فوج جمہوریت کی دوست

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارے کے کام کو سمجھا جائے۔

shaikhjabir@gmail.com

ہمارے ہاں ایک غلط رائے یہ بھی بن گئی ہے کہ فوج جمہوریت کی دشمن ہوتی ہے۔ بڑے بڑے لکھنے پڑھنے اور بولنے والے یہ کہتے اور اس خیال کو عام کرتے نظر آتے ہیں کہ ''پاکستان میں فوج نے جمہوریت کو نہیں چلنے دیا، ورنہ انقلاب آجاتا۔ سیاست دانوں کو کام کا موقع ہی نہیں دیا گیا، جمہوریت کی روایت کو پھلنے پھولنے نہیںدیا گیا'' وغیرہ۔ بہت سے مذہبی اور سیکولر دانشوروں تک کا یہ ہی خیال نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جدید جمہوری نظام میں فوج جمہوریت کی قوت و طاقت کا سر چشمہ ہے؟ اس نظام کی پشت پناہ ہے؟ پشتی بان ہے یا دشمن؟ ہم دیکھتے ہیں ایوب خان نے سیاست دانوں کو ''ایبڈو'' کے تحت نااہل قرار دیا، ان کو رشوت لینے پر سزائیں دیں۔ سیاست دانوں کو پاک صاف کرکے الیکشن کرادیے۔ پہلے ''بی ڈی'' الیکشن پھر صدارتی انتخابات۔ انتخابات میں دھاندلی کردی، شور مچ گیا، مگر موجودہ اسمبلیاں جس ووٹر لسٹ کے تحت منتخب ہوئی ہیں، اس کے بارے میں الیکشن کمشنر نے بتایا کہ ووٹر لسٹوں میں ڈھائی کروڑ ووٹرز کے نام غلط تھے، جعلی تھے مگر جمہوری نظام چلتا رہتا ہے۔ آج بھی ''نادرا'' کی تصدیق، انگوٹھوں کی شناخت وغیرہ کے معاملات درپیش ہیں۔

جس ملک کے سیاستدانوں کو الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے یا الیکشن کی مخالفت کرتے ہوئے یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ الیکشن میں ووٹر اصلی ہیں یا جعلی، وہ بے چارے منتخب ہو کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یحییٰ خان نے سب سے پہلے صاف شفاف الیکشن کرائے، یہاں تک کہ پاکستان کی قریباً تمام سیاسی جماعتیں اسے تسلیم کرتی ہیں۔ پھر جب سیاستدان آپس میں لڑ مر رہے تھے تو ضیا الحق نے مداخلت کرکے سیاستدانوں کو پکڑا، کچھ کو رشوت دی، کچھ کو اقتدار دیا، کچھ کو گرفتار کیا، کچھ کو کوڑے مارے، کسی کو پھانسی دی، جس پر بہت سے سیاستدان خوش ہوئے۔ پھر انتخابات کرا دیے۔ انتخابات میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے۔ مشرف صاحب نے بھی یہ ہی کیا الیکشن کرا دیے۔ پہلے سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کی، رشوت ٹھیک کی، ''نیب'' بنایا (جس سے اب تک استفادہ جاری ہے)۔ جب سیاستدان پاک صاف ہوگئے اور عوام کے سامنے جانے کے قابل ہوگئے تو انتخابات کرادیے گئے۔ اقتدار سیاستدانوں کو سونپ دیا گیا۔ ہماری یہ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ پاکستانی فوج ہمیشہ جمہوریت کو اور جمہوری عمل کو بحال کرتی ہے۔ اگرفوج جمہوریت کی دشمن ہوتی تو ذوالفقار علی بھٹو اور آصف زرداری کے بعد پورے ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کرسکتی تھی۔ مگر وہ ہمیشہ جمہوریت کی پشت پناہ حامی اور محافظ ہی ثابت ہوئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارے کے کام کو سمجھا جائے۔ فوج کا کام یہ ہے کہ وہ ارادہ عامہ (جنرل وِل) کے تحت آزادی، مساوات اور ترقی کے ذریعے جمہوری نظام کو جڑ پکڑنے دے۔ اور ایک ایسا نظام جو آزادی، معاشی ترقی وغیرہ کے خلاف کام کررہا ہے اسے کام کرنے سے روک دے (مصر وغیرہ کی مثال)۔ فوج ملک کو جمہوریت کی پٹڑی پر ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فوج جو کام جمہوریت کے لیے کرتی ہے، اسے جمہوریت دشمنی سمجھ لیا جاتا ہے، اصلاً وہ جمہوریت دشمنی نہیں بلکہ جمہوریت نوازی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم اور ہمارے سیاست کار جدید ریاستوں کے ڈھانچے سے واقف نہیں۔ آج کی ریاستیں طاقت کے 6 مراکز میں منقسم ہیں۔ یہ چھ طاقتیں ایک دوسرے کو کنٹرول کرکے جمہوری عمل کو چلانے کی ذمے دار ہیں، ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ ساتویں طاقت عالمی اداروں مثلاً ورلڈ بینک، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، آئی ایم ایف، اقوامِ متحدہ وغیرہ کے احکامات کی تعمیل کو ممکن بنائیں، نیز ملٹی نیشنلز کے کام اور کاروبار کو استحکام بخشا جائے، تاکہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی چلتا رہے۔


