پارلیمانی اداروں سے عدم دلچسپی
اسمبلی ممبر منتخب ہونے کے بعد ہر ممبر وزیر، مشیر یا پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین بننا چاہتا ہے
ملک کا ایک اہم ستون مقننہ ہے جس کا حصہ بننے کے لیے سیاسی جماعتیں قائم کی جاتی ہیں جو قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں آنے کے لیے انتخاب لڑتی ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرکے اپنی حکومت بناتی ہیں اور ملک اور اپنے صوبے کی انتظامیہ بن جاتی ہیں جو ملک کا سب سے اہم ستون شمارکیا جاتا ہے۔ پارلیمانی اداروں میں آنے کے لیے بعض جماعتیں باہمی اتحاد سے اور بعض آزاد سیاستدان اور سرمایہ دار لاکھوں روپے خرچ کرکے انتخاب لڑتے ہیں اور کامیاب ہونے کے بعد بڑے فخر سے اپنے اپنے ایوان میں آکر حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کرکے اپنا فرض ادا کریں گے اورانھیں جو پارلیمانی ذمے داری ملے گی اسے وہ اداکریں گے۔
پارلیمانی اداروں کے لیے منتخب ہونے والوں کا پہلا کام قانون سازی ہوتا ہے اور یہ قانون سازی اسمبلیوں کے ایوانوں میں آکر ہی کی جاسکتی ہے گھر بیٹھ کر یا ایوان سے غیر حاضر رہ کر قانون سازی نہیں ہوسکتی اور اس کے لیے اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہونا ارکان اسمبلی کا فرض اولین ہوتا ہے۔
اسمبلی ممبر منتخب ہونے کے بعد ہر ممبر وزیر، مشیر یا پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین بننا چاہتا ہے تاکہ اسے کوئی محکمہ مل جائے اور اس کا اسمبلی میں آنے کا اصل مقصد پورا ہوجائے، اسمبلی کے ہر رکن کو تو یہ عہدہ ملنا ممکن نہیں ہوتا جس کے پاس صرف اسمبلی کی رکنیت باقی رہ جاتی ہے اور اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کے لیے آنے جانے کا انھیں الاؤنس اور وی آئی پی سہولت ملتی ہے۔ اسمبلی ہاسٹل میں رہنے کے لیے پرتعیش کمرہ مل جاتا ہے جو اسمبلی کی مدت تک ان کے پاس رہتا ہے۔
اسمبلی قوائد کے مطابق سال میں ہونے والے اجلاسوں کی دنوں کی مدت مقرر ہوتی ہے جن میں شرکت کے لیے انھیں اجلاس کی اطلاع اور ایجنڈا فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اور ایجنڈا پڑھ کر اجلاس میں شریک ہوسکیں اور ان اسمبلی اجلاسوں پر روزانہ کے اخراجات لاکھوں روپے آتے ہیں تاکہ قانون بنائے جاسکیں۔
قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں کورم کا مسئلہ درپیش رہتا ہے کیونکہ ان اداروں کے اجلاسوں میں ارکان دلچسپی نہیں لیتے۔ وہ اپنی مراعات اور تنخواہ کھری کرنے کے لیے پہلے روز حاضری لگانے اور وہاں وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں سے اپنے کاموں کے لیے ضرور آتے ہیں اور وہ وہاں اپنی مطلوبہ شخصیتوں کو نہ دیکھ کر ان کا ایوان میں دل نہیں لگتا۔ وہ کیفے ٹیریا اور پارلیمانی عمارتوں میں انھیں تلاش کرتے ہیں مگر وہ نہیں ملتے کیونکہ وہ آئیں گے تو ملیں گے وہ خود جب اجلاسوں میں نہیں آتے اور اپنے دفتروں میں موجود رہتے ہیں جس کی وجہ سے ارکان کو مجبوراً ان کے دفاتر جانا پڑتا ہے۔
