چلانا چاہتے ہیں، وہ کرپشن کے خلاف کوششیں کر رہے ہیں اور سعودیہ کو ایک جدید ملک بنانے میں مصروف ہیں، جب کہ ہماری موجودہ قیادت کا وژن بھی ان کے وژن سے ملتا جلتا ہے، یہاں بھی کرپشن سے نجات کے ساتھ ساتھ جدیدیت کی طرف سفرکی باتیں کی جا رہی ہیں۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران دوطرفہ تعاون پر اطمینان کا اظہارکیا گیا ہے جوکہ انتہائی خوش آیند اور دور رس نتائج کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے باہمی اعتماد پر مبنی دوطرفہ تعلقات کی انفرادیت کو سراہا اورکہا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا رواں سال فروری میں دورہ پاکستان انتہائی اہم رہا، سرمایہ کاری ، توانائی ، سلامتی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون کے نئے دورکا آغاز ہوا۔ بلاشبہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 20 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے دوستی کے رشتوں کو ریاستی مفادات میں ڈھالنے کی ایک قابل ستائش کوشش کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

سعودی ولی عہد کی پاکستان کی ساتھ محبت نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا تھا جس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نیا موڑ دیا اور دنیا کو باورکرایا ہے کہ پاکستان تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں ترین مقام بن چکا ہے۔ سعودی ولی عہد کے دورہ کے موقعے پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 20ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے7معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔

سعودی عرب توانائی، معدنی ذخائر، پیٹرو کیمیکل، پاک سعودی ریفائنری، ترقیاتی منصوبوں، نوجوانوں کی دلچسپی سمیت کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے پاکستانی معیشت کی بحالی میں مدد دے گا۔ گوادر میں بڑی آئل ریفائنری قائم کرنے کا سعودی منصوبہ دونوں ممالک کے بہترین تعلقات کا عکاس ہے۔گوکہ موجودہ حالات میں دوطرفہ معاشی اور اقتصادی تعلقات دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے سیاسی تعلقات کے حجم کی نسبت بہت کم ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کی برآمدات کا حجم اس کی کْل برآمدات کا صرف 1.77فیصد ہے۔

ان برآمدات کا زیادہ ترحصہ ٹیکسٹائل اور غذائی مصنوعات پر مبنی ہے۔دوسری طرف پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات زیادہ تر تیل اور اس سے منسلک مصنوعات پر مشتمل ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برآمدات ودرآمدات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ تشویشناک معاشی حالات میں پاکستان کے لیے بیس ارب ڈالر کی سعودی امداد بہت اہم ہے اور یہ اکانومی کے مسئلے بہت حد تک کم کرے گی۔

اپنے ایک روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورتحال سے آگاہ کیا، لائن آف کنٹرول پر جاری بھارتی جارحیت پر بھی اعتماد میں لیا گیا۔ وزیر اعظم نے کشمیر پر او آئی سی رابطہ گروپ میں فعال کردار سمیت حمایت پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا۔ کشمیرکی موجودہ سنگین صورتحال کے تناظر میں جہاں بھارت نے مسلسل کئی ماہ سے کرفیو لگا رکھا ہے اورکشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کا سفارتی محاذ پر کشمیریوں کی حمایت کے لیے عالمی رائے عامہ کو ہموارکرنے کا عمل درست سمت میں رواں ہے۔

سعودی عرب نے پاکستان میں سیاحت کے شعبے کی ترقی میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی، اس حوالے سے سعودی ٹیم کے جلد پاکستان آنے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے بہت سے ممالک سیاحت کی کثیر آمدنی پر انحصارکرتے ہیں۔ ہمیں سعودی عرب کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر ملک میں سیاحت کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ اس شعبے میں بہترین معاشی اسکوپ ہے جس سے مقامی لوگوں میں روزگارکے بہترین مواقعے میسر آئیں گے۔ پاکستان سورہ رحمن کی عملی تفسیر ہے۔

رب کائنات نے ہر نعمت مملکت خداداد پاکستان کو عطا کی ہے اور قدرتی حسن کے شاہکار حسین و جمیل وادیاں ، پہاڑ ، دریا ، صحرا بھی ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں ہیں، دنیا کے بہت کم ممالک میں یہ سارا حسن ایک جگہ یکجا نظر آتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات 72سال پر محیط ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوتے آئے ہیں۔ روایتی برادرانہ تعلقات اس وقت اسٹرٹیجک اورگرم جوش تعلقات میں ڈھل چکے ہیں ۔

سعودی عرب کا شمار دنیا کے ان چند ایک گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جن پر پاکستان آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرتا ہے اور جنھوں نے تمام مشکل حالات میں تن من دھن سے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جہاں سے سب سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے سعودی عرب میں کام کرنیوالے پاکستانی محنت کشوں، پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری اور اسٹرٹیجک تعلقات کے امور پر جس طرح بات کی وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے جب کہ سعودی ولی عہد نے بھی وزیراعظم پاکستان کی تجاویز پر فوری اور مثبت ردّ عمل دیا۔

ساری صورتحال سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو نیا موڑ دینے کی منصوبہ بندی کرچکی ہے جو بہت اچھی سوچ ہے۔ سرمایہ کاری کے نئے منصوبوں سے صرف سرمایہ پاکستان نہیں آئے گا بلکہ مستقبل کی ضروریات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اور روزگارکی سہولیات بھی پیدا ہوں گی۔ بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورت حال میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ تعاون بڑا اہم ہے۔ سعودی عرب کے تعاون سے وہ منڈیاں جہاں توانائی کے ذرایع موجود ہیں پاکستان کی رسائی میں آ سکتی ہیں۔

پاکستان سے تجارتی مال دنیا کے بہت بڑے علاقے تک پہنچایا جا سکے گا۔ پاک سعودیہ تعلقات جو ماضی قریب میں صرف حج ، عمرہ اور تارکین وطن محنت کشوں کی حد تک رہ گئے تھے، ان تعلقات کا عمل دخل اب اقتصادی سیاسی و دفاعی شعبوں تک دکھائی دے رہا ہے۔

وقت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں بدلتی ریاستی حکمت عملی کا ساتھ دیں۔ پاکستان اور سعودی عرب دو ایسے اسلامی ممالک ہیں جو مذہب ، تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کے مسلسل سعودی عرب کے دوروں کے حوالے سے انتہائی خوش آیند بات یہ ہے کہ آنے والے وقت میں دونوں کے درمیان اقتصادیات ، معاشیات اور تجارت سے متعلق تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا جس سے دونوں ممالک میں استحکام اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