دہشت گردی اور تحفظ پاکستان آرڈیننس
تحفظ پاکستان کی ذمے داری صرف وفاقی حکومت کی ہی نہیں ہوتی بلکہ سارے صوبوں کی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔
SUKKUR:
چند دنوں قبل صدر مملکت نے ایک آرڈیننس جاری کیا جسے ''تحفظ پاکستان آرڈیننس'' کا نام دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کا اجرا ایک طرف لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اس آرڈیننس کے اجرا کی ضرورت 66 سال گزر جانے کے بعد کیوں محسوس کی گئی؟ یوں تو تحفظ پاکستان یعنی ریاست کی حفاظت کا فریضہ پاکستان کی افواج دیتی ہیں اور دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سویلین قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی تحفظ پاکستان کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ افواج پاکستان ریاستی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں جب کہ سویلین قانون نافذ کرنے والے ادارے اندرون ملک کے حالات پر کنٹرول کرتے ہوئے عوامی حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا تحفظ بھی ہورہا ہے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ اس کے باوجود ایک نیا آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت پیش آنا باعث تشویش ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔
دہشت گرد عناصر دہشت گردی کے ذریعے بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں تو دوسری طرف امریکا ہمارے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے بھی بے گناہ شہری مارے جارہے ہیں۔ اس صورت حال میں تحفظ پاکستان کے اجرا پر شور مچایا جارہا ہے جو یقیناً حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا اجرا وقت کا تقاضا تھا جسے حکومت نے پورا کیا، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ حالات (امن و امان) دگرگوں ہوجانے کے بعد اس آرڈیننس کا اجرا تاخیر سے ہوا۔ اسے تو حالات کے بگڑنے سے قبل جاری ہوجانا چاہیے تھا بلکہ اس وقت جاری کیا جاتا جب پارلیمنٹ کے اجلاس جاری تھے تاکہ اس آرڈیننس کی منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کرکے اسے قانون کی شکل دی جاسکتی تھی۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا؟ اس آرڈیننس کے جاری ہوجانے کے بعد اس پر فوری عملدرآمد کی ضرورت بھی ہے ورنہ اس کی افادیت متاثر ہوگی کیونکہ اس وقت نہ ہی اسمبلیوں کے اجلاس ہورہے ہیں نہ ہی سینیٹ کے۔
تحفظ پاکستان کی ذمے داری صرف وفاقی حکومت کی ہی نہیں ہوتی بلکہ سارے صوبوں کی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ صوبوں کی حالت اس قدر بدحال ہے کہ وہ تحفظ پاکستان کے اقدامات کیا اٹھاتے وہ تو صوبوں کے اندرونی حالات پر قابو نہیں کر پارہے ہیں، بالخصوص تین صوبوں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کی حکومتیں تو اندرونی حالات پر قابو پانے میں اس بری طریقے سے ناکام ہوئی ہیں کہ دہشت گرد حاوی ہوگئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے متعلقہ صوبوں میں حکومتی رٹ قائم ہی نہیں ہو پا رہی ہے، دہشت گرد عناصر حکومتی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں اور صوبائی حکومتوں میں اس حد تک دباؤ بڑھا دیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حالات پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں تو یقیناً وفاقی حکومت کو مداخلت کرنالازم ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کو تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس آرڈیننس کے مندرجات بھی قابل غور ہیں اور اپنے اندر ایک وزن رکھتے ہیں، جن کو نظر انداز کرکے ان پر عملدرآمد نہ کرنا صوبائی حکومت کی نادانی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ فوراً صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس طلب کریں اور اس آرڈیننس پر بحث مباحثے کے بعد اس پر عملدرآمد کے لیے قانون سازی کریں۔ قانون پر عملدرآمد کرانا بھی صوبائی حکومتوں کی ذمے داری بنتی ہے۔