سابق حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے واقعی یہ ریکارڈ قائم کیا تھا کہ وہ نئے اور مہنگے سوٹوںمیں ملبوس تھے۔ جہاں ان کی خبریں بھی بنتی تھیںاور ضرورت مند ارکان کو وزیر اعظم سے ملنے اورکام نکلوانے کا موقع مل جاتا تھا۔ ارکان اسمبلی کے لیے وزیروں سے ملنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ ان کے لیے وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ سے ملنا کافی مشکل ہوتا ہے اور انھیں ملاقات کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور بمشکل انھیں یہ وقت ملتا ہے اس لیے ارکان اسمبلی کی خواہش ہوتی ہے کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سے ایوان ہی میں ملاقات ہوجائے۔ ارکان قومی اسمبلی کی یہ خواہش سب سے زیادہ یوسف رضا گیلانی نے پوری کی۔ وزیر اعظم خود ایوان میں ہوتے تو کورم کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ جب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ہی ایوان میں موجود نہ ہوں تو ارکان اسمبلی کا وہاں دل نہیں لگتااور وہ وزیروں کے پاس چلے جاتے ہیں اوروزیروں سے ان کی ملاقاتیں طویل رہتی ہیں اور وزیر سے ملنے کے خواہشمند عام لوگ ان کے جانے کے منتظر رہتے ہیں۔ عام لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ وزیر موصوف اہم میٹنگ میں ہیں جب کہ اندر گپ شپ، حال احوال، کھانا پینا جاری رہتا ہے۔ ارکان اسمبلی وزیر موصوف کو اپنے حلقے میں مدعو کرتے ہیں جہاں وزیر کے اعزاز میں عشائیے اور ظہرانے کے لیے ارکان اسمبلی افسروں پر رعب ڈالنے کے لیے لوگ جمع کرتے ہیں اس لیے وزراء بھی عام لوگوں پر ارکان اسمبلی اور بااثر افراد کو ترجیح دیتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ایسے وزیر اعظم نہیں تھے جتنے بااختیار وزیر اعظم نواز شریف ہیں اس لیے ماضی کے برعکس اب ایوان صدر کے برعکس پی ایم ہاؤس کی اہمیت بڑھ گئی ہے مگر اب وزیر اعظم ارکان اسمبلی کو زیادہ وقت نہیں دے رہے اور نہ قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں شریک ہوتے ہیں ۔ اس لیے وزیر اعظم کی آمد نہ ہونے سے ارکان قومی اسمبلی اول توباقاعدگی سے آتے نہیں اور اگر آتے ہیں تو حاضری لگانے ہی کو اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں۔ موجودہ قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں کو وفاقی وزیر بھی اہمیت نہیں دیتے اسی لیے وہ بھی ایوان میں آنے کی زحمت نہیں کرتے اورگھنٹیاں بجتی رہتی ہیں ایوان کی آرام دہ کرسیاںارکان کی منتظر رہتی ہیں البتہ کورم سے محروم ان اجلاسوں پر قوم کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل کیے گئے کروڑوں روپے ضرور ارکان اسمبلی کے اکاؤنٹ میںپہنچ جاتے ہیں۔
وزیر اعظم ساڑھے چار ماہ کی عمر رکھنے والی قومی اسمبلی میں دو تین بار آئیمگر سینیٹ میں ایک بار بھی نہیں آئے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینے کے بھی خلاف ہیں جب کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت کا آسرا یہ ترقیاتی فنڈ ہی رہ گیا ہے۔ اگر یہ فنڈ بھی بند ہوجائے تو ایک بڑی تعداد اسمبلیوں کا الیکشن لڑنا ہی چھوڑ دے گی اور فنڈ ہاتھ میں رکھنے کے لیے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کا انتخاب لڑنے کو ترجیح دے گی جس کا مظاہرہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر ناظم بننے کے لیے ماضی میں کرچکے ہیں۔
جو ارکان اسمبلی وزیر مشیر نہیں بن سکے وہ محض قانون سازی کے لیے ایوان میں باقاعدگی سے آنا پسند نہیں کرتے جس سے قانون سازی کا عمل متاثر ہورہا ہے مگر ارکان اسمبلی کو کوئی فکر نہیں اور اپنے ایوانوں سے ان کی عدم دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے جس پر حکومتوں کو تو نہیں بلکہ انھیں منتخب کرنے والوں کو ضرور تشویش ہے۔