کبھی تو سوچنا

سر پر اونچے شملے والی پگڑی ، ترکی ٹوپی یا جناح کیپ۔ وہ سادے زمانے تھے

بدلتی دنیا کے ساتھ سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ نہ بدلے تو غریب کے حالات۔ خیر اس وقت مجھے بات کچھ اورکرنا ہے، غریب کے حالات بھی ایک دن بدل ہی جائیں گے '' یہ بھی وقت گزر جائے گا'' میں اس وقت بات اپنے وکلا صاحبان کی کرنا چاہ رہا ہوں۔ مجھے تو لگتا ہے جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو۔ میں نے خود دیکھا ہے، لاہور میں وکلا حضرات کو ، سفید شلوار قمیض پہنے ، کالی ٹائی لگائے اور کالا کوٹ پہنے۔ اور سنیے وکلا کی بہت بڑی اکثریت ، بائیسکل پر سوار ، ہائی کورٹ اور لوئر کورٹ آیا کرتی تھی۔

سر پر اونچے شملے والی پگڑی ، ترکی ٹوپی یا جناح کیپ۔ وہ سادے زمانے تھے ، سادہ بود و باش تھی ، وکلا حضرات محلوں میں نہیں، محلوں میں رہتے تھے۔ معاشرے میں انھیں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، وکیل صاحب کو سائیکل پر سوار آتے دیکھ کر ، دوسرے سائیکل سوار یا پیدل چلنے والے انھیں راستہ دیتے تھے، جھک کر سلام کرتے تھے۔

محلے میں وکیل صاحب کا گھر معتبر سمجھا جاتا تھا اور خود وکیل صاحبان بھی اپنے مقام و مرتبے کا خیال دھیان رکھا کرتے تھے۔ وکالت کے پیشے کو بہت محترم اور باوقار پیشہ سمجھا جاتا تھا ، ہندوستان میں ہندو، مسلمان ، سکھ ، عیسائی اکثریت میں سبھی وکالت کے پیشے سے ہی منسلک تھے، ادیبوں، افسانہ نگاروں نے بڑی شاہکارکہانیاں وکیلوں کے موضوع پر لکھیں۔ ہندوؤں کے باپو گاندھی جی وکیل تھے اور بار ایٹ لا تھے ، مسلمانوں کے قائد اعظم بھی وکیل تھے اور یہ بھی بار ایٹ لا تھے۔ یہ وکالت کا پیشہ کس قدر بھاری ، وزنی ہے کہ ناتواں لوگوں سے یہ اٹھائے نہیں اٹھتا۔ مگر زمانے کے جہاں چلن بدلے وہیں وکالت کا وزنی پیشہ بھی ہلکا ہوتا چلا گیا۔

آج حال یہ ہے کہ ماشا اللہ پاکستان میں پچیس لاکھ خواتین حضرات وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں ، موٹرسائیکل سوار ہیں،کار سوار ہیں، محلوں کے ساتھ سا تھ محلوں میں بھی رہتے ہیں۔ دولت کی فراوانی ہے، مگر وہ سائیکل سوار وکیل والا عزت و وقار حاصل نہیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ جہاں وقت کے ساتھ سب کچھ روبہ زوال ہوا، وہاں وکالت بھی رسوائی کا شکار ہوئی۔

سانحہ عظیم سنیے اور ماتم کریں کہ غم کی گھڑی ہے۔ چاروں طرف سے یلغار ہے۔ غیروں کا ذکرکیا اپنے ہی کافی ہیں ، بہت ہیں ، کوئی نہیں سوچ رہا، کسی کو فکر نہیں کہ واقعی ملک کس درجہ نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ کوئی ہوش سے کام نہیں لے رہا ، سب جوش اور خروش سے کام لے رہے ہیں۔ 11 دسمبر 2019ء بدھ کا دن لاہور میں قانون کے رکھوالے ، کالے کوٹ والوں نے قانون کی دھجیاں بکھیرکے رکھ دیں۔ میرا یہ تبصرہ بھی بہت کم ہے، حالات کی سنگینی اس سے کہیں زیادہ ہے۔

وکلا نے اپنے بار رومز سے نکلتے ہوئے ذرا بھی نہ سوچا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں، ایک ایسے اسپتال کو ملبے کا ڈھیر بنانے جا رہے ہیں کہ جہاں دل کے عارضے میں مبتلا لوگ دوسری زندگی حاصل کرنے آتے ہیں، جہاں دل کے نازک ترین آپریشن کیے جاتے ہیں۔

کالے کوٹ والوں نے کچھ بھی نہ سوچا اور اپنے ہی دو عظیم ساتھی کالے کوٹ والے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور کالے کوٹ والے مصور پاکستان علامہ اقبال کے دل و جگر کو چھلنی کرکے رکھ دیا۔ بانیان پاکستان تو پہلے ہی زخموں سے چور چور ہیں۔ ان کے قائم کردہ ملک کو ان کے بتائے گئے اصولوں پر نہیں چلایا گیا، بلکہ اس کے الٹ۔ اس ملک کو کسی اور ڈگر پر لگا دیا۔ نتیجہ یہ کہ 70 سال کی لوٹ کھسوٹ کے بعد ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