دنیا میں جہاں جہاں جمہوری اقدار اور سرمایہ دارانہ نظام جڑ پکڑ لیتا ہے، وہاں فوج کا کام ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع کے بجائے دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام مسلط کرنا رہ جاتا ہے، جیسے نیٹو، امریکا، جیسے اقوامِ متحدہ کی فوج جن کا کام اب دنیا کے ہر اس ملک پر حملہ ہے جو سرمایہ داری کی راہ میں ہلکی سی مزاحمت کرسکتا ہو یا جس کے اندر مستقبل میں سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ بننے کی صلاحیت ہو، لہٰذا اب ان ملکوں کی فوجیں اپنے ہی ملکوںکو فتح کرنے کے بجائے آزادی، سرمایہ داری اور جمہوریت کے نام پر عراق، افغانستان، ویت نام، کمبوڈیا، لاطینی امریکا ہر جگہ حملے کرتی ہیں۔ بھارت نے سیاچین پر قبضہ کیا، پاکستان نے بہت بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی نہیں کی۔ تائیوان کی چین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں مگر چین نے تائیوان پر قبضے کی کوشش نہیں کی حتیٰ کہ اس نے ہانگ کانگ پر قبضے کے لیے بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ آخر کیوں؟ عموماً جنگیں سرمایہ داری کے مفادکے خلاف ہیں۔ بھارت، چین، تائیوان میں امریکی صنعت کاروں کے اربوں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری ہے، جنگ اس سرمایے کے لیے ٹھیک نہیںہے، لہٰذا جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ آج جنگیں سرمایہ کے امکان کو پیدا کرنے، سرمائے کی توسیع کرنے اور سرمایہ داری کے راستے میں حائل خطرات دور کرنے کے لیے، متنوع کثیر المقاصد حکمت عملی کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ سلامتی کونسل کے پانچ ممالک جو ویٹو کی پاور رکھتے ہیں دنیا کا 80 فیصد اسلحہ بناتے ہیں، امن کے نام پر اسلحہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ سرمایہ دارانہ امن پیدا کرنے کے لیے؟

جس طرح ہمارے پاکستانی سیاست دان ''معصوم'' ہیں، بعینہ ہندوستان، امریکا اور یورپ کا حال ہے۔ امریکا کا صدر تو ہالی وڈ کا ایک اداکار بھی ہوسکتا ہے۔ امریکی صدر ریگن ایک اداکار تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ''جمہور'' کے نمایندوںکے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی۔ یہ ایک علیحدہ اور بہت اہم مبحث ہے۔ جمہوریت میں اصل طاقت غیر منتخب اشرافیہ کے پاس ہوتی ہے جو ذہین، تعلیم یافتہ، اپنے فن کی ماہر ہوتی ہے۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ادق مباحث کو چھوڑ کر فرید زکریا کی کتاب ''فیوچر آف فریڈم'' کا امریکا سے متعلق باب دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ امریکا میں کانگریس، سینیٹ کے پاس صرف 15 فیصد اختیارات ہوتے ہیں، باقی پریشر گروپس وغیرہ کے پاس ہوتے ہیں۔

جمہوریت میں اقتدار سرمایہ دارانہ اقلیت کے پاس ہوتا ہے۔ پانچ غیر منتخب جمہوری اداروں کے فیصلوں پر عوامی نمایندے صرف ٹھپے لگاتے ہیں، ان انگوٹھا چھاپ لوگوں کو صحیح طرح ٹھپہ بھی لگانا نہیں آتا، جس آدمی کو سائنس کا پتہ نہیں وہ وزیر سائنس ہوتا ہے، جسے تعلیم اور علم کی حقیقت نہیں پتا، وہ وزیر تعلیم ہے، جس کو معیشت کا پتا نہیں وہ وزیر خزانہ ہوتا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ عوام غیر جمہوری فیصلوں کو جمہوری سمجھ کر ان کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کریں، لہٰذا بار بار جمہوریت میں عوام کی دہائی دی جاتی ہے۔ بھارت میں شہری آبادی میں نیوکلیر پلانٹ لگانے پر شہری احتجاج کرتے ہیں تو ان کو قتل کردیا جاتا ہے۔ کیونکہ پلانٹ تو لگے گا۔ عوامی احتجاج چہ معنی دارد۔ عوام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ان کو کیا معلوم کہ ان کے لیے کیا فائدہ مند ہے۔ اسے کہتے ہیں جمہوری جبر۔ یوں تو ہمیں آزادی کا درس دیا جاتا ہے لیکن اس جبر کی اجازت ہے۔

فوج وہ ادارہ ہے جو جمہوریت مخالف نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ جمہوری جبر کے نفاذ کا ذمے دار ہے۔
Load Next Story