ابھی پچھلے چند دنوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن سے امن و امان کی صورت حال تبدیل ہورہی ہے۔ مگر لیاری گینگ وار کے دو گروپوں کی طرف سے پھر لیاری کے علاقے میں بڑی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوگیا اور اتنی شدت سے حملہ کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ناکام ہوکر پسپا ہوگئے۔ گو جانی و مالی نقصان کی کوئی خبر نہیں آئی مگر لیاری کے اندر وہی خوف اور دہشت کے مناظر سامنے آئے۔ عوام گھروں میں محصور ہوگئے۔ بازار بند ہوگئے۔ سڑکوں پر سناٹا چھا گیا۔ ایسے معلوم دیتا تھا جیسے کہ علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہو مگر یہ تو خود کار کرفیو لگ رہا تھا۔ ابھی تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آخر پھر سے پرسکون لیاری کے علاقے میں دوبارہ دہشت گردوں نے داخل ہوکر دہشت گردی کی کارروائی کی۔ ایسے میں کیا تحفظ پاکستان آرڈیننس کی افادیت محسوس نہیں کی جارہی ہے۔ یقیناً محسوس کی جارہی ہے۔ اور اب تو قانون نافذ کرنے والوں کی ذمے داری اور بڑھ گئی ہے۔
کیونکہ اب ان کے پاس دو دو آئی جیز تعینات ہیں ایک اوریجنل آئی جی دوسرا ایڈیشنل آئی جی۔ کیا دو دو آئی جیز کی موجودگی میں بھی دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ بڑی حیرت کی بات ہے۔ معلوم نہیں حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے سربراہان کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ حالات پر دوبارہ دہشت گردوں کا غلبہ ہونا ان حضرات کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے اور انھیں بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے اجرا کی افادیت کو سمجھنا چاہیے نہ کہ نظرانداز کردیا جائے۔ عوام ظلم کی چکی میں ویسے ہی پس رہے ہیں، اس پر ان دہشت گردوں کی بے لگام کارروائیوں کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کا خون بہہ رہا ہے۔ عوام کی حالت خستہ ہوگئی ہے، مہنگائی، بے روزگاری، غربت و افلاس نے ویسے ہی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس پر دہشت گردوں کا آزادانہ کارروائیاں کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ بات ہے غور کرنے کی، سوچنے کی، اس کے تدارک کی۔
عوام نے کڑوی گولیاں تو بہت کھالیں بلکہ بندوق کی گولیاں بھی کھاچکے اور کھا رہے ہیں۔ بار بار عوام کے صبرو برداشت کو نہ آزمائیے۔ اپنی صلاحیتوں کے گر آزمائیے اور عوام کو ان دہشت گردوں اور ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے نجات دلائیے۔ فوراً عملدرآمد کے لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس کا فوری مطالعہ کیجیے۔ اور اس کے غور طلب نکات پر عملدرآمد کرانے کا بندوبست کیجیے۔ یہ نفری کی کمی، فنڈز کی کمی، ہتھیاروں اور اسلحے کی کمی وغیرہ کے ڈھونگ نہ رچائیے۔ قابل، نڈر اور باصلاحیت اہلکار موجود ہوں گے، ان سے کام لیجیے۔ خالی خولی نعرے، دعوے اور منصوبوں سے عوام کے دل نہ بہلائیے۔ وہ وقت گیا جب عوام کو لالی پاپ دے کر بہلایا جاتا تھا۔ اب عوام جاگ گئے ہیں۔ عدالتیں آزاد ہیں۔ میڈیا آزاد ہے۔ حقائق سے چشم پوشی کا دور گیا۔ اب تو حقائق سے عوام بخوبی آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔ معصوموں، بے گناہوں کو پکڑ کر حوالات میں بند کرکے تشدد کے ذریعے اعترافی بیانات حاصل کرنا اور جھوٹی موٹی شہادتوں کا سہارا لینا اور مال خانوں سے چمکدار غیر استعمال شدہ اسلحہ نکال کر میڈیا کے سامنے میزوں پر سجا کر عوام کو بے وقوف نہ بنایا جائے۔
یہ وقت حقیقی معنوں میں ''عملداری'' کا دور ہے۔ محض زبانی کلامی کا دور گزر چکا۔ سنا نہیں آپ نے کہ چیف جسٹس صاحب (پاکستان) نے کیا کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ عدالتیں مقدمات کے فیصلے تو کردیتی ہیں لیکن حکومتیں ان پر عملدرآمد نہیں کراتیں، بلکہ ان فیصلوں کے خلاف الزام تراشیاں کی جاتی ہیں، ان فیصلوں کو التوا میں ڈال دیا جاتا ہے یا نظرانداز کردیاجاتا ہے۔ کیا یہی ڈھنگ ہے تحفظ پاکستان پر عملدرآمد کرانے کا۔ اگر کسی ملک کی تباہی کا کوئی عنصر ہوتا ہے تو اندرونی حالات کا بگڑنا یا بے قابو ہوجانا ہوتا ہے۔ اس لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس پر عملدرآمد ضروری اور لازمی ہے۔ اگر اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ان سے بھی آپ کو باخبر رہنا ہوگا۔