ان حالات میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے کروڑوں روپوں کا نقصان کر ڈالا ، پتھر مار کے ، ڈنڈے مار کے، کرسیاں مار کے، قیمتی آلات توڑ ڈالے، ایمرجنسی وارڈ تباہ کرنے کے علاوہ انتہائی نگہداشت (ICU) اور آپریشن تھیٹر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کالے کوٹ پہنے لوگوں نے یہیں بس نہیں کی بلکہ انتہائی نازک مریضوں کو بھی موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف اسپتال چھوڑ کر بھاگ لیے۔ چند گارڈ اور ڈاکٹر و نرسنگ اسٹاف نے کہیں چھپ کر اپنی جان بچائی اور کالے کوٹ والوں نے جی بھرکے تباہی مچائی۔

شام ڈھلے اسپتال کا منظر یہ تھا کہ ہر طرف فرش پر ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے ہوئے تھے، ٹوٹی کرسیاں تھیں، اور قیمتی آلات ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے۔

ڈاکٹر بھی کچھ کم نہیں ہیں، خصوصاً ''ینگ ڈاکٹرز'' ان کی حرکتیں بھی سب کے سامنے ہیں، یہ اپنے سینئرز کا ذرہ برابر احترام نہیں کرتے، ان کی ہڑتالوں کے مناظر بھی بڑے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اپنی تنخواہوں اور مراعات کی آڑ میں آئے دن ہڑتالیں کرتے ہیں، ان ڈاکٹر صاحبان کو یہ سوچ پریشان نہیں کرتی کہ ان کے ارد گرد لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


یہ ڈاکٹر حضرات انھی غریبوں کا احساس کرتے ہوئے تھوڑا صبر شکرکا مظاہرہ کرتے ہوئے '' اچھے دنوں'' کا انتظار کر لیں اور قرضوں تلے دبے ہوئے ملک کی بدحالی کی خاطر تھوڑے میں ہی گزارا کرلیں مگر کہاں! یہ مسیحا ، یہ بیماروں کے دم ساز ، اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافوں کی خاطر مرتے ، دم توڑتے انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اسپتالوں کو تالے لگا کر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اور اس دوران بہت سے مریض انتقال کر جاتے ہیں۔

ان ڈاکٹروں کو دھینگا مشتی کرتے ہوئے کئی بار دیکھا تو لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے، انھیں لڑتے جھگڑتے دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ واقعی ڈاکٹر ہیں جو چھ سال اتنی اہم تعلیم حاصل کرکے مسیحا کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔

اب اس نوجوان ڈاکٹر کو قرار آگیا ، آرام آگیا، سکون مل گیا ! کہ جس نے اپنے ساتھی ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے وکلا کا تمسخر اڑایا ، وکلا کو طیش دلایا ، ان کے خلاف انتہائی طنزیہ شعر پڑھا۔ دیکھ لیا! اس تقریر اور شعرکا انجام؟

ڈاکٹرو! نہ تمہارا کچھ بگڑا، نہ تمہارا نقصان ہوا، اسپتال ٹوٹا ، عمارت ، فرنیچر تباہ ہوا۔ قیمتی ترین ڈاکٹری آلات ٹوٹے۔ اے وکیلو! تم نے اسپتال کو تباہ کرکے اپنے ''دل '' ٹھنڈے کر لیے، آپ کی بلا سے جو ''دل'' کا اسپتال برباد ہوگیا۔

نقصان تو غریب عوام کا ہوا ہے۔ غریبوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔

اے آج کے وکیلو ! اے آج کے ڈاکٹرو ! تم اپنے اپنے معزز پیشوں کا احترام چھوڑو اورگولیاں چلاؤ، توڑ پھوڑ کرو۔ دھینگا مشتی کرو، خوب کرو، اس لیے کہ تم آج کے وکیل ہو۔ تم آج کے ڈاکٹر ہو، وہ وکیل، وہ ڈاکٹر وہ اور لوگ تھے۔ اے آج کے وکیلو! اے آج کے ڈاکٹرو! کبھی تو سوچنا تم نے یہ کیا کیا لوگو! یہ مصرعہ شاعر احمد نوید کا ہے۔

وہ سب بھی دکھی ہوں گے' میاں محمود علی قصوری، اے کے بروہی، ایم انور بار ایٹ لا، اعجاز حسین بٹالوی، بیرسٹر عبدالودود، عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر کرمانی، ڈاکٹر یاور عباس، ڈاکٹر اے ڈبلیو شیخ، ڈاکٹر صلاح الدین اور بقید حیات ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی۔

اے وکیلو! اے ڈاکٹرو! تم تو ہمارے دوست ہو۔ جالبؔ کے دو مصرعے اور بس:

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
Load Next Story